آہ، اقبال حیدر بھی چلے گئے

مقتدا منصور  بدھ 14 نومبر 2012
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

یکم نومبر کو پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے ہال میں پاکستان سیکولر فورم کا سیمینار تھا۔ میں بزرگ سیاسی رہنماء اور دانشور بی ایم کٹی کے ساتھ وقت سے ذرا پہلے پہنچ گیا۔

تھوڑی ہی دیر میں اقبال حیدر بھی تشریف لے آئے۔چونکہ سیمینار شروع ہونے میں ابھی کچھ دیر تھی،اس لیے اقبال حیدر کے ساتھ مختلف موضوعات پرگفتگو شروع ہوگئی۔وہ خاصے ہشاش بشاش نظرآرہے تھے۔سیمینار میں بھی انھوں نے انتہائی مدلل اور پرجوش تقریر کرتے ہوئے پاکستان میں متحمل مزاجی اوررواداری پر مبنی معاشرے کی تشکیل کی اہمیت کے حق میں بھرپور دلائل دیے۔ان سے ملنے اور ان کی تقریر سننے کے بعدکسی کے وہم وگمان میں بھی نہیںتھا کہ یہ ان کی زندگی کاآخری سیمینار ہے اور یہ ہنستا مسکراتا پرعزم چہرہ چند ہی روز میں آسودہ خاک ہوجائے گا ۔ سیمینار ختم ہوتے ہی میں، بی ایم کٹی صاحب اور کرامت علی فوری طور پر واپس آگئے ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کراچی کے حالات خاصے مخدوش چل رہے ہیںاور ہم شہر سے باہرایک بستی میں رہتے ہیں ۔

اقبال حیدر سے میری پہلی ملاقات،محترم معراج محمد خان کے گھر واقع محمد علی سوسائٹی میں میرے ایک اور محترم دوست سید محمد مناظر کے توسط سے ہوئی۔ NSFسے تعلق کی وجہ سے میرا معراج محمد خان سے زمانہ طالب علمی سے عقیدت کا رشتہ رہا ہے، اس لیے قومی محاذ آزادی سے میری ہمدردیاں فطری تھیں۔اس زمانے میں قومی محاذ آزادی متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی مقبول سیاسی جماعت تھی۔ترقی پسند فکری خیالات رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد قومی محاذ آزادی سے وابستہ تھی۔ مناظر صاحب بھی قومی محاذ آزادی میں خاصے فعال تھے اور تقریباً روز ہی معراج بھائی کے گھر جایا کرتے تھے۔میں بھی اکثر وبیشتر ان کے ساتھ وہاں جاتا تھا۔

وہ زمانہ تھا جب ایم آرڈی کی تشکیل کی کوششیں آخری مرحلے میں تھیں اور معراج بھائی کا گھر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ وہیں دیگر دوستوں کے علاوہ اقبال حیدرسے بھی میری ملاقات ہوئی۔اس پہلی ملاقات میں مجھے اندازہ ہوا کہ اقبال حیدر نہ صرف ذہین اور سمجھ دار وکیل ہیں، بلکہ اپنے نظریات اور افکار میں بھی واضح ہیں۔ وہ نہایت وضع دار، متین اور سلجھے ہوئے انسان کے ساتھ شائستگی کے ساتھ گفتگو کرنے کا سلیقہ بھی رکھتے ہیں۔لہٰذا اس دوران ان سے سیاسی اور سماجی امور پر طویل گفتگو کے کئی مواقعے ملے۔

جب ایم آرڈی وجود میں آئی تو اس کے قیام کے فوراً بعد ہی اقبال حیدر قومی محاذ آزادی کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوگئے۔معراج بھائی کی قائدانہ اور اقبال حیدرکی تنظیمی صلاحیتوں کے سبب قومی محاذ آزادی ایم آرڈی میںایک نمایاں مقام کی حامل جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ اگر میںصحافتی تجربے کی بنیاد پر یہ کہوں توقطعی غلط نہ ہوگا کہ ایم آرڈی تحریک کے دوران جتنی قربانیاںمعراج بھائی کی قیادت میں قومی محاذ آزادی اور فاضل راہو مرحوم کی زیر قیادت عوامی تحریک نے دیں، شاید ہی کسی اور جماعت نے دی ہوں۔

1983 میںایم آرڈی کی تحریک کے دوران سب سے زیادہ کارکن انھی دونوں جماعتوں کے گرفتار ہوئے۔ اقبال حیدر نے بھی اس دوران کئی بار قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔اس جماعت کے کئی رہنماء ایک سے زائد مرتبہ گرفتار ہوئے اور ان پر بہیمانہ تشدد کیا گیا۔قومی محاذ آزادی کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے جانِ عالم ایڈووکیٹ کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی، جنہوں نے اس دوران جو سختیاں جھیلیں وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کاایک انمٹ باب ہیں۔

ایم آرڈی کی تحریک کے نتیجے میں جنرل ضیاء انتخابات کرانے پر مجبور ہوئے اور مارشل لاء کے خاتمے کی امید پیدا ہوئی۔یہ ایک الگ داستان ہے، جس پر کسی اور وقت تفصیلی گفتگو ہوسکتی ہے۔بات یہ ہو رہی تھی کہ ایم آرڈی کی مرکزی مجلس عاملہ میں یہ طے ہوا تھا کہ اتحاد میں شامل تمام جماعتیں اپنے طور پر عام انتخابات میں حصہ لیں گی۔ لیکن ساتھ ہی یہ اصولی فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ کوئی بھی جماعت اتحاد میں شامل جماعتوں کے قائدین کے خلاف اپنا نمایندہ کھڑا نہیں کرے گی۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس اصول پر عمل نہیں ہو سکا۔ 1988 کے وسط میں اقبال حیدر قومی محاذ آزادی چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں گئے تو مجھے جھٹکا لگا۔

لیکن جب پیپلز پارٹی نے انھیں لانڈھی کی نشست پر معراج بھائی کے مقابلے پر ٹکٹ دیا تو بہت زیادہ افسوس ہوا۔ ایک تو مجھے اقبال حیدر کے عین انتخابات کے زمانے میں قومی محاذ آزادی چھوڑنے کا قلق تھا۔دوسرے ان کا معراج بھائی کے مقابلے میں الیکشن لڑنا اور بھی زیادہ برا لگا۔ حالانکہ تاج حیدرسمیت کئی رہنماء بھی قومی محاذ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں جاچکے تھے۔ یہی سبب تھا کہ میں کئی برس تک اقبال حیدر سے کھچا کھچا سا رہا۔ لیکن بعد میں مجھے اندازہ ہوا کہ اقبال حیدر نے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے باوجود اپنے نظریات اور افکار کا دامن سختی سے تھام رکھا ہے اور معراج بھائی کے لیے احترام کا سابقہ جذبہ رکھتے ہیں، تو میری کدورت خاصی حد تک ختم ہوگئی۔ اقبال حیدر سے تعلقات کی بحالی میں میرے بزرگ بی ایم کٹی اور پائلر کے کرامت علی کا بھی اہم کردار تھا۔

پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد اقبال حیدر انتہائی اہم عہدوں پر فائز رہے۔وہ سینٹرل ایگزیکٹو کے رکن بنے، اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے اور وزیر قانون بنائے گئے،مگر ان کے دامن پر کوئی دھبہ نہیں لگا۔اس دوران انھوں نے بعض قانون سازی کو صحیح سمت دینے کے لیے مقدور بھر کوشش کی۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ 1996 میں عزت کے نام پر قتل (Honour killing)کے خلاف سینیٹ میں بل پیش کیا اور اس پر پابندی عائد کرانے کی کوشش کی۔ لیکن67کے ایوان میں سینیٹر جمیل الدین عالی اور بیرسٹر اعتزازاحسن کے علاوہ کسی رکن سینیٹ نے اس بل کی حمایت نہیں کی۔

جس کی وجہ سے یہ سرد خانے میں چلاگیا۔یہ اس ملک کی تاریخ کا ایک ایسا سیاہ باب ہے ،کیونکہ اجلے قیمتی سوٹ زیب تن کرنے ، بیرون ملک سے اعلیٰ ڈگریاں لینے اور ترقی پسندی کے دعویدارکئی سینٹروں نے Honour killing کو قبائلی روایات کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس پر قدغن کی مخالفت کی۔مگر آفرین ہے اقبال حیدرکو جنہوں نے اپنا فرض پوری نظریاتی دیانتداری کے ساتھ ادا کیا۔

جلد ہی ان کے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے اختلافات شروع ہوگئے اور وہ پیپلز پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔پیپلز پارٹی سے علیحدگی کے بعد اقبال حیدر نے حقوق انسانی کمیشن پاکستان (HRCP) میں خدمات سرانجام دیں اور اس کے شریک چیئرپرسن کے عہدے تک پہنچے۔اس کے بعد وہ2007 میں شروع ہونے والی وکلا تحریک کے ہراول دستے میں شامل رہے اور بھرپور انداز میں عدلیہ کی بحالی کے لیے کوشاں رہے۔اس سال کے اوائل میں انھوں نے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر پاکستان سیکولر فورم تشکیل دیا ،جو اپنی تشکیل کے ابتدائی مراحل میں ہے۔ وہ بڑی تندہی کے ساتھ اس فورم کو فعال بنانے کی کوششوں میں مصروف تھے اور چاہتے تھے کہ یہ فورم عوامی سطح پر لوگوں کی فکری تربیت کرے اور انھیں سمجھائے کہ وہ جس پاکستان میں رہتے ہیں وہ قائداعظم کا پاکستان نہیں ہے، بلکہ اسٹبلشمنٹ کی ریشہ دوانیوںکے نتیجے میں حلیہ بگڑچکاہے۔مگر موت نے انھیں اپنا مشن مکمل کرنے کا موقع نہیں دیا۔

اقبال حیدر جہاں اپنے نظریات اور افکار میں راسخ تھے، وہیں وہ جرأت مند اور جری انسان بھی تھے۔ وہ ہر قسم کی مصلحت سے بلند ہوکر اپنی رائے کا کھل کر اظہار کیا کرتے تھے۔جہاں وہ ایم کیوایم کی بعض پالیسیوں کے شدید ناقد تھے اور برملاتنقید کیا کرتے تھے، وہیں وہ اس جماعت کے بعض اقدامات کی تعریف کرنے میں بھی بخل سے کام نہیں لیتے تھے۔ سپریم کورٹ میں کراچی کے حالات پر اپنے دلائل دیتے ہوئے انھوں نے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی پر کڑی تنقید کی تھی۔ لیکن یکم نومبر کو ہونے والے سیمینار میں انھوں نے مذہبی شدت پسندی کے بارے میں ایم کیو ایم کے کردار کی کھل کر تعریف بھی کی۔

ہمارے معاشرے میں ایک بدعت بڑی تیزی کے ساتھ پھیلی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کے علاوہ سیاسی تجزیہ نگار بھی سیاسی جماعتوں کے بارے میں پسند اور ناپسند کے دائرے میں قید ہوکر تعریف یا تنقید کرتے ہیں۔ حالانکہ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کا جائزہ Issue to Issue لینے سے عوام کی بہتر انداز میں فکری تربیت کی جاسکتی تھی۔ بہر حال اقبال حیدر کے ساتھ گذرے لمحات اور ان کے کردار پر ایک نہیں درجنوں اظہاریے بھی کم ہیں۔ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی ہمیں چھوڑ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، عجب قلندر صفت انسان تھے، جنھیں دوست تو دوست دشمن بھی پیار کیا کرتے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔