عسکری رابطہ کی بحالی صائب امریکی اقدام

ہشت گردی کے خلاف دنیا کی جنگ پاکستان اپنے وسائل سے لڑ رہا ہے

ہشت گردی کے خلاف دنیا کی جنگ پاکستان اپنے وسائل سے لڑ رہا ہے، فوٹو: فائل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگست 2017 میں افغانستان اور مشرق وسطیٰ کے وسیع تر تناظر میں جس پالیسی کا اعلان کیا تھا اس کے مضمرات پر امریکی تھنک ٹینکس اور دفاعی ماہرین سوچ بچار کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں جب کہ امریکی محکمہ دفاع سمیت دیگر اہم اداروں کے سربراہ اور امریکی میڈیا افغان صورتحال کے حوالے سے ٹرمپ کی دھمکیوں اور بھارت کو افغانستان میں اہم کردار دینے کے فیصلے پر خاموش نظر ثانی کا جزوی عندیہ دے رہے ہیں ۔

چنانچہ پینٹا گان میں پریس بریفنگ کی مزید تفصیلات کے مطابق جنرل جیمز میٹس نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اتوار کو امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈرجنرل جوزف ووٹل نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے فون پر گفتگو مزید رابطے کی فضا بحال کرنے کے لیے کی ہے ، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی عسکری امداد پر پابندی سے قبل تمام اہم امکانات کا ہر زاویے سے جائزہ لیا تھا لہٰذا امریکا کو رد عمل کے طور پر افغانستان میں سپلائی روکنے کی فکر نہیں ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا پاکستان کے جوابی رد عمل اور لاجسٹک سپلائی لائن معطلی کے خطرات و مضمرات کے متبادل ایرانی اور روسی روٹ یا چارٹرڈ طیاروں سے رسد کے منصوبہ کو پیش نظر رکھے ہوئے ہے ، تاہم کلیئرنس کے تناظر میں ایران و روس سے امریکا کے مراسم ایسے دوستانہ بھی نہیں رہے۔

واضح رہے پاکستان نے2011 میں اپنی حدود سے امریکی فوجیوں کی سپلائی معطل کردی تھی جس کے بعد امریکا نے چارٹر طیاروں کے ذریعے سازوسامان کی ترسیل کا عمل جاری رکھا۔ دوسری جانب امریکی ذرایع ابلاغ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے خلاف فیصلے سے خود امریکا کو فوجی سامان کی مد میں ایک ارب ڈالر کا خسارہ برداشت کرنا پڑے گا۔

بلاشبہ زمینی حقائق کے سیاق وسباق میں پاک امریکا تعلقات کو ٹرمپ کی افغان پالیسی سے جو دھچکا لگا ہے وہ نہ صرف اشتعال انگیز ثابت ہوا بلکہ فیصلہ سازی میں شریک امریکی حلقوں کو اب رفتہ رفتہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ایک بڑی یکطرفہ کارروائی سے پہلے پاکستان سے معاملات طے کرنے کے لیے مکالمہ اور پاکستانی سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کی بحالی پر بات چیت ناگزیر ہے۔


جیمز میٹس سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ کیا امریکی پابندی کے بعد چین پاکستان کی عسکری امداد کا خلا پر کرے گا تو انھوں نے جواب دیا کہ نہیں، دوسری طرف جیمز میٹس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو ایک بار پھر سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے نیٹو فورسز کے مقابلے میں زیادہ جانوں کی قربانی دی لیکن یہ عذر پیش کیا کہ عسکری امداد پر پابندی کا فیصلہ امریکا کی مشرق وسطیٰ کی نئی تزویراتی حکمت عملی کے تحت لیا گیا اور موجودہ صورتحال میں بھی پاکستان کی سول حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار نبھا سکتی ہے۔ دریں اثنا پاک ایران مفاہمانہ پیش رفت کی اطلاع خوش آیند ہے جس کے تحت پاکستان اور ایران نے اتفاق کیا ہے کہ امریکی سیکیورٹی پالیسی خطے میں عدم استحکام اور سلامتی کے مسائل کا باعث بنے گی، اس ضمن میں مشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ نے تہران میں ایرانی ہم منصب علی شامنائی سے ملاقات کی ، دونوں رہنماؤں کے درمیان ایک ہفتے میں یہ دوسری اہم ملاقات ہے ۔

اس موقع پر ایران کے مشیر قومی سلامتی نے کہا ہے کہ کسی تیسرے فریق کو پاک ایران تعلقات خراب نہیں کرنے دیں گے کیونکہ کچھ ممالک اجرتی دہشت گردوں کے ذریعے دونوں ممالک کے تعلقات خراب کرنا چاہتے ہیں، ذرایع کے مطابق امریکا کی پاکستان اور ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور امریکی صدر کے پاکستان کے خلاف ٹویٹ کے بعد مشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ نے اتوار کو ایران کا دورہ کیا۔ وزیر اعظم شاہد خان عباسی نے گزشتہ روز امریکی صدر کے امدادی رقوم کے حوالہ سے الزامات کوگمراہ کن قراردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف دنیا کی جنگ پاکستان اپنے وسائل سے لڑ رہا ہے، اس پر عالمی برادری کو ہمیں سراہنا چاہیے۔ برطانوی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے ہزاروں جانوں کی قربانیاں دی ہیں، پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت چکا ہے۔ امریکا کی جانب سے سیکیورٹی تعاون کی مد میں پاکستان کی دو ارب ڈالر تک کی امداد روکنے کے حوالے سے رپورٹس پر اظہار خیال کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس حوالے سے رپورٹس حیران کن ہیں کیونکہ پاکستان کو سول و ملٹری امداد کی مد میں مجموعی طور پر جو رقم ملی وہ تو اس رقم کا بہت ہی معمولی حصہ ہے۔

اب ضرورت امریکی تزویراتی ،امدادی اور جارحانہ بیانیے کے مغالطوں اور مفروضوں پر مبنی گن بوٹ ڈپلومیسی کا راستہ روکنے کی ہے،بہر حال اگر امریکیوں کو اندازہ ہوگیا ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام اور دہشتگردی کے ہمہ اقسام نیٹ ورکس کی تباہی کی ذمے داری کا ملبہ پاکستان پر گرانا نری مہم جوئی ہے اور اگر اس کے ازالہ کی خاطر پاک امریکی عسکری رابطہ کے لیے وزیر دفاع میٹس کا بیان نیک نیتی سے دیا گیا ہے توامریکی پالیسی میں دھمکیوں اور جنگجوئی کے غلغلہ میں عسکری رابطے کی ممکنہ بحالی ڈپلومیسی کی جیت کہلائی جا سکتی ہے۔
Load Next Story