بیٹیاں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت

بیٹا نعمت ہے تو بیٹی رحمت ہے۔ دونوں کے مابین فرق نہ کرنے والے کو جنت میں داخلے کا مژدہ سنادیا گیا ہے۔

اسلام سے قبل، دور جہالت میں دختر کشی جیسا سنگ دلانہ رواج عام تھا۔ فوٹو: فائل

افسردہ نگاہیں، مرجھایا ہوا چہرہ اور بوجھل قدم ہر اس شخص کے غم کے غماز ہوا کرتے، جسے بیٹی کی پیدائش کی نوید سنائی جاتی تھی۔

وہ اپنے ساتھیوں سے نظریں چرائے اور منہ چھپائے لامتناہی فکروں کی بند گلیوں میں بھٹکتے بھٹکتے بالآخر یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا کہ کیوں نہ اس ماتھے کے کلنک کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دھو ہی ڈالے تاکہ کچھ تو نجات و تفاخر کا بھرم رہ جائے۔ اگر قسمت کی دیوی اس معصوم جان کا ساتھ دے جاتی توحد ہے پانچ یا چھ برس کے لیے اس کے والدین اسے اپنے گھر میں جینے کا حق دیتے، پھر وہ بالآخر معاشرے کے طعنوں کے تھپیڑوں سے تنگ آ کر اسے موت کے کنویں میں ابدی نیند سلا دیتے۔۔۔ آہ۔۔۔ دورجہالت میں صنف نازک اپنی زندگی کے حق سے بھی محروم تھی۔

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اس کھلے ظلم پر مواخذہ کرنا ہی تھا۔ فرمایا : '' اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی (کی پیدائش) کی خوش خبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غصے سے بھر جاتا ہے۔ وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے۔ اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے سنائی گئی ہے۔ (اب یہ سوچنے لگتا ہے کہ) آیا اسے ذلت و رسوائی کے ساتھ (زندہ) رکھے یا اسے مٹی میں دبا دے (یعنی زندہ درگور کردے) خبردار! کتنا بُرا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں۔''

(النحل، 16 : 58.59)

اسی طرح روز محشر جب کسی کو بھی انصاف سے محروم نہ رکھا جائے گا تو اس معصوم، بے زبان اور ناتواں بچی کی بھی فریاد رسی ہوگی اور اسے انصاف دیا جائے گا۔ اللہ رب العزت نے فرمایا : ''اور جب زندہ دفن کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ کے باعث قتل کی گئی تھی۔'' یہاں براہ راست کلام اس زندہ درگور لڑکی سے ہے مگر بالواسطہ طور پر اس کے والدین کی سخت سرزنش ہو رہی ہے۔

اسلام سے قبل، دور جہالت میں دختر کشی جیسا سنگ دلانہ رواج عام تھا۔ اسلام نے اس صریح گناہ کی صریح الفاظ میں مذمت کر دی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ''اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو، ہم ہی انہیں (بھی) روزی دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بے شک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے''۔ (بنی اسرائیل،31)

قربان جائیں رحمت للعالمین ﷺکی بعثت مقدسہ پر،کہ آپؐ آئے تو دو جہانوں کے لیے پیغام امن و سلامتی لائے، اور صنف نازک تو اس رحمت و شفقت کے بے پایاں سمندر کا ادنیٰ سا بدلہ بھی نہیں دے سکتی جو اسے بوسیلہ مصطفیؐ عطا ہوا۔


نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا:''ہر بیٹی والدین کے لیے رحمت ہے اور بیٹا نعمت ہے۔'' اس شرف اور امتیاز نے بیٹی کو خواتین میں مقام ارفع پر فائز کر دیا ہے۔ اسی طرح ایک اور مقام پر آپؐ نے فرمایا : ''جو شخص بیٹیاں دے کر آزمایا گیا، پھر وہ ان کی اچھی تربیت کرے تو قیامت کے دن یہ لڑکیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔'' (بخاری 1418، مسلم : 2629)

ایک اور مقام پر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ''جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں تو قیامت کے دن میں اور وہ اس طرح کھڑے ہوں گے۔ یہ فرمایا اور اپنی انگلیوں کو باہم پیوست کر دیا۔'' (مسلم)

والدین اپنی بچی کو زیور تعلیم و تربیت سے آراستہ کریں۔ یہ اچھی پرورش و تربیت کا جہیز مادی دنیا کے جہیز سے کہیں بہتر ہے۔ آقائے دو جہاںؐ نے فرمایا : ''جس کی ایک بچی ہوئی اور اس نے اس کی تربیت کی اور بڑے اہتمام سے اسے علم کے زیور سے آراستہ کیا اور جو مہربانیاں اللہ تعالیٰ نے اس پر کی ہیں وہ اس نے اپنی بیٹی پر بھی کیں تو وہ بچی آتش جہنم سے اس کے لیے پردہ ہوگی۔'' (قرطبی)

تعلیم نبویؐ کی ہمہ گیریت کا اندازہ اس حدیث مبارکہ سے بخوبی ہوتا ہے۔ نبی اکرمؐ نے سراقہ بن جعشم سے فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑے صدقے پر آگاہ نہ کروں۔ عرض کیا ضرور مہربانی فرمائیے۔ فرمایا : ''تیری وہ بیٹی جو (طلاق پا کر یا بیوہ ہو کر) تیری طرف پلٹ آئے اور تیرے سوا اس کے لیے کمانے والا کوئی نہ ہو۔''

بیٹا نعمت ہے تو بیٹی رحمت ہے۔ دونوں کے مابین فرق نہ کرنے والے کو جنت میں داخلے کا مژدہ سنا دیا، فرمایا : ''جس کی ایک بچی ہو وہ اسے زندہ درگور بھی نہ کرے، اس کی توہین بھی نہ کرے، اپنے بیٹے کو اس پر فوقیت بھی نہ دے تو اس امر کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرے گا۔'' (ابو داؤد)

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ کسی بھی مسلم گھرانے کے لیے بے پناہ خوشی و مسرت کا باعث ہیں۔ جب ان کے ہاں بچیاں پیدا ہوتی ہیں تو دین دار والدین اس سے خوش ہوتے ہیں کہ یہ بچیاں ان کے لیے جنت کا دروازہ کھول رہی ہیں اور جہنم سے آڑ بن رہی ہیں۔

ایسے والدین جن کے پاس بیٹیاں ہی بیٹیاں ہیں یا بیٹوں سے زیادہ ہیں تو ان کو لڑکی کی پیدائش پر افسوس نہیں بلکہ خوشی کا اظہار کرنا چاہیے کہ بیٹی تو والدین کے لیے رحمتیں لے کر آتی ہے، مگر نہایت دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ہاں آج پھر وہی فرسودہ اور اندوہ ناک حالات پیدا ہو رہے ہیں، جیسا کہ دور جاہلیت میں بیٹی کی پیدائش و پرورش پر ہوا کرتے تھے۔ آقائے دو جہاںؐ نے تو ایسے تمام مظالم کا اپنی سیرت و تعلیم کے ذریعے قلع قمع فرما دیا تھا، مگر آج پھر وہی بچی معاشرے کے لیے تختہ مشق بنی ہوئی ہے۔ جس اسلام نے اسے جینے کا حق دیا تھا، اسی اسلام کے نام لیوا آج اس سے جینے کا حق چھین رہے ہیں۔

کئی معاشروں میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کو خوراک اور ضروریات زندگی کم مہیا کی جاتی ہیں اور ان کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جاتی جس سے وہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتیں۔ خدارا خوف کیجئے۔ اپنے آپ پر اور اپنے جسم و جگر کے ٹکڑے پر رحم کیجئے۔ شیشے جیسے دل اور پھول جیسے چہرے سے منہ مت موڑیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کل روز محشر ان معصوم بے زبان شیشوں کو توڑنے کی وجہ سے آپ کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین اسلام کی سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم آخرت کے خسارے سے بچ سکیں۔
Load Next Story