محکمہ صحت سندھ کی زبوں حالی اور ’’گھوسٹ ڈاکٹرز‘‘

ریاست ان مریضوں کو ان کے آبائی علاقوں میں علاج کی سہولیات مہیا کرنے میں یکسر ناکام ہوچکی ہے۔

ریاست ان مریضوں کو ان کے آبائی علاقوں میں علاج کی سہولیات مہیا کرنے میں یکسر ناکام ہوچکی ہے۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
وطن عزیز میں تعلیم اور صحت کے شعبے کس درجہ زبوں حالی کا شکار ہیں اس کا علم حکمرانوں کے علاوہ پوری قوم کو بخوبی ہے، اب تک شعبہ تعلیم میں گھوسٹ اساتذہ کے بارے میں سنتے آئے تھے لیکن سیکریٹری صحت سندھ کی ایک رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ صحت کے شعبے میں بھی ایک بڑی تعداد ''گھوسٹ ڈاکٹرز'' کی پائی جاتی ہے۔

سیکریٹری صحت فضل اﷲ پیچوہو نے سرکاری اسپتالوں کی ابتر صورتحال اور انکشافات پر مبنی رپورٹ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جمع کرائی ہے جس کے مطابق محکمہ صحت سندھ میں 2011 سے اب تک 1500 ڈاکٹر غیر حاضر پائے گئے ہیں، 1213 میڈیکل آفیسر، 153 خواتین میڈیکل آفیسر، 148 سینئر میڈیکل آفیسر شامل ہیں۔ ان غیر حاضر ڈاکٹروں اور عملے کی برطرفی کی سمری وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو ارسال کردی گئی ہے اور شنید ہے کہ اخبارات میں اشتہاری مہم کے بعد ان ڈاکٹرز کو برطرف کردیا جائے گا۔


رپورٹ کے مطابق حال ہی میں 5 ہزار 402 ڈاکٹروں کو بھرتی کیا گیا۔ اس کے باوجود حالات میں بہتری دکھائی نہیں دیتی۔ پورے ملک میں شعبہ صحت شدید زبوں حالی اور ابتری کا شکار ہے، کسی صوبہ کو اس حالت سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا جاسکتا، خاص کر سرکاری اسپتالوں کی حالت بدترین ہے، صفائی ستھرائی کی ناقص صورتحال کے علاوہ میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹرز کا مریضوں سے ناورا سلوک اور ادویات کی عدم دستیابی سنگین صورت اختیار کرچکی ہے۔ دور دراز اور اندرون صوبہ چھوٹے شہروں، گاؤں دیہات کے رہائشی اپنے مریضوں کے علاج کے لیے بڑے شہروں میں آنے پر مجبور ہیں۔

ریاست ان مریضوں کو ان کے آبائی علاقوں میں علاج کی سہولیات مہیا کرنے میں یکسر ناکام ہوچکی ہے۔ لاکھوں روپے تعلیم پر خرچ کرنے والے ڈاکٹرز سرکاری اسپتالوں میں تعیناتی کے بعد بھاری تنخواہیں تو وصول کرتے ہیں لیکن قوم کی خدمت کرنے کے بجائے اپنے ذاتی کلینکس کی دکان بڑھانے میں لگ جاتے ہیں۔ مسیحاؤں کا یہ طرز عمل شرمناک اور شعبہ طب کی عظمت پر دھبہ ہے۔ حکومت کو شعبہ صحت کی بہتری کے لیے فوری اقدامات کے ساتھ ایسے ڈاکٹرز کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لانی چاہیے۔
Load Next Story