- نیب کا بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے دفتر پر چھاپہ، ریکارڈ قبضے میں لے لیا
- عید الاضحیٰ پر کراچی میں مویشیوں کا سب سے بڑا شہر آباد، خریدار غائب
- پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان تیسرا ٹی ٹوئنٹی بارش کے باعث تاخیر کا شکار
- شدید گرمی میں پالتوجانوروں اور پرندوں پر خصوصی توجہ ضروری
- خیبرپختونخوا اسمبلی میں الیکشن ٹریبونل آرڈیننس کے خلاف قرارداد کثرت رائے سے منظور
- حکومتی اتحادی ایم کیو ایم پاکستان نے نیب ترامیم پر اعتراضات اٹھادیے
- جیسے انگریزوں سے آزادی لی ویسے ہی اپنا حق لیں گے، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا
- پاکستانی والی بال ٹیم کا آسٹریلیا کے خلاف فاتحانہ آغاز
- فلسطینی شہداء کے 1000 لواحقین بطور شاہی مہمان حج کریں گے
- شدید گرمی، اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کو روم کولر کی سہولت مل گئی
- کراچی: مویشیوں کی فیس کے نام پر ڈیڑھ سے دو ارب روپے کی کرپشن کا انکشاف
- خیبرپختونخوا پولیس کے ٹک ٹاک استعمال پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ
- کراچی میں کل سے یکم جون تک ہیٹ ویو کی پیش گوئی
- پاک بحریہ نے بھاری مقدار میں منشیات اسمگلنگ کی کوشش ناکام بنادی
- بھارت جنوبی ایشیا میں میزائل ڈیولپمنٹ قاتل ہے، جنرل(ر) زبیرمحمود حیات
- امریکا میں طوفان نے تباہی مچادی؛ 23 افراد ہلاک
- فوج کے قدموں میں بیٹھنے والا عمران خان آج فوجیوں اور انکے خاندانوں کو بدنام کررہا ہے، وزیراعظم
- ٹیٹو بنوانا خون کے کینسر کے خطرات بڑھا دیتا ہے، تحقیق
- ایلون مسک کا طاقتورترین اے آئی سپر کمپیوٹر بنانے کا منصوبہ
- تھائی لینڈ میں اسٹریٹ فوڈ بیچنے والا ’جان وِک‘ سوشل میڈیا پر چھا گیا
ترکی کا منفرد کیفے
ڈاؤن سنڈروم ایک جینیاتی نقص ہے جس میں مبتلا فرد کی جسمانی و ذہنی نشوونما متاثر ہوتی ہے ۔ اس وجہ سے اس مرض کے شکار زندگی کی دوڑ میں نارمل انسانوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ تعلیمی میدان کی طرح پیشہ ورانہ زندگی میں بھی انھیں سخت مشکلات پیش آتی ہیں۔ ذہنی طور پر پس ماندہ رہ جانے کی وجہ سے انھیں کوئی ملازمت دینے پر تیار نہیں ہوتا۔ مگر ترک دارالحکومت استنبول میں ایک کیفے ایسا ہے جہاں ان ہی افراد کو ملازم رکھا جاتا ہے۔ اسی مناسبت اس کیفے کو ’’ ڈاؤن کیفے‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
استنبول کے ضلع سسلی میں قائم منفرد کیفے کا مالک ساروہان سنجن ہے۔ ساروہان کی اپنی بیٹی سیزل بھی اسی جینیاتی نقص کا شکار ہے۔ سنجن کا کہنا ہے کہ بیٹی کی پرورش کرتے ہوئے اسے اس بات کا اچھی طرح ادراک ہوگیا تھا کہ پیشہ ورانہ زندگی میں اسے بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنے پڑے گا۔ بیٹی کے حوالے سے اسے اس مرض کا شکار دوسرے افراد کے مصائب کا بھی اندازہ ہوچکا تھا۔ چناں چہ اس کے دل میں انھیں سہارا دینے کا جذبہ جاگا۔
ساروہان نے ایک کیفے کھولا جہاں صرف ڈاؤن سنڈروم کا شکار نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ملازم رکھا گیا جن کی عمریں اٹھارہ سے پچیس سال کے درمیان تھیں۔ سیزل بھی کیفے چلانے میں والد کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ ساروہان کا کہنا ہے کہ کیفے کھولنے سے اس کا مقصد جیناتی نقص میں مبتلا نوجوانوں میں خوداعتمادی اور آزادی کا احساس پیدا کرکے انھیں زندگی کے مرکزی دھارے میں شامل کرنا ہے۔
ترکی کی نیشنل ڈاؤن سنڈروم ایسوسی ایشن کے مطابق ملک میں ہر سال 1500 بچے اس جینیاتی بگاڑ کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ ساروہان کے مطابق خصوصی توجہ کے ساتھ ساتھ ان افراد کو آزادانہ طور پر زندگی بسر کرنے کے قابل بنانا بھی بہت ضروری ہے۔ 2011ء میں ڈاؤن کیفے کھولتے وقت اس کے پیش نظر یہی مقصد تھا۔
ابتدا میں جب لوگوں کو کیفے کے عملے کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ یہاں آنے سے کترانے لگے تھے۔ مگر جو لوگ آئے وہ عملے کا طرز عمل اور ان کی معصومیت دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ رفتہ رفتہ یہاں آنے والے لوگوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔
ساروہان کے مطابق کیفے کے آغاز سے پہلے ملازمین کو دو ماہ تک ویٹر کے فرائض ادا کرنے کی تربیت دی گئی تھی۔ ڈاؤن سنڈروم کی وجہ سے بالغ ملازمین کی ذہنی سطح نو، دس سال کے بچوں کی طرح تھی۔ رفتہ رفتہ وہ اس قابل ہوگئے کہ گاہکوں کو خوش آمدید کہہ کر ان سے آرڈر لیں، اور انھیں ان کی مطلوبہ شے فراہم کرسکیں۔
ڈاؤن کیفے کے مالک کا کہنا ہے کہ اس کے ملازمین لوگوں کے ساتھ گھلنا ملنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ معاشرہ انھیں دوسرے نارمل انسانوں ہی کی طرح قبول کرے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی صلاحیتیں منوانے کے بھی متمنی ہیں۔
ساروہان کے جذبے اور ڈاؤن سنڈروم میں مبتلا افراد کے مصائب کے پیش نظر لوگوں نے اس کا ہاتھ بٹانا شروع کردیا ہے۔ کیفے کی آمدنی چوں کہ زیادہ نہیں، اس لیے کئی افراد رقوم عطیہ کرنے لگے ہیں۔ ملازمین میں سے کئی کی مائیں کچن کے کاموں میں رضاکارانہ طور پر ہاتھ بٹاتی ہیں، جب کہ کیفے کے بجلی، گیس اور پانی کے بل میونسپلٹی ادا کرتی ہے۔ کیفے کھولنے کے بعد ساروہان کو استنبول فاؤنڈیشن برائے ذہنی پس ماندگان، اور آلٹرنیٹیو لائف ایسوسی ایشن کا تعاون بھی حاصل ہوگیا تھا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔