سیاست کے استاد

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 2 نومبر 2016

ایک جنگل میں شیر نے جست لگا کر بندر کو دبوچ لیا اور اس سے پوچھا، بتاؤ جنگل کا بادشاہ کون ہے؟ حضور آپ کے سوا اور کون ہو سکتا ہے۔ بندر کے جواب پر شیر نے اسے چھوڑ دیا، پھر شیر کو ایک زیبرا نظر آیا، شیر نے اسے بھی دبوچ لیا اور اس سے بھی وہی سوال کیا کہ جنگل کا بادشاہ کون ہے؟ حضور شیر کے سوا جنگل کا بادشاہ کون ہو سکتا ہے۔ زیبرا کے اس جواب پر شیر نے اسے بھی چھوڑ دیا۔ پھر شیر کی ملاقات ہاتھی سے ہوئی۔ شیر نے گرج کر دھاڑ کر اسے ڈرانے کی کوشش کی اور پھر اس سے بھی وہی سوال پوچھا، بتاؤ جنگل کا بادشاہ کون ہے؟ ہاتھی نے جواب دینے کے بجائے شیر کو اپنی سونڈ میں لپیٹا اور اٹھا کر بیس فٹ دور پھینک دیا۔ شیر نے گرنے کے بعد خود کو سنبھالا اور اٹھ کر مخالف سمت میں یہ کہتا ہوا چل دیا، جس بے وقوف کو جواب کا ہی نہیں پتہ اس سے الجھنا کیسا۔

یہی کچھ حال ہمارے سیاسی شیر کا بھی ہوا، ہمارا سیاسی شیر اقتدار میں آ کر فوراً آپے سے باہر ہو گیا اور طاقت کے نشے میں سرشار ہو کر اس نے ہر اہم جگہ دھاڑنا شروع کر دیا۔ ابتدا میں اس نے چھوٹے موٹوں کو دبوچ کر وہی سوال پوچھنا شروع کیا، جواب ظاہر ہے وہی ملا جو اصلی شیر کو ملا تھا پھر آہستہ آہستہ اس کی ہمت بڑھتی چلی گئی اور پھر ایک روز وہ بھی وہی غلطی کر بیٹھا جو جنگل کے شیر نے کی تھی۔ پہلے وہ انتہائی طاقتور کے سامنے گرجا، پھر دھاڑ کر اسے ڈرانے کی کوشش کی اور پھر وہی نتیجہ نکلا جو نکلنا تھا۔

اصل میں جب آپ پر برا وقت شروع ہو جاتا ہے تو پھر آپ صحیح سوال غلط آدمی سے پوچھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں اور غلط سوال صحیح آدمی سے پوچھنے لگ جاتے ہیں اور پھر نتیجے پر قسمت کو برا بھلا کہنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں قصور آپ کا نہیں ہوتا، دراصل جب آپ کی دشمنی عقل سے ہو جاتی ہے تو پھر انہونیاں ہی انہونیاں ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور پھر آپ اپنے آپ سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جوکچھ میں نے کیا ہے میں اس کے علاوہ کچھ اور بھی کر سکتا تھا۔

ہمارا شمار اس دلچسپ قوم میں ہوتا ہے جنھوں نے ہمیشہ ہی اپنے مسائل ختم کیے بغیر انھیں دفنا کر ان کی قبریں بنا ڈالی ہیں۔ آج ہمارے ملک میں انسانوں سے زیادہ ہمارے مسائل کی قبریں ہیں، جنھیں گنا نہیں جا سکتا۔ اب مسائل کا اتنا بڑا قبرستان بن گیا ہے کہ جہاں تک نظریں جا سکتی ہیں وہاں تک آپ کو قبریں ہی قبریں نظر آئیں گی۔ دنیا کا سب سے طویل قبرستان۔ چونکہ مسائل زندہ درگور کیے گئے تھے، اس لیے وہ سب کے سب بھوت بن کر ہمارے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں۔ اب ہم ہیں اور ہمارے چاروں طرف کھڑے بھوت قہقہے لگا رہے ہیں۔

ابھی پچھلے دنوں مسائل کے قبرستان میں دو نئی قبروں کا اور اضافہ ہو گیا ہے پانامہ لیکس کی قبر کا اور انگریزی اخبار کی پلانٹڈ خبر کا، جس پر وزیروں کی پوری فوج دن رات چراغاں کرنے میں مصروف ہے۔ قبروں پر ہر وقت پانی کا چھڑکاؤ کیا جارہا ہے، سارا وقت اگربتیاں جلائی جا رہی ہیں، گلی گلی، محلہ محلہ ان قبروںکا چرچا ہو رہا ہے۔ کسی کے چہرے پر مسکراہٹ ہے تو کسی کا رنگ پیلا پڑا ہے، کسی کے چہرے پر لالی آ گئی ہے تو کسی کا چہرہ ڈراؤنا ہو گیا ہے، کہیں تو گھبراہٹ کا یہ عالم ہے کہ پانامہ لیکس اور انگریزی اخبار کی پلانٹڈ خبر کو را کی سازش قرار دیا جا رہا ہے۔

اب چاہے کچھ بھی کہہ لو، کچھ بھی کر لو، یہ دونوں بھوت کسی بھی صورت پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ یہ ہمارے بھوتوں میں سب سے زیادہ ڈراؤنے بھوت ہیں، جو نہ تو جینے دیں گے اور نہ ہی سونے دیں گے۔ اب چاہے کوئی کتنا ہی ردِ بلا کا ورد ہی کیوں نہ کر لے، ان سے جان چھڑانا اب ناممکن ہے۔ لیکن اپنی سی کوششیں اب تک جاری ہیں۔ دنیا بھر میں عاملوں کو ڈھونڈا جا رہا ہے، مشورے پر مشورے ہو رہے ہیں، فال نکلوائی جا رہی ہیں، استخاروں پر زور ہے، نامی گرامی باباؤں کو تلاش کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کی ایک ٹیم تو بنگلہ دیش بھی جا چکی ہے جو نامور بنگالی عاملوں کو لے کر بس پہنچنے ہی والی ہے۔

کراچی میں تین ہٹی کے پل کے پاس ایک زمانے میں جو عاملوں کی پوری فوج بیٹھا کرتی تھی، ان کو گھر گھر تلاش کیا جا رہا ہے، ٹی وی چینلز اور اخبارات میں ان بھوتوں سے جان چھڑانے والے کے لیے بڑے بڑے انعاموں کے اشتہارات دینے کی پلاننگ ہو رہی ہے۔ متاثرین کے گھروں میں وظیفے پڑھے جا رہے ہیں۔ مثاترین خلا کو گھورتے ہوئے ایک ہی بات بار بار کہے جا رہے ہیں کہ آخر انسان کا دشمن انسان کیوں ہے، ہر کوئی دوسرے کے پیچھے کیوں پڑا ہوا ہے، انسان کو دوسرے کی خوشحالی اور خوشیاں کیوں برداشت نہیں ہوتیں۔

قدرت جب کچھ کرنے والی ہوتی ہے تو وہ اشارے دیتی ہے، آندھی سے پہلے تیز ہوا شروع ہو جاتی ہے، آسمان کا رنگ تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے، زلزلے سے پہلے اس جگہ سے پرندے اڑ جاتے ہیں، بارش سے پہلے گہرے سیاہ بادل آسمان پر چھا جاتے ہیں۔ جو لوگ ان اشاروں کو سمجھتے ہیں وہ محفوظ پناہ گاہوں اور اپنے اپنے گھروں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور اگر کسی کی عقل سے دشمنی ہو تو وہ سٹرک یا میدان کے بیچوں بیچ کھڑا رہتا ہے۔ پھر انجام کے بعد اپنے نصیبوں کو رونا شروع کر دیتا ہے۔

آئیں ذرا ہم اپنے ذہنوں پر زور ڈالیں۔ کالج کے زمانے میں کیمسٹری کے استاد لیباریٹری میں ایسے ایسے تجربے کر کے دکھاتے تھے کہ سب حیران رہ جاتے تھے۔ ان تجربوں کے نتیجے ہمارے لیے حیران کن ہوتے تھے لیکن ہمارے استاد کے لیے وہ ایک عام سی بات تھی، کیونکہ انھیں پہلے سے معلوم ہوتا تھا کہ کسی محلول کو کس محلول سے ملائیں گے تو کیا نتیجہ برآمد ہو گا۔ بالکل اسی طرح سیاست ہے، یہ بھی قدرت کی طرح کچھ ہونے سے پہلے اشارے دے دیتی ہے اور جو سیاست کے استاد ہیں، انھیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ تبدیلی سے پہلے کون کون سے حالات و واقعات رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایسا کرتے ہیں کہ ہم خود بھی نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے لیے ہمیں تاریخ میں سفر کرنا ہو گا۔

آپ 1958ء میں ایوب خان کی اقتدار میں آنے سے پہلے کے حالات و واقعات کا بغور مطالعہ کر لیں اور جب آپ یحییٰ خان کے اقتدار میں آنے سے پہلے کے، پھر شہید ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے سے پہلے کے، اور شہید بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار کے خاتمے سے پہلے اور میاں نوازشریف کے دونوں ادوار کے خاتمے سے پہلے کے حالات و واقعات کا بغو ر مطالعہ کر لیں گے تو پھر آپ بھی کچھ کچھ سیاست کے استاد ہونا شروع ہو جائیں گے۔

اس لیے پاکستان کے موجود ہ حالات بالکل سیدھے سادے سے ہیں، جو کچھ طے ہے، وہ ہو کر رہے گا، آپ لاکھ برا مانیں، لاکھ مچلیں، لاکھ اکڑیں۔ جو طے ہے وہ طے ہے۔ کہتے ہیں کہ سارے سیانے ایک جیسا سوچتے ہیں اور سارے بے وقوف ایک ہی جیسی حرکت کرتے ہیں۔ اس لیے اشاروں کو سمجھنے کی کوشش کریں، آندھی کے سامنے کھڑے ہونے کا نقصان آپ کو ہی ہونا ہے نہ کہ آندھی کو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔