ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

عثمان حیدر  منگل 23 جنوری 2018
ایک پورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 11 بچے جنسی زیادتی کا شکار بنتے ہیں۔
فوٹو: انٹرنیٹ

ایک پورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 11 بچے جنسی زیادتی کا شکار بنتے ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

جہاں نئے سال کی آمد کے ساتھ ایک دل دہلا دینے والی خبر ’’سات سالہ معصوم بچی کے ساتھ جنسی درندگی اور قتل‘‘ نے ہر آنکھ کو اشکبار کر دیا وہیں اس واقعہ نے ہمارے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کیا ایسا معاشرہ جو حیوانیت کی اس انتہا تک جا پہنچا ہو وہ انسانی معاشرہ کہلانے کا مستحق ہے؟ گڑیا سے کھیلنے والی گڑیا کو کس جرم کی سزا ملی؟ ہم تو زمانہ جاہلیت کو بھی پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ اس متاثرہ بچی کا جرم یہ ہے کہ اس نے ایک ایسے معاشرے میں آنکھ کھولی جہاں سب سو رہے ہیں؟

ایک پورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 11 بچے جنسی زیادتی کا شکار بنتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار پاکستان میں بچوں کے حقوق کےلیے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے ‘ساحل’ نے جاری کیے ہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2016 کے دوران بچوں سے جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ادارہ کہتا ہے کہ سال 2017 میں بچوں سے جنسی زیادتی سمیت اغوا، گمشدگی اور جبری شادیوں کے 4139 کیس رجسٹرڈ ہوئے اور یہ تعداد 2015 کے مقابلے میں دس فیصد زیادہ ہے۔

کروؤل نمبرز (ظالمانہ اعداد و شمار) کے عنوان سے شائع کی جانے والی اس رپورٹ کےلیے ادارے نے 86 قومی، علاقائی اور مقامی اخبارات کی نگرانی کی۔2017 تک بچوں کے خلاف کیے گئے جو بڑے جرائم رپورٹ ہوئے اْن میں اغوا کے 1455 کیس، ریپ کے 502 کیس، بچوں کے ساتھ بدفعلی کے 453 کیس، گینگ ریپ کے 271 کیس جبکہ زیادتی یا ریپ کی کوشش کے 362 کیس سامنے آئے۔ ان واقعات میں سب سے زیادہ سنگین جرم زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں کا قتل ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ جنسی حملوں کے بعد قتل کے کْل 100 واقعات سامنے آئے۔ ادارے کی تحقیقات کے مطابق بچوں سے جنسی زیادتی اور تشدد کرنے والے مجرموں میں گھر کے اندر کے افراد، رشتہ دار اور واقفِ کار بھی ہو سکتے ہیں۔

زیادتی کا شکار ہونے والے 76 فیصد کا تعلق دیہی علاقوں جبکہ 24 فیصد کا تعلق شہروں سے ہے۔ 2017ء کے دوران بچوں سے جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بچوں پر تشدد کرنے والوں میں زیادہ تعداد ان افراد کی تھی جو بچوں کو جانتے تھے۔ ان کی تعداد 1765 ہے۔ اعدادو شمار کے مطابق بچوں سے زیادتی کرنے والے افراد 798 اجنبی، 589 واقف کار، 76 رشتہ دار، 64 پڑوسی، 44 مولوی، 37 ٹیچرز اور 28 پولیس والے ملوث پائے گئے ہیں۔ ملزمان بچوں کو تحائف دیکر ورغلاتے ہیں، جبکہ اپنے گھناؤنے مقصد میں کامیابی کے بعد یہ افراد بچوں کو بلیک میل بھی کرتے ہیں۔

پنجاب میں 2676، سندھ میں 987، بلوچستان میں 166، اسلام آباد میں 156، خیبر پختونخوا میں 141، آزاد کشمیر میں 9 اور گلگت بلتستان سے 4 واقعات رپورٹ ہوئے۔اغواء ہونے والوں میں 11 سے 18 سال کے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ 16 سے 18 سال کی لڑکیوں کے اغوا کے واقعات میں اضافہ جبکہ لڑکوں کے اغوا کے واقعات میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ کم عمری کی شادی کے کل 177 واقعات میں سے 112 صوبہ سندھ میں جبکہ 43 پنجاب میں پیش آئے۔

میڈیا کےلیے موجود ضابطہ اخلاق کے باوجود 47 فیصد بچوں کے نام، 23 فیصد بچوں کے والدین کے نام جبکہ چھ فیصد واقعات میں نام کے ساتھ تصاویر بھی شائع کی گئیں۔

رواں سال پنجاب میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں ایک مرتبہ پھر اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، گذشتہ 6 ماہ کے دوران صرف قصور شہر میں 5 سے 10 سال کی عمر کے 10 کم سن بچوں کو ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا۔ ان مقتولین کی لاشیں زیرِ تعمیر مکانات سے برآمد کی گئیں۔ رواں سال جنوری سے شروع ہونے والے ان ہولناک واقعات میں ریپ کا نشانہ بنائے جانے والے 10 متاثرہ بچوں میں ایک 8 سالہ لڑکی بھی شامل ہے جسے حال ہی میں درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ پولیس کو مذکورہ لڑکی کی لاش 8 جولائی کو شاہ عنایت کالونی کے ایک زیر تعمیر مکان سے ملی، یہ لڑکی اپنے گھر سے ٹیوشن سینٹر کےلیے نکلی تھی جس کے بعد لاپتہ ہوگئی۔ مقتولہ تیسری کلاس کی طالبہ تھی اور اس کے والد ایک گھریلو ملازم ہیں۔ گذشتہ 6 ماہ میں جن بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ان میں 7 لڑکیاں اور 3 لڑکے شامل ہیں۔

ہر واقعے کے بعد متاثرہ خاندان کے ہمراہ شہریوں کی بڑی تعداد نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔ بعد ازاں پولیس کی اس یقین دہانی کے بعد منتشر ہوجاتے تھے کہ واقعے میں ملوث افراد کو جلد کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا، تاہم پولیس کسی بھی کیس کو حل کرنے میں ناکام رہی؛ جبکہ پولیس کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ دو مبینہ ریپ ملزمان کو ان کے ساتھیوں نے مقابلے میں ہلاک کردیا ہے۔ خیال رہے کہ دو سال قبل حسین خان والا میں سیکڑوں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے اور اس کی ویڈیو بنا کر ان کے اہل خانہ کو بلیک میل کرنے کے واقعات نے قصور کی تاریخ میں ناقابل یقین نقوش چھوڑے تھے۔

بچوں کو نشانہ بنانے کے واقعات رواں سال جنوری میں شروع ہوئے۔ پہلا واقعہ کوٹ پروین میں پیش آیا تھا جس میں 5 سالہ لڑکی کو ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا تھا اور اس کی لاش زیر تعمیر مکان سے ملی تھی، تاہم پولیس اس کے قاتلوں تک پہنچنے میں ناکام رہی۔ ایک کم سن لڑکی کی لاش علی پارک سے برآمد ہوئی تھی اور یہ لاش بھی زیر تعمیر مکان سے برآمد ہوئی تھی، ان واقعات نے لوگوں میں شدید تشویش پیدا کردی ہے۔

شاہ عنایت کالونی کے رہائشی محمد اکبر کا کہنا تھا کہ ’’ان واقعات کے بعد میں نے اپنی بیٹیوں کو ٹیوشن سینٹر جانے سے روک دیا ہے، یہ معاملہ بہت خوفناک حتیٰ کہ دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہے‘‘۔

واضح رہے کہ ایسے واقعات کے فوری بعد پولیس متعدد افراد کو گرفتار کرتی ہے تاہم ان کیسز میں مزید پیش رفت دیکھنے میں نہیں آتی۔ اس ساری صورت حال پر سول سوسائٹی کے رضاکاروں نے پولیس کے تحقیقاتی عمل کا تنقید کا نشانہ بنایا ہے، ان کے مطابق نہ تو پولیس افسران کو متعلقہ ٹریننگ دی جاتی ہے اور نہ ہی وہ تحقیقات کے جدید طریقہ کار سے واقف ہیں۔
بقول شاعر:

یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے

یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے

کہاں ہیں؟ کہاں ہیں محافظ خودی کے؟

ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

عثمان حیدر

عثمان حیدر

بلاگر کا تعلق لیہ سے ہے۔ یو ای ٹی ٹیکسلا سے انجینئرنگ گریجویٹ ہیں اور آج کل واسا لاہور میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات ہیں۔ گزشتہ چھ برس سے مختلف موضوعات پر کالم اور بلاگز لکھ رہے ہیں۔ فیس بک آئی ڈی usman.haider.7503 ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔