ناکامی کا کوئی وجود نہیں

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 3 اگست 2016

جس طرح انسان گہرے ہوتے ہیں، اسی طرح سے الفاظ بھی گہرے ہوتے ہیں، دونوں کو ہی سمجھنے کے لیے بڑی گہرائی کی ضرورت ہوتی ہے، دونوں کے ہی اندر بہت لمبا سفر طے کرنا پڑتا ہے تب جاکر ان کا سراغ ملتا ہے۔

دونوں کو ہی سطحی طور پر دیکھنے میں سوائے ناکامی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے۔ اب لفظ ناکا می کو ہی لے لیجیے جس کو ہم اب تک سمجھ نہیں پائے ہیں اور اسے نہ سمجھنے کی وجہ سے نجانے کتنے لوگ مایوسی کے اندھے کنویں میں اتر گئے اور پھر کبھی اس سے باہر نہ آ سکے ۔ آئیں! لفظ ناکامی کے اندر سفر کرتے ہیں ۔ ’’کمرے میں اعصاب شکن سکوت چھایا ہوا تھا ’’ہوں تو میں کہہ رہا تھا‘‘ پروفیسر نے گلا صاف کرتے ہوئے کہا ’’دنیا میں صرف ایک شخص ایسا ہے جو کبھی بھی ناکام نہیں ہوا اس نے جو چاہا وہی پایا جو خواب دیکھا اس کی تعبیر پائی جو ارادہ کیا اس میں کامران ٹہرا وہ زندگی میں کبھی بھی ناکام نہیں ہوا کیا تم میں سے کوئی اس شخص کا نام بتا سکتا ہے۔

’’سکندراعظم ‘‘ ایک طرف سے آواز آئی ’’نہیں‘‘ پروفیسر نے نفی میں سر ہلایا ’’ جارج واشنگٹن ، نپولین، چرچل، لنکن، صلاح الدین ایوبی‘‘ مختلف آوازیں گونجتی رہیں لیکن پروفیسر کا سر نفی میں ہلتا رہا۔ ’’ ان لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں‘‘ اس نے مسکرا کر کہا ’’تو پھر آخر وہ شخص ہے کون ‘‘ ایک طالب علم نے بڑے اشتیاق سے پوچھا ’’ میں اس شخص کی بات کر رہا ہوں‘‘ پروفیسر نے پر اسرار سے لہجے میں کہا ’’جس نے زندگی میں کبھی کوئی کام نہیں کیا‘‘ جی ہاں دنیا میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو اپنے ہر ارادہ، ہر خواب، ہر کوشش، ہر مقصد میں کامیاب ہوا ہو کوئی بھی فاتح، بادشاہ، سیاستدان، سائنسدان، موجد، مہم جو، قلمکار ہمیشہ کامیاب نہیں رہا، کچھ لوگ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں اور کچھ لوگ کم کامیاب ہوتے ہیں کم کامیاب ہونے والوں کو ناکام کہا جاتا ہے۔ پروفیسر نے دھیمے سے لہجے میں اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا۔

آئن اسٹائن نے کہا تھا ’’ناکامی کوئی وجود نہیں رکھتی۔ ناکامی سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ کوئی کام نہیں ہوا حالانکہ منطقی اعتبار سے یہ بات غلط ہے ناکامی میں کام ضرور ہوتا ہے لیکن وہ ایک خاص شرح سے ہوتا ہے مثلاً اگر کسی امتحان میں پاس ہونے کے لیے پچاس فیصد نمبر درکار ہیں تو 10% فیصد ،20% یا 45% نمبر لینے والے طالب علم نے کچھ نہ کچھ حاصل ضرور کیا ہے ہاں البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پچاس فیصد سے زیادہ نمبر لینے والا طالب علم زیادہ کامیاب ہوا ہے اور صفر سے 49% نمبر لینے والا طالب علم اس کی نسبت کم کامیاب ہوا ہے مکمل ناکامی کوئی وجود نہیں رکھتی ہے۔‘‘

ایڈیسن نے بلب ایجاد کرنے کے لیے نو ہزارنو سو ننانوے تجربات کیے تھے جب وہ اپنا دس ہزارواں تجربہ کرنے لگا تو اس کے اسسٹنٹ نے سوجی ہوئی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا اور ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا ’’ سر اب کوئی امید نہیں ہے ہم اپنی تمام کوششیں کر چکے ہیں ہم ناکام ہو چکے ہیں ’’نہیں نہیں‘‘ تم غلط سمجھے ہو‘‘ سن ہوتے ہوئے اعصاب کے باوجود ایڈیسن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ’’ہم ناکام نہیں ہوئے‘‘ ہمیں بلب نہ بنانے کے 9999 طریقے معلوم ہو چکے ہیں گویا ہمیں پتہ چل چکا ہے کہ ان طریقوں پر عمل کرنے سے بلب نہیں بن سکتا۔ اگلی مرتبہ ہمیں کوئی نیا طریقہ دریافت کر کے بلب بنانا ہو گا۔ اگلے تجربے پر ایڈیسن بلب ایجاد کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ناکامی کامیابی کی ماں ہے کامیابی ہمیشہ ناکامی ہی میں سے جنم لیتی ہے۔

سگمنڈفرائیڈ نے اسی حوالے سے کہا تھا ’’ہم نے یہ بات بھلا دی کہ ہر شخص ناکام ہونے کا پورا پورا حق رکھتا ہے‘‘ ناکامی انسان کے لیے نہ صرف بہتر ہے بلکہ ضروری بھی ہے۔ پھر بھی اگر آپ ناکامی سے بچنا چاہتے ہیں تو پھر آپ زندگی بھرکوئی بھی کام کسی بھی صورت نہ کریں اور بس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ اس طرح آپ ہمیشہ کامیاب رہیں گے۔

آئیں! اپنی بات کرتے ہیں یعنی 20 کروڑ انسانوں کی بات کرتے ہیں ہم سب 20 کروڑ 67 سالوں کی کوششوں کے بعد بھی اب تک اپنی زندگی بدل نہیں پائے ہیں۔ اپنی زندگی کو مسائل سے پاک نہیں کر پائے ہیں۔ اتنے سارے لوگوں پر اعتماد کرنے کے بعد بھی کامیاب اور خو شحال نہیں ہو پائے ہیں۔ ایڈیسن تو صرف دس ہزار تجربے کے بعد کامیابی سے ہمکنار ہو گیا تھا لیکن ہم تو لاکھوں تجربوں کے بعد بھی کامیابی کو چھو نہیں سکے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب ناکام ہو گئے ہیں کیا ہمارے سارے خواب ڈراؤنے خواب بن چکے ہیں، کیا ہماری امیدیں چڑیلیں بن چکی ہیں۔ جو ہمیں ڈراتی پھرتی ہیں کیا ہم مایوسی کی دلدل میں اتر چکے ہیں۔ نہیں بالکل نہیں ہمارے خواب آج بھی زندہ ہیں ہماری امیدیں آج بھی ہمارے آس پاس  ہی ہیں۔

ہم نے اپنی کوششیں اور جدوجہد ترک نہیں کی ہیں۔ ہمیں یہ معلوم چل چکا ہے کہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہم نے اب تک جو تجربات کیے ہیں ان کے نتیجے میں کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ خوشحالی نہیں مل سکتی ہے ہم دنیا کے ترقی یافتہ، کامیاب، خوشحال لوگوں کے مقابلے میں بہت کم کامیاب ہوئے ہیں لیکن کامیاب ضرور ہو ئے ہیں یہ سچ ہے کہ ہم نے ان کی طرح 100% کامیابی حاصل نہیں کی لیکن ہم 5% تو کامیاب ضرور ہوئے ہیں۔ کیا ہماری کامیابی کم ہے کہ ہم یہ جان چکے ہیں کہ ہماری کامیابی اور خوشحالی کون کون سے طاقتور، بااختیار اور اہل ثروت نہیں چاہتے ہیں کیا یہ ہماری یہ کامیابی کم ہے کہ ہمیں یہ پتہ چل چکا ہے کہ کس نے ہمارے حق پر ڈاکا ڈالا ہے کس کس نے ہماری خوشیوں، آزادی، خوشحالی، ترقی کو لوٹا ہے ہمیں برباد کر کے کس کس نے محلات بنائے ہیں، کس کس نے جاگیریں خریدی ہیں کیا ہماری یہ کامیابی کم ہے کہ ہم ڈاکوؤں، غاصبوں اور لٹیروں کو پہچان چکے ہیں۔

آج ہمارے سامنے وہ سب کے سب بے نقاب ہو چکے ہیں ہم ان سب کے کرتوتوں سے آگاہ ہو چکے ہیں۔ ہمیں اپنے دوستوں اور دشمنوں کا پتہ چل گیا ہے ہم سب بہروپیوں کو جان چکے ہیں اب ہمیں معلوم چل گیا ہے کہ آیندہ ہمیں کیا کرنا ہے ہمیں یقین ہے کہ ہم ایک روز وہ تجربہ کر ہی ڈالیں گے کہ جس کے نتیجے میں کامیابی کے سارے زنگ آلود دروازوں کے زنگ آلود تالے ٹو ٹ ہی جائیں گے آخر کامیابی، خوشحالی، آزادی، ترقی، مساوات کے دروازوں کو ہمارے لیے کھلنا ہی کھلنا ہے آج نہ سہی تو کل سہی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔