- میکسیکو میں چوہے کا سوپ بیچنے والی واحد دکان
- ایسٹرازینیکا کووِڈ ویکسین سنگین بیماری کا سبب بن سکتی ہے، کمپنی کا اعتراف
- لاکھوں صارفین کا ڈیٹا چُرا کر فروخت کرنے والے اکاؤنٹس پر پابندی عائد
- مالیاتی پوزیشن آئی ایم ایف کے معاشی استحکام کے دعوؤں پر سوالیہ نشان
- چینی پاور پلانٹس کے بقایاجات 529 ارب کی ریکارڈ سطح پر
- یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
- یکم مئی کے تقاضے اور مزدوروں کی صورت حال
- گھٹیا مہم کسی کے بھی خلاف ہو ناقابل قبول ہے:فیصل واوڈا
- چیمپئنز ٹرافی پاکستان میں ہی ہوگی، ٹیموں کو شیڈول بھیج دیا ہے، چیئرمین پی سی بی
- پنجاب کی بیورو کریسی میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ، 49 افسران کے تبادلے
- یوم مزدور پر صدر مملکت اور وزیراعظم کے پیغامات
- بہاولپور؛ زیر حراست کالعدم ٹی ٹی پی کے دو دہشت گرد اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک
- ذوالفقار علی بھٹو لا یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے لیے انٹرویوز، تمام امیدوار ناکام
- پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان
- گجر، اورنگی نالہ متاثرین کے کلیمز داخل کرنے کیلیے شیڈول جاری
- نادرا سینٹرز پر شہریوں کو 30 منٹ سے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا، وزیر داخلہ
- ڈونلڈ ٹرمپ پر توہین عدالت پر 9 ہزار ڈالر جرمانہ، جیل بھیجنے کی تنبیہ
- کوئٹہ میں مسلسل غیر حاضری پر 13 اساتذہ نوکری سے برطرف
- آن لائن جنسی ہراسانی اور بلیک میلنگ میں ملوث ملزم گرفتار
- انکم ٹیکس جمع نہ کروانے والے پانچ لاکھ سے زائد شہریوں کی موبائل سمز بلاک
میڈیا سے سوشل میڈیا کی طاقت تک
میڈیا کی طاقت کے بعد سو شل میڈیا بھی ایک ابھرتی ہوئی بڑی طاقت تصورکیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی طاقت ابھی تک واضح طور پر سرمایہ دارکے ہاتھوں یرغمال نہیں ہوئی، یہ ایک ہجوم کی طرح ہے جوکسی کے قابو میں نہیں ہوتا۔ میڈیا کی طاقت ابتدائی زمانے سے سرمایہ داروں کے زیر اثر آگئی تھی اوراس کی بڑی وجہ صارفین (کنزیومر) کی تعداد میں اضافے کی کوشش تھی۔
جیسا کہ ایک امریکی مصنف گرانٹ ڈیوڈ نے کہا تھا کہ صنعتی انقلاب درحقیقت صارفین انقلاب تھا (یعنی صنعتی انقلاب کے بعد جب مشینوں سے اشیاء بننے لگیں اور اس قدر زیادہ جو انسان کی ضرورت سے کہیں زیادہ تھی تو مسئلہ یہ پیش آیا کہ لوگوں کو کس طرح مجبورکیا جائے کہ وہ یہ اشیاء خریدیں جو ان کی ضرورت نہیں تاکہ سرمایہ دار نے جو سرمایہ لگایا ہے وہ اس کا منافع بھی حاصل کرسکے) چنانچہ میڈیا وہ واحد ذریعہ تھا کہ جوپبلسٹی یا اشتہارات کے ذریعے سرمایہ داروں کا یہ مسئلہ حل کرسکتا تھا۔
اشتہارات چونکہ میڈیا کی جان ہوتے لہذا میڈیا کی طاقت بھی سرمایہ داروں کے ہاتھ آگئی یہاں تک کہ میڈیا کی صحافت جو کبھی مشن کہلاتی تھی مکمل طور پر کمرشل بن گئی اور اچھے خاصے نظریاتی صحافی ، صحافتی اخلاقیات، مذہب اور معاشرتی اقداربھی اس کے آگے ڈھیر ہوگئیں۔
صرف کرکٹ کے کھیل میں ان اشتہارات کا جادو دیکھ لیں کہ کراچی کے ایک بڑے اخبار کے صفحہ اول پر کرکٹ کے فائنل کی انیس خبریں جب کہ دیگر خبریں صرف چھ تھیں، اسی طرح بی بی سی کی ویب سائٹ کے صفحہ اول پر کل اٹھارہ خبریں تھی جن میں سے نو پاک بھارت کرکٹ میچ کی تھی۔ اسی طرح کولڈ ڈرنک فروخت کرنیوالی ایک ہی کمپنی میچ جیتنے والے ملک میں اشتہار دیتی ہے کہ جیت کی خوشی میں پیو اور ہارنیوالے ملک میں پیغام دیتی ہے کہ غم بھلانے کے لیے پیو۔
ان اشتہارات کی بدولت میڈیا نے عوام کو اس قدر دیوانہ بنا دیا کہ مسلمان روزوں میں اپنی عبادت چھوڑ کر ٹی وی اسکرین کے آگے بیٹھ کر میچ دیکھتے رہے اور ایک کھیل (میچ) کوکفر اور اسلام کی جنگ کا درجہ دے دیا۔ دوسری طرف بھارت میں ہندو اس قدر جذباتی ہوگئے کہ میچ ہار نے کے غم میں ٹی وی سیٹ ہی توڑ ڈالے۔ مثلاً ہاکی کے کھیل میں نہ یہ جذباتی پن ہوتا ہے نہ ہی میڈیا اس قدرکوریج دیتا ہے)۔
دوسری طرف سوشل میڈیا ابھی سرمایہ داروں کے کنٹرول میں نہیں آیا البتہ مختلف قوتوں کے کنٹرول میں کسی حد تک ضرور ہے، عمومی طور پر یہ ایک ہجوم کی خصوصیت کا حامل ہے کہ جس کے استعمال کرنے والوں کا کوئی معیار نہیں۔ چنانچہ ہرکوئی اپنے ذہن سے اس کو استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہاں اصل ایشوز اور نان ایشوز میں کوئی فرق نظر نہیں آتاہے، مثلاً ایک چائے والا راتوں رات مقبولیت حاصل کرلیتا ہے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جس دن امریکا نے دنیا کا سب سے بڑا وزنی بم GBU-43/B افغانستان پر گرایا اور بڑی تعداد میںلوگ جاں بحق ہوئے عین اسی دن پاکستان کی ایک یونیورسٹی میں ایک طالبعلم کو ہجوم نے قتل کر دیا، یہ قتل میڈیا اور سوشل میڈیا پر چھا گیا اور اس قدر چھا گیا کہ مذہبی لوگ بھی مذمت پر کمربستہ ہوگئے مگر امریکا نے جو بم افغانستان میں گرایا اس کی آواز چار ممالک میں سنائی دی گئی، کئی کلومیٹر تک اس کی تباہی ہوئی، سیکڑوں، ہزاروں ، کتنے لوگ مرے؟ کسی نے گنتی نہیں کی، جب کہ مرنے والوں میں بھارتی میڈیا کیمطابق تیرہ ہندو بھی شامل تھے۔گویا ہیرو شیما کے بعد امریکا کی یہ ایک بڑی کارروئی تھی مگر چونکہ میڈیا، سوشل میڈیا میں اس واقعے کو جگہ نہیں ملی لہذا لوگوں کو اس کا علم ہی نہیں ہوا۔
ہزاروں لوگوں کی ہلاکت سوشل میڈیا پر بھی موضوع بحث نہ بن سکی یوں ایک فرد کا قتل اور ہزاروں لوگوں کے قتل کو سوشل میڈیا میں اس کی اہمیت کے اعتبار سے مقام نہیں ملا۔ ایک اور واقعے میں ایک شخص ہلاک اور سیکڑوں لوگ زخمی ہوگئے، یہ واقعہ ایک بلڈرز کی جانب سے اپنے منصوبے کو عوام میں مقبول بنانے کے لیے منعقدہ میوزک شو میں ہوا، یہ شو جاری تھا کہ رات کے وقت اسٹیج زمین بوس ہوگیا، اس حادثے کے بعد منتظمین لائٹ بند کرکے فرار ہوگئے، یوں اندھیرے میں لوگ اور بھی زخمی ہوئے یہ اہم خبرتھی میڈیا پر تونظر نہیں آئی مگر سوشل میڈیا پر بھی اس کو جگہ نہ ملی۔ واٹس ایپ کا استعمال عموماً نیکی کرنے کی غرض سے ہی زیادہ نظر آتا ہے۔ یہ ایک ایسا آلہ بن گیا ہے کہ جس پر لوگ نیکی کی غرض سے پیغامات بھیجتے ہیں اور ساتھ ہی یہ درخواست بھی کرتے ہیں کہ اس پیغام کو آگے زیادہ سے زیادہ فارورڈ کریں۔
واٹس ایپ پر یہ کام ہمیں رمضان المبارک کے مہینے میں زیادہ نظر آیا، ہم نے جب بھی نماز تراویح سے فارغ ہوکر اپنا موبائل چیک کیا کہ کسی کا کوئی اہم پیغام تو نہیں آیا، تو معلوم ہوا کہ دو تین سو پیغامات آئے ہوئے ہیں ، جب پڑھا تو معلوم ہوا کسی نے کوئی حدیث، کوئی واقعہ کوئی نیکی کی بات ’پوسٹ‘ کی ہے تو کسی نے مختلف پروگراموں کی تصاویر اور زیادہ تر پیغامات میں یہ درخواست کی ہے کہ ’’خدارا اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ آگے بھیج کر نیکیاں کمائیں‘‘۔
ہمیں نہیں معلوم کہ لوگ رمضان کے مہینے میں افطار، تراویح اور سحری کے ساتھ کہاں سے اس قسم کی ’نیکیوں‘ کا وقت نکال لیتے ہیں ایک صاحب نے تو بائیس ویں روزے اور پاک بھارت کرکٹ میچ کا تعلق اسطرح بنایا کہ بس اب اللہ ہی کی ذمے داری ہے اور وہ اس میچ کا فیصلہ مسلمانوں کے یعنی پاکستانی ٹیم کے حق میں کرے گا۔
گویا سوشل میڈیا کی جانب سے ایک ایسا رمضان پیکیج آیا کہ جس میں تمام عبادات چھوڑ کر کرکٹ میچ دیکھنا بھی ایمان کا لازمی حصہ اور آخری عشرے کا خاصہ بن گیا۔ماہ رمضان کے آغاز میں سوشل میڈیا سے پھلوں کی قیمتوں کو بڑھنے سے روکنے کے لیے ایک مہم چلی۔ میڈیا کی خبروں کیمطابق اس کا اچھا اثر پڑا بات پھر وہی ہے کہ سوشل میڈیا ابھی تک ایک ہجوم کی سی خاصیت رکھتا ہے جہاں رہنمائی اور معیار کا فقدان ہے تاہم مستقبل قریب میں یہ خدشات ضرور ہیں کہ اس میں مختلف قوتوں کا عمل دخل نہ ہوجائے، یہ بھی ممکن ہے کہ آگے چل کر ’برانڈ ایمبسڈر‘ طرح کی اصطلاحیں وجود میں آجائیں اور مختلف گروپ، مخصوص لابی، سرمایہ دار وغیرہ کے لیے خدمات انجام دیں۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم اس میڈیا کے استعمال میں احتیاط برتیں،اپنی سماجی اقداراوردینی نظریات کو سوشل میڈیا کی لہرکی نذر نہ ہونے دیں نیزاس کی طاقت کا غلط استعمال کرنے سے اجتناب کریں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔