گزشتہ جمعہ یوم استغفار تھا
ہماری حالت دیکھیے کہ اب کوئی ایسا گہرا کنواں بھی باقی نہیں رہا جس میں ہمارے زوال کا گوشوارہ گرتے گرتے گم ہو جائے۔
Abdulqhasan@hotmail.com
میری لاہوری قیام گاہ سے خاصی دور جلسہ گاہ ہے جہاں اس وقت ایک بڑے یا بہت بڑے جلسے کی تیاریاں جاری ہیں۔ جب آپ یہ سطریں زہر مار کر رہے ہوں گے تو یہ چھوٹا بڑا یا بہت بڑا جلسہ ہو چکا ہو گا، اس کے بارے میں کسی پیش گوئی کی ضرورت نہیں۔ شاہی قلعے اور شاہی مسجد کے نزدیک ترین پڑوس میں مینار پاکستان اور اس کا سبزہ زار واقع ہے۔ یہ جگہ اس شہر کی سیاسی جلسہ گاہ نہیں۔ اس شہر کی تاریخی جلسہ گاہ اور سیاسی علامت باغ بیرون موچی دروازہ ہے لیکن پرانی سیاست والا موچی دروازہ اب عہد حاضر کی حاضری کی وسعت کو سمیٹ نہیں سکتا۔
آج کے سامعین جلسہ کو نظریات اور سیاسی مقام و مرتبہ سے کہیں زیادہ مال و دولت کی فراوانی دکھائی جاتی ہے جس کی بہتر نمائش مینار پاکستان میں ہوتی ہے۔ جلسہ عام جدید سیاستدانوں کا ہو یا جبہ و دستار والوں کا، سب کے انداز خسروانہ ہی ہوتے ہیں۔ موچی دروازے کا ڈیڑھ دو سو روپے خرچ والا پبلک جلسہ آج کروڑوں بلکہ ان سے بھی زیادہ کے خرچ سے منعقد ہوتا ہے۔ اس سیاسی انقلاب کا ایک خوفناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایسے بڑے بڑے جلسے کرنے والے ان کا خرچہ سیاست سے وصول کرتے ہیں اور ہم سب کھلی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھتے ہیں لیکن پھر کیا کرتے ہیں، اسے مت پوچھئے۔
ہماری حالت دیکھیے کہ اب کوئی ایسا گہرا کنواں بھی باقی نہیں رہا جس میں ہمارے زوال کا گوشوارہ گرتے گرتے گم ہو جائے۔ ہمارے اس ملک کی سرحدیں ابھی تک کیوں باقی ہیں اور ہمارے مٹانے والے کن سوچوں میں پڑے ہیں معلوم نہیں لیکن عمرانی حکیموں اور قوموں کے حالات سے تعارف رکھنے والوں نے ایک خیال یہ ظاہر کیا ہے کہ فی الحال ہمارے آقا ہمیں زندہ تو رکھنا چاہتے ہیں مگر بہت کمزور، کسی ایٹمی قسم کے نخرے اور نخوت کے بغیر۔ معلوم ہوا کہ پیپلز پارٹی اور جناب آصف زرداری کی پانچ برس کی حکومت نے ان کا بہت سارا کام نمٹا دیا ہے اور اس ملک کے معاشرے میں کرپشن کا زہر گھول کر اسے بے جان کر دیا ہے۔
اب یہ دفاع کے قابل نہیں رہا۔ ادھر بھارت نے عام لام بندی کا پروگرام شروع کر دیا ہے جس میں ہر بھارتی کو فوجی تربیت دی جائے گی اور اس کی فوج میں بھرتی بھی ہو گی، اسرائیل کی طرح۔ میں نے اپنی ذاتی اور قوم کی حالت دیکھ کر دل کو جو پریشانی لگا لی تھی اس سے گھبرا کر میں ایک روحانی رہنما کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کا خیال تھا کہ ''ایک وہ زمانہ تھا جب قومیں بننے اور بگڑنے میں برسوں لگا دیتی تھیں یعنی وہ بننے اور پھر مٹنے میں بھی کئی برس اور نسلیں لگا دیتی تھیں لیکن اب زمانہ بہت تیز ہو چکا ہے۔ برسوں کے کام مہینوں میں ہو رہے ہیں۔ ضمیر کو مطمئن رکھنے کے لیے جو ہو سکتا ہے وہ کرتے رہیں۔ قلبی اطمینان کی حالت میں ان حالات سے گزر جائیں۔
ہم نے خود یہ ثابت کیا ہے کہ ہم ایک جدید ریاست چلانے کے اہل نہیں ہیں' نہ ہمارے اندر اس کا جذبہ ہے نہ ہماری نیت درست ہے اور نہ ہی سمجھ بوجھ۔ ہمارے بانی اور قائد کی جیب میں کھوٹے سکے تھے اور ہمارے سابقہ حکمرانوں کے ایک مستند دانشور نے فیصلہ دیا تھا کہ ہم ابھی آزادی کے اہل نہیں ہیں۔ ہندو ہم سے کچھ بہتر ثابت ہوئے جو زوال نہیں استقلال کی طرف بڑھ رہے ہیں''۔
ہماری ایک مذہبی جماعت کے سربراہ سید منور حسن نے حالات سے گھبرا کر قوم سے استغفار کی اپیل کی۔ گزشتہ جمعہ کو قوم نے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی۔ یہ ایک بڑا ہی مشکل کام ہے، پہلے گناہ کا اعتراف کرنا پڑتا ہے اور پھر اس کی معافی اور یہ سارا عمل خاموشی کے ساتھ بندے اور اس کے آقا کے درمیان رہتا ہے۔ استغفار کا مطلب ہے پہلے کسی کو اپنا آقا تسلیم کرنا پھر اس سے معافی مانگنا۔ یہ ایک بڑا ہی نیک انسانی عمل ہے جو کسی کسی کے نصیب میں ہوتا ہے۔
ایک برقی پیغام ملا جس نے استغفار کا ایک انتہائی مؤثر واقعہ بیان کیا ہے۔ میں آپ کو اس میں شریک کرتا ہوں۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کو سفر میں رات آ گئی تو وہ قریبی گاؤں کی مسجد میں رات بسر کرنے چلے گئے اور صحن میں لیٹ گئے۔ چوکیدار آیا اور اس نے انھیں مسجد سے باہر نکال دیا۔ وہ مسجد سے باہر ایک جگہ پر لیٹ گئے تو وہی چوکیدار پھر آیا اور ان کو پاؤں اور ٹانگ سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا دور لے جا کر پھینک دیا۔ اس وقت ایک صاحب آئے اور انھیں گھر لے گئے۔ وہ کچھ پڑھتے رہے۔
امام نے پوچھا کیا پڑھ رہے ہیں؟ اس نے جواب میں استغفار کرتا رہتا ہوں۔ اس کا فائدہ کیا ہوتا ہے، امامؒ کے اس سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ میری ہر دعا قبول ہوتی ہے البتہ میری ایک دعا ابھی تک قبول نہیں ہوئی اور وہ ہے امام احمد بن حنبل ؒ سے ملاقات، جس کی مجھے شدید خواہش ہے۔ اس کے جواب میں امامؒ نے کہا کہ قدرت اسے تو زمین پر گھسیٹ کر تمہارے پاس لے آئی ہے۔
آج کے سامعین جلسہ کو نظریات اور سیاسی مقام و مرتبہ سے کہیں زیادہ مال و دولت کی فراوانی دکھائی جاتی ہے جس کی بہتر نمائش مینار پاکستان میں ہوتی ہے۔ جلسہ عام جدید سیاستدانوں کا ہو یا جبہ و دستار والوں کا، سب کے انداز خسروانہ ہی ہوتے ہیں۔ موچی دروازے کا ڈیڑھ دو سو روپے خرچ والا پبلک جلسہ آج کروڑوں بلکہ ان سے بھی زیادہ کے خرچ سے منعقد ہوتا ہے۔ اس سیاسی انقلاب کا ایک خوفناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایسے بڑے بڑے جلسے کرنے والے ان کا خرچہ سیاست سے وصول کرتے ہیں اور ہم سب کھلی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھتے ہیں لیکن پھر کیا کرتے ہیں، اسے مت پوچھئے۔
ہماری حالت دیکھیے کہ اب کوئی ایسا گہرا کنواں بھی باقی نہیں رہا جس میں ہمارے زوال کا گوشوارہ گرتے گرتے گم ہو جائے۔ ہمارے اس ملک کی سرحدیں ابھی تک کیوں باقی ہیں اور ہمارے مٹانے والے کن سوچوں میں پڑے ہیں معلوم نہیں لیکن عمرانی حکیموں اور قوموں کے حالات سے تعارف رکھنے والوں نے ایک خیال یہ ظاہر کیا ہے کہ فی الحال ہمارے آقا ہمیں زندہ تو رکھنا چاہتے ہیں مگر بہت کمزور، کسی ایٹمی قسم کے نخرے اور نخوت کے بغیر۔ معلوم ہوا کہ پیپلز پارٹی اور جناب آصف زرداری کی پانچ برس کی حکومت نے ان کا بہت سارا کام نمٹا دیا ہے اور اس ملک کے معاشرے میں کرپشن کا زہر گھول کر اسے بے جان کر دیا ہے۔
اب یہ دفاع کے قابل نہیں رہا۔ ادھر بھارت نے عام لام بندی کا پروگرام شروع کر دیا ہے جس میں ہر بھارتی کو فوجی تربیت دی جائے گی اور اس کی فوج میں بھرتی بھی ہو گی، اسرائیل کی طرح۔ میں نے اپنی ذاتی اور قوم کی حالت دیکھ کر دل کو جو پریشانی لگا لی تھی اس سے گھبرا کر میں ایک روحانی رہنما کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کا خیال تھا کہ ''ایک وہ زمانہ تھا جب قومیں بننے اور بگڑنے میں برسوں لگا دیتی تھیں یعنی وہ بننے اور پھر مٹنے میں بھی کئی برس اور نسلیں لگا دیتی تھیں لیکن اب زمانہ بہت تیز ہو چکا ہے۔ برسوں کے کام مہینوں میں ہو رہے ہیں۔ ضمیر کو مطمئن رکھنے کے لیے جو ہو سکتا ہے وہ کرتے رہیں۔ قلبی اطمینان کی حالت میں ان حالات سے گزر جائیں۔
ہم نے خود یہ ثابت کیا ہے کہ ہم ایک جدید ریاست چلانے کے اہل نہیں ہیں' نہ ہمارے اندر اس کا جذبہ ہے نہ ہماری نیت درست ہے اور نہ ہی سمجھ بوجھ۔ ہمارے بانی اور قائد کی جیب میں کھوٹے سکے تھے اور ہمارے سابقہ حکمرانوں کے ایک مستند دانشور نے فیصلہ دیا تھا کہ ہم ابھی آزادی کے اہل نہیں ہیں۔ ہندو ہم سے کچھ بہتر ثابت ہوئے جو زوال نہیں استقلال کی طرف بڑھ رہے ہیں''۔
ہماری ایک مذہبی جماعت کے سربراہ سید منور حسن نے حالات سے گھبرا کر قوم سے استغفار کی اپیل کی۔ گزشتہ جمعہ کو قوم نے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی۔ یہ ایک بڑا ہی مشکل کام ہے، پہلے گناہ کا اعتراف کرنا پڑتا ہے اور پھر اس کی معافی اور یہ سارا عمل خاموشی کے ساتھ بندے اور اس کے آقا کے درمیان رہتا ہے۔ استغفار کا مطلب ہے پہلے کسی کو اپنا آقا تسلیم کرنا پھر اس سے معافی مانگنا۔ یہ ایک بڑا ہی نیک انسانی عمل ہے جو کسی کسی کے نصیب میں ہوتا ہے۔
ایک برقی پیغام ملا جس نے استغفار کا ایک انتہائی مؤثر واقعہ بیان کیا ہے۔ میں آپ کو اس میں شریک کرتا ہوں۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کو سفر میں رات آ گئی تو وہ قریبی گاؤں کی مسجد میں رات بسر کرنے چلے گئے اور صحن میں لیٹ گئے۔ چوکیدار آیا اور اس نے انھیں مسجد سے باہر نکال دیا۔ وہ مسجد سے باہر ایک جگہ پر لیٹ گئے تو وہی چوکیدار پھر آیا اور ان کو پاؤں اور ٹانگ سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا دور لے جا کر پھینک دیا۔ اس وقت ایک صاحب آئے اور انھیں گھر لے گئے۔ وہ کچھ پڑھتے رہے۔
امام نے پوچھا کیا پڑھ رہے ہیں؟ اس نے جواب میں استغفار کرتا رہتا ہوں۔ اس کا فائدہ کیا ہوتا ہے، امامؒ کے اس سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ میری ہر دعا قبول ہوتی ہے البتہ میری ایک دعا ابھی تک قبول نہیں ہوئی اور وہ ہے امام احمد بن حنبل ؒ سے ملاقات، جس کی مجھے شدید خواہش ہے۔ اس کے جواب میں امامؒ نے کہا کہ قدرت اسے تو زمین پر گھسیٹ کر تمہارے پاس لے آئی ہے۔