عظیم خاتون
بھوک اسے متزلزل اور اس کی داخلی آگ کو ٹھنڈا کر نے میں قاصر تھی۔
جب مادام کیوری پیرس کی یونیورسٹی میں فزکس اور ریاضی کا مطالعہ کر رہی تھی تو اس قدر مفلس ہوتی تھی کہ اکثر بھوک کے مارے بے ہوش ہوجاتیں ۔ اگر اسے ان دنوں یہ معلوم ہو جاتا کہ 50 برس بعد ایک فلم کمپنی 2 لاکھ پو نڈ خر چ کرکے اس کی زندگی کے متعلق ایک فلم بنائے گی تو کیا اسے حیرت نہ ہوتی۔ اگر اسے پہلے ہی معلوم ہوجاتا کہ وہ ایسی واحد شخصیت ہوگی جسے سائنس کی خدمات کے عوض 2 مرتبہ نوبل پرائزملے گا توکیا اسے حیرت نہ ہوتی لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر جوانی میں پولینڈ کا ایک خوشحال گھرانہ اس کی بے عزتی نہ کرتا تو وہ نہ ہی ایک سائنس دان بنتی اور نہ ہی ریڈیم دریافت کر سکتی۔
ہوا یوں کہ جب ابھی وہ19 برس کی ایک نوجوان لڑکی تھی تو پولینڈ کے ایک خوشحال گھرانے نے اپنی ایک 10سالہ لڑکی کی تعلیم و تربیت کے لیے اسے ملازم رکھ لیا جب اس خوشحال گھرانے کا بڑا لڑکا کرسمس کی چھٹیوں پر گھر آیا تو وہ نوجوان استانی کے ساتھ اکثر ڈانس کرتا رہتا وہ اس کے اچھے آداب اور شاعرانہ خیالات اور حس مزاح سے بڑا متاثر ہوا ۔ اسے اس سے محبت ہوگئی اور اس نے مادام کیوری سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا لیکن جب لڑکے کی والدہ تک یہ خبر پہنچی تو تقریباً بے ہوش ہوگئی اس کے با پ نے شور برپا کرکے سارا گھر سر پر اٹھا لیا ، یہ کیا ؟ اس کا لڑکا ایک مفلوک الحال لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے ۔
ایک ایسی لڑکی جس کا معاشرے میں کوئی مقام نہ تھا اور جو دوسروں کے گھر میں ملازمت کرتی پھرتی تھی بے عزتی کے اس تھپڑ نے مادام کیوری کو حیران و ششدر کر دیا۔ اس قدر حیران کہ اس نے شادی کا خیال ذہن سے نکال کر پیرس جانے اور وہاں تعلیم حاصل کرکے اپنی زندگی سائنس کی خدمات کے لیے وقف کر نے کا تہیہ کرلیا ۔ 1891 میں وہ پیرس آئی اور یونیورسٹی آف پیرس میں سائنس کی طالبعلم بن گئی وہ اپنے مطالعے میں اس قدر محو ہوگئی کہ دوست بنانے کے لیے اس کے پاس وقت ہی نہ ہوتا تھا ۔
اگلے چار برس اس نے فقط اس اثاثے پر زندگی بسر کرنا تھی جسے اس نے ملازمت کر کے جمع کر رکھا تھا یا پھر اس کی ماں اسے کبھی کبھار تھوڑے بہت پیسے بھیج دیاکرتی تھی وہ تین شلنگ روزانہ کے حساب سے خرچ کرتی ان تین شلنگوں میں کمرے کا کرایہ ،خوراک ، لباس اور یونیورسٹی کے اخراجات شامل تھے اس کا کمرہ چوتھی منزل پر تھا اوراس پر فقط ایک دریچہ تھا اس میں نہ تو گیس نہ ہی بجلی اور نہ ہی گرمی کاانتظام کیا گیا تھا وہ ساری سردیاں کوئلوں کی دو بوریاں سے زیادہ نہ خرید سکتی تھی ۔
اپنے کوئلے کے خزانے کو بچانے کے لیے وہ اکثر راتوں میں آتش دان روشن نہ کرتی اور بیٹھی منجمد انگلیوں اور کپکپاتے ہوئے کندھوں سے ریاضی کے سوال حل کر نے میں مصروف رہتی ۔ پھر سونے سے پیشتر خود کوگرم کر نے کی خاطر وہ صندوق میں سے اپنے تمام کپڑے نکال کر کچھ چارپائی پر بچھا دیتی اور کچھ اوپر اوڑھ لیتی۔اس پر بھی اس کی سردی کم نہ ہوتی تو وہ کرسی پکڑ کر اسے اپنے اوپر رکھ لیتی تاکہ اسی کے وزن سے اسے کم سردی محسوس ہو۔ اسے اپنا چھوٹا موٹا کھانا بھی خود ہی پکانا پڑتا ۔لیکن کھانا کھانے میں جو وقت صرف ہوتا مادام کیوری کے نزدیک و ہ ضایع ہوجاتا ۔
وہ کئی کئی ہفتے فقط مکھن اور ڈبل روٹی پر گزر اوقات کرتی ۔ اکثر اس کا سر چکرانے لگتا ۔ اور وہ بستر پر گر کر بے ہوش ہوجاتی ۔ جب وہ ہوش میں آتی تو اپنے آپ سے کہتی '' میں بے ہوش کیوں ہوئی تھی ؟ وہ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھی کہ اس کی بیماری کی وجہ فاقہ ہے ۔ ایک دفعہ وہ کلاس روم میں بے ہوش ہوگئی اور جب ہوش آیا تو اس نے ڈاکٹر کے سامنے تسلیم کرلیا کہ وہ کئی روز سے سوکھی روٹیوں پر گذارا کر رہی تھی ۔لیکن ہمیں اس طالبہ کے حال زار پر زیادہ افسوس نہ کرنا چاہیے ۔ یہ طالبہ جسے دس برس بعد دنیا کی مشہور ترین 'عورت بننا تھا ۔ وہ اپنے مطالعے میں اس قدر مستغرق رہتی کہ اسے بھوک کا خیال ہی نہ آتا ۔
بھوک اسے متزلزل اور اس کی داخلی آگ کو ٹھنڈا کر نے میں قاصر تھی۔ تین برس بعد اس نے پیرس میں ایک ایسے شخص سے شادی کر لی کہ فقط اس کے ساتھ وہ خوش رہ سکتی تھی ۔ وہ شخص بھی اس کی طرح سائنس کا دیوانہ تھا۔ اس کا نام پاٹری کیوری تھا ۔ اس وقت اس کی عمر فقط پینتیس برس کی تھی اس کے با وجود اس کا نا م فرانس کے نامور سائنس دانوں میں شمار ہوتا تھا۔ جس روز انھوں نے شادی کی ان کی دنیوی جائیداد فقط دو سائیکل تھیں وہ ہنی مون منانے کے لیے اپنی سائیکلوں پر فرانس کے دیہات میں نکل گئے وہ ڈبل روٹی پنیر اور پھل کھاتے اور رات کو ایسی سرائوں میں سوتے جہاں شمعوں کی روشنیوں سے خستہ خال دیواروں پر عجیب و غریب سائے رینگنے لگتے ۔
اگلے چار برس مادام کیوری اور اس کا شوہر ریڈیم کی موجودگی کا ثبوت مہیا کرنے کے لیے کام کرتے رہے ۔ مٹر کے دانے جتنا ریڈیم حاصل کرنے کے لیے پورے چار برس وہ اپنے تجربے میں جتے رہے اور آخر ریڈیم حاصل کر نے میں کامیاب ہوگئے ۔اس دریافت کا نتیجہ یہ ہوا کہ مادام کیوری روئے زمین کی مشہور ترین خاتون بن گئی ۔ لیکن کیا شہرت اور عظمت کے و ہ دن اس کے لیے مسرور ترین دن تھے ؟ بالکل نہیں وہ بار بار کہا کرتی کہ اس کی زندگی کے بہترین ایام وہی تھے ، جب وہ مفلسی کے عالم میں اپنے شوہر کے ہمراہ اس گندے اور بوسیدہ احاطے میں کام کیا کرتی تھی ۔
وہ ایام جب اس کے پاس سردی کی یلغار روکنے کے لیے کپڑے نہ ہوتے تھے اور وہ بھوک اور نقاہت کے عالم میں اکثر بے ہوش ہوجاتی تھی ۔ وہ ایام جب وہ فقط کام کیا کرتی تھی ۔ 1902 میں مادام کیوری اور اس کے شوہر نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کیا وہ امیر بننا چاہتے ہیں یا سائنس کی بے لو ث خدمت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرنا چاہتے ہیں اس وقت تک یہ دریافت ہو چکا تھا کہ ریڈیم کینسر کے علاج میں بے حد مفید ثابت ہو سکتاہے ۔ ریڈیم کی مانگ روز بروز بڑھتی جارہی تھی اور اسے تیار کرنے کا طریقہ دنیا میں فقط مادام کیوری اور اس کے شوہر کو معلوم تھا ۔ وہ اپنی ایجاد کے حقوق کسی کمپنی کے پاس لاکھوں پونڈ میں فروخت کر سکتے تھے لیکن مادام کیوری نے اپنی ایجاد کے عوض ایک پائی بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا ،اس نے کہا '' یہ سائنس کے جذبے اور مقصد کے بر عکس ہوگا۔
اس کے علاوہ ریڈیم کو ایک مہلک مر ض کے خلاف بطور مفید ہتھیار کے استعمال کیاجارہا ہے ۔ اس لیے مجھے اس صورت حال سے ناجائز فائدہ نہ اٹھانا چاہیے ۔ اس طرح اس نے اپنے غیر معمولی بے غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امارت کے بجائے انسانی خدمت کا راستہ پسند کیا۔جو انسان اپنی صلاحیتوں کو ذاتی فوائد حاصل کرنے کا ذریعہ بناتے ہیں وہ اخلاق ، انسانیت کا گلا گھونٹ دیتے ہیں جس انسان کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اپنے علم ، عقل اور لیاقت کو ان لوگوں کے حقوق کے دفاع میں صرف کرے گا جو آج ہر قسم کی مصیبت اور جہالت میں مبتلا ہیں تو ایسے شخص نہ صرف یہ کہ اپنے انسانی فرض سے غفلت برت رہے ہیں بلکہ ان کا وجود خود غرضی اور حیوانیت سے بھرا ہوا ہے ۔
اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ ہم بحیثیت قوم ایک مشکل ترین دور سے گذر رہے ہیں ۔ یہ و ہ وقت ہے کہ جب ہمیں اپنے ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر اجتماعی سوچ ،فرض اور انسانیت کے لیے سوچنا ہوگا جب آپ میں اپنے فرض کی ادائیگی کا احساس ہو گا تو آپ کے فکروعمل میں سچا اتحاد قائم ہوجائے گا ، تب آپ کے اندر ایسی ہمت اور طاقت پیدا ہوجائے گی جس کاآپ نے کبھی خواب میں بھی تصور نہیں کیاہوگا۔ آج وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے 18 کروڑ انسانوں کی زندگی کا مقصد بھی یہی ہونا چاہیے یعنی انسانیت جس میں دنیا میں بھی خیر ہے اور آخر ت میں بھی جب یہ سو چ ہم میں پیدا ہوجائیگی تو ہم نا صرف یہ کہ دہشت گردی انتہا پسندی،غربت ،جہالت سے نجات حاصل کرلیں گے ۔ بلکہ پاکستان ایک خوشحال ملک میں تبدیل ہوجائے گا۔
ہوا یوں کہ جب ابھی وہ19 برس کی ایک نوجوان لڑکی تھی تو پولینڈ کے ایک خوشحال گھرانے نے اپنی ایک 10سالہ لڑکی کی تعلیم و تربیت کے لیے اسے ملازم رکھ لیا جب اس خوشحال گھرانے کا بڑا لڑکا کرسمس کی چھٹیوں پر گھر آیا تو وہ نوجوان استانی کے ساتھ اکثر ڈانس کرتا رہتا وہ اس کے اچھے آداب اور شاعرانہ خیالات اور حس مزاح سے بڑا متاثر ہوا ۔ اسے اس سے محبت ہوگئی اور اس نے مادام کیوری سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا لیکن جب لڑکے کی والدہ تک یہ خبر پہنچی تو تقریباً بے ہوش ہوگئی اس کے با پ نے شور برپا کرکے سارا گھر سر پر اٹھا لیا ، یہ کیا ؟ اس کا لڑکا ایک مفلوک الحال لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے ۔
ایک ایسی لڑکی جس کا معاشرے میں کوئی مقام نہ تھا اور جو دوسروں کے گھر میں ملازمت کرتی پھرتی تھی بے عزتی کے اس تھپڑ نے مادام کیوری کو حیران و ششدر کر دیا۔ اس قدر حیران کہ اس نے شادی کا خیال ذہن سے نکال کر پیرس جانے اور وہاں تعلیم حاصل کرکے اپنی زندگی سائنس کی خدمات کے لیے وقف کر نے کا تہیہ کرلیا ۔ 1891 میں وہ پیرس آئی اور یونیورسٹی آف پیرس میں سائنس کی طالبعلم بن گئی وہ اپنے مطالعے میں اس قدر محو ہوگئی کہ دوست بنانے کے لیے اس کے پاس وقت ہی نہ ہوتا تھا ۔
اگلے چار برس اس نے فقط اس اثاثے پر زندگی بسر کرنا تھی جسے اس نے ملازمت کر کے جمع کر رکھا تھا یا پھر اس کی ماں اسے کبھی کبھار تھوڑے بہت پیسے بھیج دیاکرتی تھی وہ تین شلنگ روزانہ کے حساب سے خرچ کرتی ان تین شلنگوں میں کمرے کا کرایہ ،خوراک ، لباس اور یونیورسٹی کے اخراجات شامل تھے اس کا کمرہ چوتھی منزل پر تھا اوراس پر فقط ایک دریچہ تھا اس میں نہ تو گیس نہ ہی بجلی اور نہ ہی گرمی کاانتظام کیا گیا تھا وہ ساری سردیاں کوئلوں کی دو بوریاں سے زیادہ نہ خرید سکتی تھی ۔
اپنے کوئلے کے خزانے کو بچانے کے لیے وہ اکثر راتوں میں آتش دان روشن نہ کرتی اور بیٹھی منجمد انگلیوں اور کپکپاتے ہوئے کندھوں سے ریاضی کے سوال حل کر نے میں مصروف رہتی ۔ پھر سونے سے پیشتر خود کوگرم کر نے کی خاطر وہ صندوق میں سے اپنے تمام کپڑے نکال کر کچھ چارپائی پر بچھا دیتی اور کچھ اوپر اوڑھ لیتی۔اس پر بھی اس کی سردی کم نہ ہوتی تو وہ کرسی پکڑ کر اسے اپنے اوپر رکھ لیتی تاکہ اسی کے وزن سے اسے کم سردی محسوس ہو۔ اسے اپنا چھوٹا موٹا کھانا بھی خود ہی پکانا پڑتا ۔لیکن کھانا کھانے میں جو وقت صرف ہوتا مادام کیوری کے نزدیک و ہ ضایع ہوجاتا ۔
وہ کئی کئی ہفتے فقط مکھن اور ڈبل روٹی پر گزر اوقات کرتی ۔ اکثر اس کا سر چکرانے لگتا ۔ اور وہ بستر پر گر کر بے ہوش ہوجاتی ۔ جب وہ ہوش میں آتی تو اپنے آپ سے کہتی '' میں بے ہوش کیوں ہوئی تھی ؟ وہ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھی کہ اس کی بیماری کی وجہ فاقہ ہے ۔ ایک دفعہ وہ کلاس روم میں بے ہوش ہوگئی اور جب ہوش آیا تو اس نے ڈاکٹر کے سامنے تسلیم کرلیا کہ وہ کئی روز سے سوکھی روٹیوں پر گذارا کر رہی تھی ۔لیکن ہمیں اس طالبہ کے حال زار پر زیادہ افسوس نہ کرنا چاہیے ۔ یہ طالبہ جسے دس برس بعد دنیا کی مشہور ترین 'عورت بننا تھا ۔ وہ اپنے مطالعے میں اس قدر مستغرق رہتی کہ اسے بھوک کا خیال ہی نہ آتا ۔
بھوک اسے متزلزل اور اس کی داخلی آگ کو ٹھنڈا کر نے میں قاصر تھی۔ تین برس بعد اس نے پیرس میں ایک ایسے شخص سے شادی کر لی کہ فقط اس کے ساتھ وہ خوش رہ سکتی تھی ۔ وہ شخص بھی اس کی طرح سائنس کا دیوانہ تھا۔ اس کا نام پاٹری کیوری تھا ۔ اس وقت اس کی عمر فقط پینتیس برس کی تھی اس کے با وجود اس کا نا م فرانس کے نامور سائنس دانوں میں شمار ہوتا تھا۔ جس روز انھوں نے شادی کی ان کی دنیوی جائیداد فقط دو سائیکل تھیں وہ ہنی مون منانے کے لیے اپنی سائیکلوں پر فرانس کے دیہات میں نکل گئے وہ ڈبل روٹی پنیر اور پھل کھاتے اور رات کو ایسی سرائوں میں سوتے جہاں شمعوں کی روشنیوں سے خستہ خال دیواروں پر عجیب و غریب سائے رینگنے لگتے ۔
اگلے چار برس مادام کیوری اور اس کا شوہر ریڈیم کی موجودگی کا ثبوت مہیا کرنے کے لیے کام کرتے رہے ۔ مٹر کے دانے جتنا ریڈیم حاصل کرنے کے لیے پورے چار برس وہ اپنے تجربے میں جتے رہے اور آخر ریڈیم حاصل کر نے میں کامیاب ہوگئے ۔اس دریافت کا نتیجہ یہ ہوا کہ مادام کیوری روئے زمین کی مشہور ترین خاتون بن گئی ۔ لیکن کیا شہرت اور عظمت کے و ہ دن اس کے لیے مسرور ترین دن تھے ؟ بالکل نہیں وہ بار بار کہا کرتی کہ اس کی زندگی کے بہترین ایام وہی تھے ، جب وہ مفلسی کے عالم میں اپنے شوہر کے ہمراہ اس گندے اور بوسیدہ احاطے میں کام کیا کرتی تھی ۔
وہ ایام جب اس کے پاس سردی کی یلغار روکنے کے لیے کپڑے نہ ہوتے تھے اور وہ بھوک اور نقاہت کے عالم میں اکثر بے ہوش ہوجاتی تھی ۔ وہ ایام جب وہ فقط کام کیا کرتی تھی ۔ 1902 میں مادام کیوری اور اس کے شوہر نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کیا وہ امیر بننا چاہتے ہیں یا سائنس کی بے لو ث خدمت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرنا چاہتے ہیں اس وقت تک یہ دریافت ہو چکا تھا کہ ریڈیم کینسر کے علاج میں بے حد مفید ثابت ہو سکتاہے ۔ ریڈیم کی مانگ روز بروز بڑھتی جارہی تھی اور اسے تیار کرنے کا طریقہ دنیا میں فقط مادام کیوری اور اس کے شوہر کو معلوم تھا ۔ وہ اپنی ایجاد کے حقوق کسی کمپنی کے پاس لاکھوں پونڈ میں فروخت کر سکتے تھے لیکن مادام کیوری نے اپنی ایجاد کے عوض ایک پائی بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا ،اس نے کہا '' یہ سائنس کے جذبے اور مقصد کے بر عکس ہوگا۔
اس کے علاوہ ریڈیم کو ایک مہلک مر ض کے خلاف بطور مفید ہتھیار کے استعمال کیاجارہا ہے ۔ اس لیے مجھے اس صورت حال سے ناجائز فائدہ نہ اٹھانا چاہیے ۔ اس طرح اس نے اپنے غیر معمولی بے غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امارت کے بجائے انسانی خدمت کا راستہ پسند کیا۔جو انسان اپنی صلاحیتوں کو ذاتی فوائد حاصل کرنے کا ذریعہ بناتے ہیں وہ اخلاق ، انسانیت کا گلا گھونٹ دیتے ہیں جس انسان کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اپنے علم ، عقل اور لیاقت کو ان لوگوں کے حقوق کے دفاع میں صرف کرے گا جو آج ہر قسم کی مصیبت اور جہالت میں مبتلا ہیں تو ایسے شخص نہ صرف یہ کہ اپنے انسانی فرض سے غفلت برت رہے ہیں بلکہ ان کا وجود خود غرضی اور حیوانیت سے بھرا ہوا ہے ۔
اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ ہم بحیثیت قوم ایک مشکل ترین دور سے گذر رہے ہیں ۔ یہ و ہ وقت ہے کہ جب ہمیں اپنے ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر اجتماعی سوچ ،فرض اور انسانیت کے لیے سوچنا ہوگا جب آپ میں اپنے فرض کی ادائیگی کا احساس ہو گا تو آپ کے فکروعمل میں سچا اتحاد قائم ہوجائے گا ، تب آپ کے اندر ایسی ہمت اور طاقت پیدا ہوجائے گی جس کاآپ نے کبھی خواب میں بھی تصور نہیں کیاہوگا۔ آج وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے 18 کروڑ انسانوں کی زندگی کا مقصد بھی یہی ہونا چاہیے یعنی انسانیت جس میں دنیا میں بھی خیر ہے اور آخر ت میں بھی جب یہ سو چ ہم میں پیدا ہوجائیگی تو ہم نا صرف یہ کہ دہشت گردی انتہا پسندی،غربت ،جہالت سے نجات حاصل کرلیں گے ۔ بلکہ پاکستان ایک خوشحال ملک میں تبدیل ہوجائے گا۔