اسلامی مملکت کا سیکولر نظام

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 4 دسمبر 2017
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

کہنے کو تو پاکستان میں رہنے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے اور یہ ایک اسلامی مملکت کہلاتی ہے مگر پاکستان میں ایک سیکولر نظام حکومت ہے، اس کا آئین بھی سیکولر ہے، یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان میں درست معنوں میں اسلامی نظام قائم نہیں ہوسکا اور یہاں سیکولر ازم اور اسلام کی کشمکش نہ صرف جاری ہے بلکہ اب اس ملک کو مزید سیکولر بنانے کے لیے دن بہ دن بیرونی قوتوں کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے اور اس دباؤ کے آگے حکمران مجبور و بے بس بھی نظر آتے ہیں اور اسلامی قوتوں سے ٹکراتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔

اس ملک میں مکمل اسلامی نظام لانے کے لیے دینی جماعتوں اور قوتوں کی جانب سے جو کوششیں کی جا رہی ہیں ان میں ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی نظر نہیں آتی، یہی سبب ہے کہ بہت سے اہل علم اور دین سے محبت رکھنے والے دانشور دینی جماعتوں اور قوتوں کی کوششوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ مثلاً ایک اہل علم کی یہ تنقید ’’قیام پاکستان سے قبل احیائے جہاد کے لیے علمائے کرام نے بے مثال قربانیاں دیں۔ اس دور میں بنیادی مقصد انگریز کے نظام کو تہس نہس کرنا تھا اور اسلامی ریاست کے قیام کو ممکن بنانا تھا۔

اس مقصد کے لیے ایک طرف مدارس کا جال پھیلایا گیا تاکہ اسلامی علمیت اور اسلام کے علمی سرمائے کا تحفظ کیا جا سکے اور دوسری طرف اسلامی ریاست کے قیام کے لیے برصغیر کے مختلف حصوں میں تحریکات برپا کی جاسکیں، لیکن پے در پے ظاہری ناکامیوں کے بعد خصوصاً 1924 میں تحریک خلافت کی ناکامی کے بعد اسلامی ریاست کے قیام کو ایک ناقابل ہدف کے طور پر علماء نے قبول کرلیا۔ اس کے بعد سیکولر جماعتوں مسلم لیگ اور کانگریس سے اشتراک عمل، دستوری و جمہوری ذرایع کا استعمال ہماری دینی جماعتوں کا عام طریقہ بن گیا۔ ان کے خیال میں کافر اقتدار میں تحفظ اسلام کی یہی واحد حکمت عملی تھی، قیام پاکستان کے بعد بھی اس لائحہ عمل کے تسلسل کو برقرار رکھا گیا۔

وہ جماعتیں جن کی فکر کا بنیادی محور احیائے جہاد تھا انھوں نے بھی قیام پاکستان کے بعد ریاستی جدوجہد کے لیے جو نظریہ تشکیل دیا وہ یہی تھا کہ ہم دستور پاکستان کے اندر رہتے ہوئے جمہوری نظام کو اسلامیانے کی کوشش کریں گے اور چونکہ پاکستانی عوام اصولی طور پر غلبہ اسلام ہی چاہتے ہیں، اس کے لیے ہم تطہیر افکار کریں گے اور لوگوں کو یہ باور کرادیں گے کہ پاکستان کے لیے دیانت دار قیادت ناگزیر ہے اور جدوجہد کی بنیاد پر ہم خیانت کار قیادت کو اکھاڑ پھینکیں گے، اس کے لیے ایک طرف علماء کرام نے رائے عامہ کی ہمواری کے لیے تن من دھن سے کام کیا اور دوسری طرف علمائے کرام کے ساتھ مل کر دستور پاکستان میں اسلامی شقیں شامل کرانے کی بھرپور جدوجہد کی۔

اس نظریاتی ماڈل پر کام کرنے کا ثمر یہ ہے کہ ہم نے دستور میں چند اسلامی شقیں شامل کروادیں جو فی العمل معطل رہتی ہیں، تمام قوانین غیر شرعی نہ صرف برقرار ہیں بلکہ ان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور دوسری طرف اپنی انتھک کوششوں اور جدوجہد کے باوجود ہم رائے عامہ کو نہ غلبہ اسلام کے لیے ہموار کرسکے اور اس بات پر تیار نہیں کہ وہ سیکولر حکمرانوں سے چھٹکارا پائیں اور منصب اقتدار دین دار قیادت کو سونپ دیں۔ ساٹھ سال کا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ لوگوں کی دلی وابستگیاں اب بھی سیکولر پارٹیوں کے ساتھ ہی ہیں۔‘‘ (اسلام یا جمہوریت، ’اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب‘ ، جاوید اقبال، ص 129، کتاب محل، 2016، لاہور)

اسی طرح فلسفہ کے ایک پروفیسر کہتے ہیںکہ

’’انیسویں صدی کے اواخر سے برصغیر پاک و ہند کی تحریکات اسلامی کو جن مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ان میں سیکولر ازم بھی ایک اہم چیلنج رہا ہے۔ اﷲ کے فضل و کرم سے تحریکات اسلامی نے علمی سطح پر سیکولر ازم کا جم کر مقابلہ کیا اور امت کے عملی سرمائے کے تحفظ کا فریضہ بہ احسن و خوبی ادا کیا۔ لیکن اس کے باوجود بھی سیکولر ازم اپنی گرفت آہستہ آہستہ مضبوط کرتا جارہا ہے۔‘‘ آگے مزید لکھتے ہیں کہ ’’تحریکات اسلامی نے روشن خیالی سے اخذ کردہ سیاسی، سماجی، قانونی اور معاشی ڈھانچوں (جوکہ نامیاتی طور پر سیکولر نوعیت کے نظام کی بنیاد فراہم کرتے ہیں) میں شرکت کے ذریعے ان ڈھانچوں کو اسلامیانے کی کوشش کی۔ ان جوہری طور پر سیکولر ڈھانچوں کی اسلام کاری کے عمل میں تحریکات اسلامی سے وابستہ افراد کامیاب ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں لیکن اس نظام میں راسخ العقیدہ علمائے حق کی شرکت سے معاشرتی، سیاسی، معاشی اور قانونی نظام کی سیکولرائزیشن کو اسلامی جواز ملنا شروع ہوگیا۔‘‘ (اسلام یا جمہوریت، ’اسلامی انقلاب اور لبرل دستوری جدوجہد‘، ڈاکٹر پروفیسر عبدالوہاب، ص 143، کتاب محل، 2016، لاہور)

ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ آئین میں یہ آرٹیکل موجود ہے کہ جس کے تحت قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں کی جاسکتی۔ اس کا جواب مولانا محمد زاہد صدیق مغل اس طرح دیتے ہیں۔

’’قرارداد مقاصد ہو یا 1973 کا دستور، یہ شقیں تو ریاست کو کافرانہ نظام کے ماتحت چلانے کا بہانہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ شقیں ہمیشہ طاق نسیاں پر پڑی رہتی ہیں اور ہمارے ملک میں بے شمار قوانین خلاف شرع ہونے کے باوجود پچھلے 34 برسوں سے ادارے ٹس سے مس نہیں ہوئے بلکہ اس کے بجائے جب کبھی کوئی اسلامی قانون نافذ کرنے کا معاملہ پیش آئے تو اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، جیسا کہ سود کے خلاف قانون اور حسبہ بل کے معاملات میں دیکھا گیا۔

اس اسلامی نما شقوں کی حیثیت صرف اتنی ہے کہ انھیں خود ’ہم نے‘ دستور میں رکھا ہے اور اگر ’ہم‘ چاہیں تو انھیں ختم بھی کرسکتے ہیں، گویا اصل حاکمیت ’ہماری‘ ہی ہے۔ پھر ان شقوں پر مبنی شرعی قوانین کی نوعیت کسی بالادست قانون کی نہیں بلکہ وفاقی شرعی عدالت کے ایک ’مشورے‘ کی ہوتی ہے جنھیں عدالت عظمیٰ چاہے تو رد کرسکتی ہے، گویا اصل حاکمیت تو دستوری قانون ہی کی ہوگی اور شارع کی بات بس ایک مشورے کے طور پر کہی اور سنی جاسکتی ہے۔‘‘ (اسلام یا جمہوریت، ’اسلامی خلافت اور موجودہ مسلم ریاستوں کا تاریخی تناظر میں موازنہ‘، مولانا محمد زاہد صدیق مغل، ص 187، کتاب محل، 2016، لاہور)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دینی قوتوں اور ریاست کے درمیان یہ کشمکش کیوں ہے؟ دراصل تمام دینی قوتیں اور مسلمانوں کی اکثریت نے اس ملک کو چلانے کے لیے مغرب کا جمہوری طرز حکومت قبول کرلیا ہے، جس میں حتمی اتھارٹی منتخب نمایندوں کی ہوتی ہے اور یہ نمایندے اپنی عقل کی بنیاد پر ریاستی نظام اور نظم و نسق چلانے کے لیے قانون سازی اور ہر طرح کے فیصلے کرتے ہیں۔

یہ عجب اور تلخ حقیقت ہے کہ اس ملک کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو کسی دینی مدارس سے نہیں بلکہ سیکولر تعلیمی اداروں سے پڑھ کر نکلنے والوں کی ہے، لہٰذا پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ اکثر ایسی قانون سازی یا فیصلہ کرتے ہیں جو اسلامی ذہن اور اسلامی علمیت رکھنے والوں کے نزدیک انتہائی حساس اور ایمان کو متاثر کرنے کا مسئلہ ہوتا ہے، چنانچہ تمام دینی قوتیں اس قسم کے فیصلوں پر اعتراض کرتے ہوئے احتجاج بھی کرنے سے گریز نہیں کرتیں اور عوام کی اکثریت بھی ان دینی قوتوں کے ساتھ خودبخود ہوجاتی ہے، جب کہ عقل کی بنیاد پر سوچنے والے سیکولر اور لبرل قسم کے لوگ اس کے برعکس سوچتے ہیں، جس میں پارلیمنٹ، عدلیہ، بیوروکریسی اور میڈیا میں بیٹھے لوگوں کی اکثریت شامل ہوتی ہے۔

مثلاً حال ہی میں ختم نبوت کے حوالے سے جو کچھ ہوا اس میں یہ طبقہ سمجھا کہ یہ محض ’’عبارت‘‘ کا مسئلہ ہے جو دوبارہ درست کرنے سے اپنی پرانی ’عبارت‘ کے مطابق ہوجائے گا، لیکن حالات نے ثابت کیا کہ یہ محض ایک ’عبارت‘ نہیں ایمان کو چھیڑنے کا مسئلہ ہے اور ایمان کو چھیڑنے کی اجازت کسی قیمت پر بھی کسی کو نہیں دی جاسکتی۔ یہ دھرنا واضح پیغام دے گیا ہے کہ اس ریاست کو چلانے والے بے شک کتنے ہی روشن خیال اور جمہوری ہوں اور اس ملک کا سیاسی نظام بے شک غیر اسلامی ہو، مگر جب بھی ’ایمان‘ کو چھیڑنے کی کوشش کی جائے گی ’دھرنا تو ہوگا‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔