لیبیائی سمندر میں پاکستانی نوجوانوں کے ڈوبنے کا سانحہ
اس طرح کے المناک حادثات بہت طویل عرصہ سے ہو رہے ہیں اور ہمارے وطن کے ذمے داروں کی بے حسی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔
اس طرح کے المناک حادثات بہت طویل عرصہ سے ہو رہے ہیں اور ہمارے وطن کے ذمے داروں کی بے حسی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا
لیبیا کے سمندری علاقے میں پناہ گزینوں کی کشتی الٹنے سے کم از کم 90 افراد ڈوب گئے جب کہ 8پاکستانیوں سمیت10افراد کی لاشیں نکال لی گئیں جن میں2 لیبیائی باشندے بھی شامل ہیں۔ ملازمت کی غرض سے یورپ جانے والے تارکین وطن کی کشتی بحیرہ روم میں لیبیا کے ساحل کے قریب ڈوبنے سے بڑی تعداد میں پاکستانیوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ کی تنظیم برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ چھوٹی سی کشتی میں، جو مبینہ طور پر اسمگلنگ کے لیے استعمال ہوتی تھی 90 افراد سوار تھے جن میں سے اکثریت کا تعلق پاکستان سے بتایا گیا ہے۔
پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی بین الاقوامی تنظیم کی ترجمان اولیویا ہیڈن کا کہنا تھا کہ مہاجرین کو لے جانے والی کشتی لیبیا کے ساحل زوارا کے سمندر میں تیز لہروں کی زد میں آ کر ڈوب گئی۔ کشتی میں سوار افراد جو بیروزگاری سے تنگ آ کر اپنے آپ کو موت کے خطرے میں ڈال کر غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن بدقسمتی سے لیبیا کے شہر زوارہ کے قریب کشتی گنجائش سے زیادہ افراد سوار ہونے کے باعث بپھری ہوئی لہروں کی زد میں آکر حادثے کا شکار ہو گئی۔
تنظیم کے مطابق حادثے میں ڈوبنے والے دو افراد نے تیر کر جان بچائی جب کہ تیسرے شخص کو ماہی گیروں کی کشتی نے بچا لیا۔ خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین واضح طور پر لیبیا سے اٹلی کو ملانے والے سمندری راستے سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے مہاجرین کو درپیش شدید مشکلات سے مسلسل خبردار کرتی رہی ہے لیکن چونکہ ہماری حکومت کی زیادہ توجہ اربوں کھربوں کی لاگت کے میگا پراجیکٹس پر ہے اس لیے فاقہ کشی کا شکار غربت و افلاس کے ماروں پر نہیں جو زندگی کے دکھوں سے عاجز آکر جانتے بوجھتے ہوئے اپنے تئیں موت کے حوالے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اس طرح کے المناک حادثات بہت طویل عرصہ سے ہو رہے ہیں اور ہمارے وطن کے ذمے داروں کی بے حسی آخری حدوں کو چھو رہی ہے اور قوم کا قیمتی ترین سرمایہ یعنی نوجوان مفت میں اپنی جان گنواتے رہیں گے۔
اقوام متحدہ کی تنظیم برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ چھوٹی سی کشتی میں، جو مبینہ طور پر اسمگلنگ کے لیے استعمال ہوتی تھی 90 افراد سوار تھے جن میں سے اکثریت کا تعلق پاکستان سے بتایا گیا ہے۔
پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی بین الاقوامی تنظیم کی ترجمان اولیویا ہیڈن کا کہنا تھا کہ مہاجرین کو لے جانے والی کشتی لیبیا کے ساحل زوارا کے سمندر میں تیز لہروں کی زد میں آ کر ڈوب گئی۔ کشتی میں سوار افراد جو بیروزگاری سے تنگ آ کر اپنے آپ کو موت کے خطرے میں ڈال کر غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن بدقسمتی سے لیبیا کے شہر زوارہ کے قریب کشتی گنجائش سے زیادہ افراد سوار ہونے کے باعث بپھری ہوئی لہروں کی زد میں آکر حادثے کا شکار ہو گئی۔
تنظیم کے مطابق حادثے میں ڈوبنے والے دو افراد نے تیر کر جان بچائی جب کہ تیسرے شخص کو ماہی گیروں کی کشتی نے بچا لیا۔ خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین واضح طور پر لیبیا سے اٹلی کو ملانے والے سمندری راستے سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے مہاجرین کو درپیش شدید مشکلات سے مسلسل خبردار کرتی رہی ہے لیکن چونکہ ہماری حکومت کی زیادہ توجہ اربوں کھربوں کی لاگت کے میگا پراجیکٹس پر ہے اس لیے فاقہ کشی کا شکار غربت و افلاس کے ماروں پر نہیں جو زندگی کے دکھوں سے عاجز آکر جانتے بوجھتے ہوئے اپنے تئیں موت کے حوالے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اس طرح کے المناک حادثات بہت طویل عرصہ سے ہو رہے ہیں اور ہمارے وطن کے ذمے داروں کی بے حسی آخری حدوں کو چھو رہی ہے اور قوم کا قیمتی ترین سرمایہ یعنی نوجوان مفت میں اپنی جان گنواتے رہیں گے۔