بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
حضورﷺ نے امیر عورت کے چوری کرنے پر بھی اسی سزا کا اطلاق کیاجو عام چور کی سزا تھی، اور سفارش کرنے والے صحابی پر غصہ کیا
زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔ تصویر: انٹرنیٹ
سوال: کلنٹن نے استعفیٰ کیوں دیا؟ جواب: مونیکا اسکینڈل کے بعد رائے عامہ اس کے خلاف ہوگئی تھی۔ سوال: ہلیری صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں واضح اکثریت سے کیوں ہار گئی؟ جواب: ایجینڈے کے علاوہ رائے عامہ ٹرمپ کے حق میں تھی۔ سوال: صدر صدام حسین کو اقتدار سے کس نے ہٹایا؟ جواب: رائے عامہ نے۔ سوال: ایران میں خمینی انقلاب کس کی وجہ سے آیا تھا؟ جواب: رائے عامہ کی۔ سوال: سیاہ فاموں کےحق میں آواز بلند کرنے والے نیلسن منڈیلا کو کس نے ہیرو بنایا؟ جواب: رائے عا مہ نے۔ سوال: حسن البناء کس طرح اپنے افکار مصری معاشرے میں پھیلانے میں کامیاب ہوئے؟ جواب: رائے عامہ میں اپنے کردارکے ذریعے۔ شیخ احمد یاسین نے فلسطینیوں کو کس طرح ایک سپر پاور کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونا سکھایا؟ مولانا مودودی کی انقلابی سوچ نے اسلامی تحریکوں میں کیسے جان ڈالی؟ رائے عامہ کی بدولت۔ سندھ محمد بن قاسم کی کوششوں سے باب السلام کیسے بنا؟ رائے عامہ کے ذریعے۔ مسلمان حکمرانوں نے ہندوستان پر 1000 سال کیسے حکومت کی؟ جواب: رائے عامہ کی بدولت۔
غرض 1857ء کی جنگ آزادی کےمحرکات و اسباب ہوں یا قائد اعظم کی کوششوں سے الگ مملکت کا قیام، خطے میں 1965ء جنگ کی فتح ہو یا 1971ء کی ناکامی، ہر جگہ رائے عامہ کے بنیادی و لازمی و ناگزیر محرک کو نظر انداز کیا جانا نا صرف یہ کہ ناممکن ہے بلکہ اس کی موجودگی کے بغیر کوئی بھی تحریک ناکام و نامکمل ہے۔ یہ رائے عامہ آخر ہے کیا؟ کس کی بدولت وجود میں میں آتی ہے؟ اس کی خصوصیات کیا ہیں؟ کیا ایک فرد ایک قوت کے اس رائے عامہ کی بدولت ابھر کر سامنے آسکتا ہے؟ کیا یہ رائے عامہ ہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیرو بنانے کا فن رکھتی ہے؟ آئیے غور کرتے ہیں۔
مشہور سماجی مفکر مورس گنسبرگ (Morris Ginsberg) کہتا ہے: "رائے عامہ ایک سماجی پیداوار ہے جو معاشرے کے بہت سے اذہان کے باہمی عمل اور ردِعمل کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے"۔ فرہنگ عمرانیات (Dictionary Of Sociology) کےمطابق"آبادی کی اکثریت کا کسی خاص مسئلے کے متعلق ایسے رجحان جو حقیقی گواہی کی قابل مقدار حصہ پر مشتمل ہو اور جس میں کسی قدرغور و فکر، تجربہ و استدلال شامل ہو، رائے عامہ کہلاتی ہے"۔ ایل ڈبلیو ڈیوب (L.W.Dube) کہتا ہے"ایک ہی معاشرتی گروہ سے متعلق افراد کا کسی مسئلہ کے بارے میں رجحان یا کردار رائے عامہ ہے۔"
ان تعریفوں سے رائے عامہ کی جو واضح تعریف ہمارے سامنے آئی ہے وہ یہ کہ رائے عامہ کی کسی ایک فرد کی اس کی ذاتی معاملے پر رائے نہیں بلکہ رائے عامہ عوام کے کسی ایک مسئلے پر رائے ہے۔ عوام کی یہ رائے بھی معاشرے کے مختلف گروہوں، افراد کے آپس میں ایک دوسرے کے خیالات کے بعد جو رائے قائم ہو اسے رائے عامہ (Public Opinion) کہتے ہیں۔
اس رائے عامہ کی بہت سی خصوصیات ہوتی ہیں:
1۔ رائے عامہ افراد کی سوچی سمجھی رائے ہوتی ہے۔
2۔ رائے عامہ دلائل پر مشتمل ہوتی ہے۔
3۔ رائے عامہ اجتماعی کردار کی ایک بہترین مثال ہے۔
4۔ رائے عامہ میں ہر فرد کی رائے شامل نہیں ہوتی۔
5۔ رائے عامہ کا تعلق جمہوری معاشرے سے ہوتا ہے۔ بادشاہت اور آمریت میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
رائے عامہ کےلیے ضروری ہے کہ معاشرے کےمختلف افراد اس کے متعلق اپنےخیالات کا اظہار کریں۔ رائے عامہ کےلیے تعداد کا ہونا بھی ضروری نہیں۔ یہ تھوڑے افراد کی رائے بھی ہوسکتی ہے اور ایک بہت بڑی تعداد کی رائے بھی ہوسکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک میں رائے عامہ کے محرکات مختلف ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی خاص ایجیینڈے کے تحت رائے عامہ کو اہمیت دی جاتی ہے لیکن ترقی پذیر ممالک میں آج تک رائے عامہ سے زیادہ قلیل لیکن مقتدر حلقوں کی رائے کی اہمیت زیادہ ہے۔ اس کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ کہیں امداد کی شرائط، کہیں اقتدار کے ٹولے کی بےجا آزادی، کہیں رائے عامہ کی آواز کو مختلف حربوں سے ناکام بنانا تو کہیں مقتدر حلقوں کی نافرمانی شمار کرتے ہوئے عوامی رائے کو جرم سے تشبیہ دے کر رائے عامہ کو دبایا جاتا ہے۔
الحمداللہ پاکستان ایک آزاد اور جمہوری ملک ہے، لیکن یہاں فیصلے آمریت اور بادشاہی نظام سے مماثل ہوتے ہیں۔ یہاں جمہوری رائے سے زیادہ فرد واحد کی رائے کو فوقیت حاصل ہے۔ مثال کے طور پر گیلپ سروے 2011 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 80 فیصد آبادی پاکستان میں مکمل اسلامی نظام کے حق میں ہے۔ لیکن اس آواز یعنی رائےعامہ کی آواز کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دبایا جاتا ہے اور دبایا جاتا رہے گا۔ پاکستان کی 70 فیصد آواز کو دباتے ہوئے بیرونی قرضے میں جکڑے ہمارے حکمران نے اپنے اثاثوں کی حفاظت کرتے ہوئے ایمان کا سودا کرلیا اورعاشق رسولﷺ کو تختہ دار پر چڑھا دیا، خود ساختہ آقاؤں کی غلامی کرتے ہوئے رائے عامہ کی بھی پرواہ نہ کی اورامریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کو اپنے آقاؤں کے حوالے کردیا۔ رائے عامہ کی مکمل مخالفت کے باوجود لال مسجد اور جامعہ حفصہ کو فاسفورس بموں سے ختم کردیا۔ مغربی پاکستان کی مخالفت کے باوجود مشرقی پاکستان حکمرانوں کے فیصلوں اور سازشوں کی نظر ہوگیا۔ وانا وزیرستان امریکی چھاؤنیاں بن گئیں، تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت اپنے ہی ملک میں اپنے ہی مکین بے آسراء اور لاوارث ہوکر ہجرت پر مجبور ہوگئے۔
اصولی طور پر جمہوری رائے کا احترام کرتے ہوئے رائے عامہ کے فیصلوں کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنا ایک ذمہ دار معاشرے کی نشانی ہوتی ہے۔ معاشرے اسی طرح ترقی کا سفر کرتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات سے بھی یہی زریں اصول نکلتے ہیں۔ حضرت عمرؓ بطور حاکمِ وقت عوام میں اس بات کے جواب دہ تھے کہ ان کے پاس قمیض کا کپڑا زیادہ کیسے ہوگیا؟ کیونکہ وہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھتے تھے۔ بقول شاعر:
بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو
آنحضورﷺ نے امیر عورت کے چوری کرنے پر بھی اسی سزا کا اطلاق کیا جو اسلام کے نزدیک چور کی سزا تھی۔ اس وقت سفارش کرنے والے صحابی پر غضب ناک ہوئے اور فرمایا: ''تم سے پہلے کی امتیں بھی اسی وجہ سے تباہ ہوئیں کہ جب کوئی امیر آدمی چوری کرتا تو اسے معاف کردیا جاتا لیکن غریب کو سزادی جاتی؛ خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیئے جاتے۔''
رائے عامہ کو اپنے کردار اپنے بہترین ابلاغی حکمت عملیوں سے ہموار کیا، یہاں تک کہ مسلمان آدھی سے زیادہ دنیا کو فتح کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ وہ دن کے راہی رات کے سپاہی ہوا کرتے تھے۔ راتوں میں اپنی بستیوں میں پہرہ دیتے تاکہ عوام کو کوئی تکلیف نا ہو۔ حضرت عمر کا یہ جملہ کہ ''اگر دریائے فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی بھوک سے مرجائے تو عمر رب کے آگے جوابدہ ہے''، رائے عامہ تشکیل دینے کی بہترین حکمت عملی تھا؛ اورصرف گفتار ہی نہیں کردار کے بھی غازی تھے کہ آج تک مغربی ممالک میں عمر لاء پر تحقیق در تحقیق ہورہی ہے اور یہ قانون ترقی یافتہ معاشروں میں نافذ العمل بھی ہورہے ہیں۔ لیکن پاکستان میں رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرنے کےلیے میڈیا، پریشر گروپوں، قانون ساز اداوروں اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ذریعے رائے عامہ تشکیل دی جاتی ہے۔ ایک خاص اپجینڈے کے تحت سماج کو اپنی رائے پر ہموار کرکے رائے عامہ کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں رائے عامہ دبتے دبتے ایک لاوے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ پھر دھونس، دھمکی اور زبردستی ان سرفروشوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، وہ حق کی پاداش میں تختہ دار سے بھی نہیں ڈرتے اور قانون کی نظر میں مجرم ٹھہرتے ہیں۔
مصر میں اخوان المسلمون کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ مذہب اسلام کی صحیح تعلیمات ایک اسلامی ملک میں بذریعہ تبلیغ پھیلاتے رہے اور حاکم وقت کے ہاتھوں تختہ دار کو چومتے رہے، اذیت ناک مظالم بھی ان کو ان کے مقصد سے نہ ہٹا سکے۔ وہ بنگلہ دیش ہو یا مصر، فلسطین ہو یا چیچنیا، رائے عامہ کے یہ راہنماء بظاہر کسی جگہ پذیرائی نہ پا سکے لیکن رب کی نظر میں اپنا مقام بناگئے۔
یہ عظیم سرفروش رائے عامہ ہموار کرگئے اور ایک کی شہادت پر کئی نام لیواء پیدا کرگئے۔ بقول شاعر:
گر اک چراغ حقیقت کو گل کیا تم نے
تو موج خون سے صد آفتاب ابھریں گے
بحثیت امت مسلمہ ہم ایک جسم کی مانند ہیں۔ ہر فرد کی ایک اہمیت ہے، ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہے، ہر فرد اپنی جگہ اہم ہے۔ انقلاب بھی رائے عامہ ہموار کرنے سے ہی آتے ہیں، ہر فرد جب اپنی ذمہ داری ادا کرے گا تو معاشرہ خود بخود صحیح اصولوں پر استوار ہوگا۔ پھر کوئی شاہ رخ جتوئی کسی شاہ زیب کو قتل کرکے بیرون ملک نہیں بھاگ سکے گا، کوئی بسمہ وی آئی پی پروٹوکول کے ہاتھوں جان کی بازی نہیں ہارے گی، کوئی ملک کے ذخائر سوئس بینکوں میں رکھوا کر کڑور پتی نہیں بنے گا، کوئی پانامہ لیکس میں کرپشن کا مجرم عدلیہ پر انگلی نہیں اٹھائے گا، کوئی آمر ملکی ذخائر غیروں کے پاس رہن رکھوا کر غیر ملکی جائیدادیں نہیں بنائے گا، کوئی ملک کی زمیینیں بیرون ملک نہیں رکھوائے گا۔
رائے عامہ اتنی مضبوط بنانے کےلیے ہر فرد کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ ہم فرقوں، ذاتوں، گروپوں اور مسلکوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے سے کم درجہ رکھنے والوں کو سلام میں پہل نہیں کرتے، ہم دنیا کی دوڑ میں اتنے آگے جاچکے ہیں کہ دوسروں کو نیچا دکھا کر تسکین حاصل کرتے ہیں، پھر ہم یہ کہتے ہیں کہ حکومت خراب ہے، کیا ہم نے اپنے گھر کی حکومت کو اسلامی طرز پر استوار کیا ہے؟ ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو روز قیامت نبیﷺ کے دیدار کی حسرت رکھتے ہیں؟ یقیناً ہم سب ہی یہ خواہش رکھتے ہیں لیکن کیا ہم یہ بات جانتے ہیں کہ آنحضورﷺکی رحلت کے وقت ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا لیکن اس وقت گھر میں گیارہ تلواریں موجود تھیں۔ تو کیا یہ سب باتیں صرف زبانی جمع خرچ تک محدود ہیں؟ کیا آج بھی ہم امریکہ کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کےلیے بے چین نہیں؟
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ "ہم پاکستانیوں کا سب سے بڑا المیہ ہماری سوچ ہے۔ ہم امریکی شہریت تو چاہتے ہیں لیکن دفن مکے مدینے میں ہونا چاہتے ہیں"
کیا آپ جانتے ہیں امریکہ کی شہریت حاصل کرنے کےلیے آپ کو جن وعدوں پر دستخط کرنا پڑتا ہے اس میں آپ کے ایمان، ملک اور قوم سب کو رہن رکھوانا پڑتا ہے۔ دارلکفر اور دارلاسلام کا فرق کیا صرف کتابوں کی حد تک محدود ہے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ وہاں سب خوشی سے رہتے ہونگے۔ اسلام کا کام کرنے والے ہم سے زیادہ وہاں نومسلم موجود ہیں۔ اب پاکستان میں رہائش پذیر مالی لحا ظ سے مستحکم شخص اپنا سب کچھ چھوڑ کرصرف اس لیے امریکہ چلا جائے کہ یہاں زندگی کو خطرہ ہے تو موت تو وہاں بھی آنی ہے۔ موت تو اٹل ہے، کسی بھی وقت کسی بھی جگہ آسکتی ہے۔ سسٹم کو برا کہنے سے بہتر ہے اپنے حصے کی شمع جلا دیجیے۔ اس چڑیا کی طرح چونچ میں پانی کا قطرہ جمع کرکے حاکم وقت کی لگائی ہوئی آگ میں ڈالیے کہ آپ کا فرض ادا ہوجائے۔ حالات کا شکوہ کرنے والے بزدل لوگ ہوتے ہیں۔ بقول شاعر:
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنےحصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
تو حصے کی شمع جلانے کےلیے مجھے آپ کو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، یہ کام گھرکی اکائی سے شروع ہوکر سماجی و معاشرتی اداروں تک پہنچے گا۔ قوت فیصلہ مضبوط کیجئے، لوگوں سے محبت کیجئے، لوگوں کو اپنے ساتھ ملائیے، محبتیں بانٹیے، نفرتوں کوختم کیجیے، اپنی اور اپنے جیسے ہم خیال افراد کے ساتھ محبت و ربط کا بندھن باندھ کر رکھیے۔ رائے عامہ ہم ہی جیسے مٹھی بھر افراد ملکر قائم کرتے ہیں۔ اور پھر وقت کی بڑی طاقت رائے عامہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوتی ہے۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا
فرد سے افراد، افراد سے معاشرے اور معاشروں سے ہم خیال تحریکیں وجود میں آتی ہیں۔ فرد کا ربط آپس میں مضبوط ہوگا تو اس آواز کو بڑھنے سے پھر کوئی نہیں روک سکتا۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
غرض 1857ء کی جنگ آزادی کےمحرکات و اسباب ہوں یا قائد اعظم کی کوششوں سے الگ مملکت کا قیام، خطے میں 1965ء جنگ کی فتح ہو یا 1971ء کی ناکامی، ہر جگہ رائے عامہ کے بنیادی و لازمی و ناگزیر محرک کو نظر انداز کیا جانا نا صرف یہ کہ ناممکن ہے بلکہ اس کی موجودگی کے بغیر کوئی بھی تحریک ناکام و نامکمل ہے۔ یہ رائے عامہ آخر ہے کیا؟ کس کی بدولت وجود میں میں آتی ہے؟ اس کی خصوصیات کیا ہیں؟ کیا ایک فرد ایک قوت کے اس رائے عامہ کی بدولت ابھر کر سامنے آسکتا ہے؟ کیا یہ رائے عامہ ہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیرو بنانے کا فن رکھتی ہے؟ آئیے غور کرتے ہیں۔
مشہور سماجی مفکر مورس گنسبرگ (Morris Ginsberg) کہتا ہے: "رائے عامہ ایک سماجی پیداوار ہے جو معاشرے کے بہت سے اذہان کے باہمی عمل اور ردِعمل کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے"۔ فرہنگ عمرانیات (Dictionary Of Sociology) کےمطابق"آبادی کی اکثریت کا کسی خاص مسئلے کے متعلق ایسے رجحان جو حقیقی گواہی کی قابل مقدار حصہ پر مشتمل ہو اور جس میں کسی قدرغور و فکر، تجربہ و استدلال شامل ہو، رائے عامہ کہلاتی ہے"۔ ایل ڈبلیو ڈیوب (L.W.Dube) کہتا ہے"ایک ہی معاشرتی گروہ سے متعلق افراد کا کسی مسئلہ کے بارے میں رجحان یا کردار رائے عامہ ہے۔"
ان تعریفوں سے رائے عامہ کی جو واضح تعریف ہمارے سامنے آئی ہے وہ یہ کہ رائے عامہ کی کسی ایک فرد کی اس کی ذاتی معاملے پر رائے نہیں بلکہ رائے عامہ عوام کے کسی ایک مسئلے پر رائے ہے۔ عوام کی یہ رائے بھی معاشرے کے مختلف گروہوں، افراد کے آپس میں ایک دوسرے کے خیالات کے بعد جو رائے قائم ہو اسے رائے عامہ (Public Opinion) کہتے ہیں۔
اس رائے عامہ کی بہت سی خصوصیات ہوتی ہیں:
1۔ رائے عامہ افراد کی سوچی سمجھی رائے ہوتی ہے۔
2۔ رائے عامہ دلائل پر مشتمل ہوتی ہے۔
3۔ رائے عامہ اجتماعی کردار کی ایک بہترین مثال ہے۔
4۔ رائے عامہ میں ہر فرد کی رائے شامل نہیں ہوتی۔
5۔ رائے عامہ کا تعلق جمہوری معاشرے سے ہوتا ہے۔ بادشاہت اور آمریت میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
رائے عامہ کےلیے ضروری ہے کہ معاشرے کےمختلف افراد اس کے متعلق اپنےخیالات کا اظہار کریں۔ رائے عامہ کےلیے تعداد کا ہونا بھی ضروری نہیں۔ یہ تھوڑے افراد کی رائے بھی ہوسکتی ہے اور ایک بہت بڑی تعداد کی رائے بھی ہوسکتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک میں رائے عامہ کے محرکات مختلف ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی خاص ایجیینڈے کے تحت رائے عامہ کو اہمیت دی جاتی ہے لیکن ترقی پذیر ممالک میں آج تک رائے عامہ سے زیادہ قلیل لیکن مقتدر حلقوں کی رائے کی اہمیت زیادہ ہے۔ اس کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ کہیں امداد کی شرائط، کہیں اقتدار کے ٹولے کی بےجا آزادی، کہیں رائے عامہ کی آواز کو مختلف حربوں سے ناکام بنانا تو کہیں مقتدر حلقوں کی نافرمانی شمار کرتے ہوئے عوامی رائے کو جرم سے تشبیہ دے کر رائے عامہ کو دبایا جاتا ہے۔
الحمداللہ پاکستان ایک آزاد اور جمہوری ملک ہے، لیکن یہاں فیصلے آمریت اور بادشاہی نظام سے مماثل ہوتے ہیں۔ یہاں جمہوری رائے سے زیادہ فرد واحد کی رائے کو فوقیت حاصل ہے۔ مثال کے طور پر گیلپ سروے 2011 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 80 فیصد آبادی پاکستان میں مکمل اسلامی نظام کے حق میں ہے۔ لیکن اس آواز یعنی رائےعامہ کی آواز کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دبایا جاتا ہے اور دبایا جاتا رہے گا۔ پاکستان کی 70 فیصد آواز کو دباتے ہوئے بیرونی قرضے میں جکڑے ہمارے حکمران نے اپنے اثاثوں کی حفاظت کرتے ہوئے ایمان کا سودا کرلیا اورعاشق رسولﷺ کو تختہ دار پر چڑھا دیا، خود ساختہ آقاؤں کی غلامی کرتے ہوئے رائے عامہ کی بھی پرواہ نہ کی اورامریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کو اپنے آقاؤں کے حوالے کردیا۔ رائے عامہ کی مکمل مخالفت کے باوجود لال مسجد اور جامعہ حفصہ کو فاسفورس بموں سے ختم کردیا۔ مغربی پاکستان کی مخالفت کے باوجود مشرقی پاکستان حکمرانوں کے فیصلوں اور سازشوں کی نظر ہوگیا۔ وانا وزیرستان امریکی چھاؤنیاں بن گئیں، تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت اپنے ہی ملک میں اپنے ہی مکین بے آسراء اور لاوارث ہوکر ہجرت پر مجبور ہوگئے۔
اصولی طور پر جمہوری رائے کا احترام کرتے ہوئے رائے عامہ کے فیصلوں کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنا ایک ذمہ دار معاشرے کی نشانی ہوتی ہے۔ معاشرے اسی طرح ترقی کا سفر کرتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات سے بھی یہی زریں اصول نکلتے ہیں۔ حضرت عمرؓ بطور حاکمِ وقت عوام میں اس بات کے جواب دہ تھے کہ ان کے پاس قمیض کا کپڑا زیادہ کیسے ہوگیا؟ کیونکہ وہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھتے تھے۔ بقول شاعر:
بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو
آنحضورﷺ نے امیر عورت کے چوری کرنے پر بھی اسی سزا کا اطلاق کیا جو اسلام کے نزدیک چور کی سزا تھی۔ اس وقت سفارش کرنے والے صحابی پر غضب ناک ہوئے اور فرمایا: ''تم سے پہلے کی امتیں بھی اسی وجہ سے تباہ ہوئیں کہ جب کوئی امیر آدمی چوری کرتا تو اسے معاف کردیا جاتا لیکن غریب کو سزادی جاتی؛ خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیئے جاتے۔''
رائے عامہ کو اپنے کردار اپنے بہترین ابلاغی حکمت عملیوں سے ہموار کیا، یہاں تک کہ مسلمان آدھی سے زیادہ دنیا کو فتح کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ وہ دن کے راہی رات کے سپاہی ہوا کرتے تھے۔ راتوں میں اپنی بستیوں میں پہرہ دیتے تاکہ عوام کو کوئی تکلیف نا ہو۔ حضرت عمر کا یہ جملہ کہ ''اگر دریائے فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی بھوک سے مرجائے تو عمر رب کے آگے جوابدہ ہے''، رائے عامہ تشکیل دینے کی بہترین حکمت عملی تھا؛ اورصرف گفتار ہی نہیں کردار کے بھی غازی تھے کہ آج تک مغربی ممالک میں عمر لاء پر تحقیق در تحقیق ہورہی ہے اور یہ قانون ترقی یافتہ معاشروں میں نافذ العمل بھی ہورہے ہیں۔ لیکن پاکستان میں رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرنے کےلیے میڈیا، پریشر گروپوں، قانون ساز اداوروں اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ذریعے رائے عامہ تشکیل دی جاتی ہے۔ ایک خاص اپجینڈے کے تحت سماج کو اپنی رائے پر ہموار کرکے رائے عامہ کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں رائے عامہ دبتے دبتے ایک لاوے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ پھر دھونس، دھمکی اور زبردستی ان سرفروشوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، وہ حق کی پاداش میں تختہ دار سے بھی نہیں ڈرتے اور قانون کی نظر میں مجرم ٹھہرتے ہیں۔
مصر میں اخوان المسلمون کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ مذہب اسلام کی صحیح تعلیمات ایک اسلامی ملک میں بذریعہ تبلیغ پھیلاتے رہے اور حاکم وقت کے ہاتھوں تختہ دار کو چومتے رہے، اذیت ناک مظالم بھی ان کو ان کے مقصد سے نہ ہٹا سکے۔ وہ بنگلہ دیش ہو یا مصر، فلسطین ہو یا چیچنیا، رائے عامہ کے یہ راہنماء بظاہر کسی جگہ پذیرائی نہ پا سکے لیکن رب کی نظر میں اپنا مقام بناگئے۔
یہ عظیم سرفروش رائے عامہ ہموار کرگئے اور ایک کی شہادت پر کئی نام لیواء پیدا کرگئے۔ بقول شاعر:
گر اک چراغ حقیقت کو گل کیا تم نے
تو موج خون سے صد آفتاب ابھریں گے
بحثیت امت مسلمہ ہم ایک جسم کی مانند ہیں۔ ہر فرد کی ایک اہمیت ہے، ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہے، ہر فرد اپنی جگہ اہم ہے۔ انقلاب بھی رائے عامہ ہموار کرنے سے ہی آتے ہیں، ہر فرد جب اپنی ذمہ داری ادا کرے گا تو معاشرہ خود بخود صحیح اصولوں پر استوار ہوگا۔ پھر کوئی شاہ رخ جتوئی کسی شاہ زیب کو قتل کرکے بیرون ملک نہیں بھاگ سکے گا، کوئی بسمہ وی آئی پی پروٹوکول کے ہاتھوں جان کی بازی نہیں ہارے گی، کوئی ملک کے ذخائر سوئس بینکوں میں رکھوا کر کڑور پتی نہیں بنے گا، کوئی پانامہ لیکس میں کرپشن کا مجرم عدلیہ پر انگلی نہیں اٹھائے گا، کوئی آمر ملکی ذخائر غیروں کے پاس رہن رکھوا کر غیر ملکی جائیدادیں نہیں بنائے گا، کوئی ملک کی زمیینیں بیرون ملک نہیں رکھوائے گا۔
رائے عامہ اتنی مضبوط بنانے کےلیے ہر فرد کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ ہم فرقوں، ذاتوں، گروپوں اور مسلکوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے سے کم درجہ رکھنے والوں کو سلام میں پہل نہیں کرتے، ہم دنیا کی دوڑ میں اتنے آگے جاچکے ہیں کہ دوسروں کو نیچا دکھا کر تسکین حاصل کرتے ہیں، پھر ہم یہ کہتے ہیں کہ حکومت خراب ہے، کیا ہم نے اپنے گھر کی حکومت کو اسلامی طرز پر استوار کیا ہے؟ ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو روز قیامت نبیﷺ کے دیدار کی حسرت رکھتے ہیں؟ یقیناً ہم سب ہی یہ خواہش رکھتے ہیں لیکن کیا ہم یہ بات جانتے ہیں کہ آنحضورﷺکی رحلت کے وقت ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا لیکن اس وقت گھر میں گیارہ تلواریں موجود تھیں۔ تو کیا یہ سب باتیں صرف زبانی جمع خرچ تک محدود ہیں؟ کیا آج بھی ہم امریکہ کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کےلیے بے چین نہیں؟
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ "ہم پاکستانیوں کا سب سے بڑا المیہ ہماری سوچ ہے۔ ہم امریکی شہریت تو چاہتے ہیں لیکن دفن مکے مدینے میں ہونا چاہتے ہیں"
کیا آپ جانتے ہیں امریکہ کی شہریت حاصل کرنے کےلیے آپ کو جن وعدوں پر دستخط کرنا پڑتا ہے اس میں آپ کے ایمان، ملک اور قوم سب کو رہن رکھوانا پڑتا ہے۔ دارلکفر اور دارلاسلام کا فرق کیا صرف کتابوں کی حد تک محدود ہے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ وہاں سب خوشی سے رہتے ہونگے۔ اسلام کا کام کرنے والے ہم سے زیادہ وہاں نومسلم موجود ہیں۔ اب پاکستان میں رہائش پذیر مالی لحا ظ سے مستحکم شخص اپنا سب کچھ چھوڑ کرصرف اس لیے امریکہ چلا جائے کہ یہاں زندگی کو خطرہ ہے تو موت تو وہاں بھی آنی ہے۔ موت تو اٹل ہے، کسی بھی وقت کسی بھی جگہ آسکتی ہے۔ سسٹم کو برا کہنے سے بہتر ہے اپنے حصے کی شمع جلا دیجیے۔ اس چڑیا کی طرح چونچ میں پانی کا قطرہ جمع کرکے حاکم وقت کی لگائی ہوئی آگ میں ڈالیے کہ آپ کا فرض ادا ہوجائے۔ حالات کا شکوہ کرنے والے بزدل لوگ ہوتے ہیں۔ بقول شاعر:
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنےحصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
تو حصے کی شمع جلانے کےلیے مجھے آپ کو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، یہ کام گھرکی اکائی سے شروع ہوکر سماجی و معاشرتی اداروں تک پہنچے گا۔ قوت فیصلہ مضبوط کیجئے، لوگوں سے محبت کیجئے، لوگوں کو اپنے ساتھ ملائیے، محبتیں بانٹیے، نفرتوں کوختم کیجیے، اپنی اور اپنے جیسے ہم خیال افراد کے ساتھ محبت و ربط کا بندھن باندھ کر رکھیے۔ رائے عامہ ہم ہی جیسے مٹھی بھر افراد ملکر قائم کرتے ہیں۔ اور پھر وقت کی بڑی طاقت رائے عامہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوتی ہے۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا
فرد سے افراد، افراد سے معاشرے اور معاشروں سے ہم خیال تحریکیں وجود میں آتی ہیں۔ فرد کا ربط آپس میں مضبوط ہوگا تو اس آواز کو بڑھنے سے پھر کوئی نہیں روک سکتا۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔