عاصمہ جہانگیر۔۔۔ شہر میں اک چرا غ تھا، نہ رہا

عینی نیازی  ہفتہ 17 فروری 2018

عاصمہ جہانگیر مظلوموں کے لیے امیدکا ایک چرا غ ہی تو تھیں، ایک ایسی دبنگ خاتون جنھیں دیکھ کر غریبوں اور مظلوموں کوحوصلہ بھی ملتا اور چھپرچھایا کا احساس بھی ہوتا تھا۔ان کی اچانک موت کی خبر نے ہم سب کوگنگ کرکے رکھ دیا۔

ایسا کیسے ہو سکتا ہے وہ تو اتنی بہادر ہیں کہ موت کو بھی شکست دے سکتی ہیں، ایک ایسے ملک میں جہاں کا نصف خواتین پر مشتمل ہے، مگر بد قسمتی سے یہ اکثریت شدید معاشی، سیاسی اور سماجی استحصال کا شکار ہو، عورتوں کی ذہانت کو بے وقوفی، ان کے حقو ق مانگنے کو بغاوت اور ان کی تعلیم کو بے را ہ روی سے تعبیرکیا جاتا ہو لڑکیوں کے اسکول اس لیے تباہ کردیے جاتے ہوں کہ کہیں علم کی روشنی میں اپنی زند گی کے اندھیروں کو اجالوں میں نہ تبدیل کر لیں۔

جہاں عورتوں کے گھر سے باہر قدم نکالنے پر قدم قدم پر رکاو ٹیں حائل ہو تو ہم جیسے تیسری دنیا میں رہنے والے عوام میں کسی عورت کی کامیابی ایک تازہ ہوا کا جھونکا معلوم ہوتی ہے۔ عاصمہ جہانگیرکی یہ جیت نہ صرف ان کی اپنی بلکہ پورے پاکستان کی خواتین کے لیے فخرکا مقام اور ایک تازہ ہوا کا جھونکا تھا۔

27 اکتوبرکو ہونے والے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن میں صدر بنی تھیں۔ پاکستان کی تاریخ میں سپریم کورٹ بارکی پہلی خاتون صدرکا اعزاز اپنے نام کروایا جو اس بات کی دلیل ہے کہ اگرکوئی جرائت مندی، محنت اور خلوص سے کسی مقصد کو پانا چاہے توکوئی مشکل اس کے راہ میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔ نیز ان کی کامیابی میں ان تمام روشن خیال پا کستانی مردوں کا بھی حصہ تھا جنھوں نے مرد و زن کی تفریق کے بغیر کامیابیوں میںان کی رہنمائی کی۔

عاصمہ جہانگیر 27 جنوری 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں، کنیرڈ کالج سے بی اے کیا، اس کے بعد 1975ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حا صل کی۔ اپنے کیرئیرکے آغاز میں ہی وہ انسانی حقو ق کے علم برداروں میں شامل ہو گئی تھیں، ان کی تعلیم و تربیت میں ان کی تعلیم یافتہ اور روشن خیال والدہ، ان کے نانا اصلاح الدین اور والد ملک غلام جیلانی کی شخصیت کا بے حد اثر رہا، جن کی ساری زندگی قانون کی پاسداری، اصولوں کی عمل داری اور دستورکی بالا دستی کے لیے جد وجہد کرتے گزری اپنی حق گوئی کے جرم میں وہ اکثر جیل کی سزائیں اورگھر میں نظر بندیاں بھگتتے رہیے، وہ مارشل لاء حکومت کی ناانصافی کے خلا ف بلاجھجک بولتی اور لکھتی رہیں یہی خوبی عاصمہ جہانگیر کے خون میں بھی ودیعت کر گئی۔

انھوں نے بھی ساری زندگی انسانی حقوق کی عمل داری اورجمہوری اقدارکی سربلندی کا پرچم سرنگوں نہیں ہونے دیا، یہی وجہ ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ان کی خدمات اور جدوجہدکو قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ شروع سے ہی پاکستا نی ڈکٹیٹرز اور ان نام نہاد عقیدے اور روشن خیالی کا لبادہ اوڑھے اندر سے ایک غاصب اور خلق خدا کے پیدائشی حقوق غضب کرنے والوں کے لیے درد سر بنی رہیں۔ وہ جس قدر شدت پسندی اور بے باکی سے کھر ی کھری سچی باتیں کہہ جاتیں اس کے لیے یقینا شیرکا جگر چاہیے ان کے مخالف ان کی تقریروںاور تحریروں سے ہمیشہ پریشان رہتے تھے۔

قانون کے پیشے سے وا بستہ ہونے کے بعد انھوں نے غریب اور بے سہارا عورتوں، بچوں اورمردوں کے مقدمے بڑے خلوص سے لڑے۔ عورتوں سے مطلق قانونی پیچیدگیوں کو سلجھانے کی، انھوں نے بہت سعی کی، خاص طور پر قانون شہادت کے زمرے میں آنے والی بے گنا ہ خواتین کی ہر ممکن قانونی مدد کرتی رہیں،ان کے اس جہاد میں ان کے شوہر، بہن حنا جیلانی اوران کے کولیگز نے ان کے بھر پورساتھ دیا۔

1980ء میں اپنی بہن حنا جیلانی کے ساتھ مل کر پا کستا ن کی پہلی لا ء فرم کا آغاز کیا۔ اسی سال وومن ایکشن فورم کے نام سے ایک تحر یک شروع کی جس کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈال کر امتیازی قوانین کو ختم کرانا تھا۔ ان کے نمایاں کاموں میں قانون شہادت کے خلاف قوانین کو بہترکرنا ہے۔ حدود آرڈینس کے سلسلے میں 1983ء لاہور میں پنجاب وومن وکلاء ایسوسی ایشن کے ساتھ مل کر ایک عوامی مظاہرہ کیا جس کی پاداش میں پولیس کی لاٹھی چارج اور نظر بندی کی سزا پائی ان کے اور ان کی ساتھیوں کی کوششوں سے ایچ آر سی پی کا قیام عمل میں آیا غریب اوربے سہارا لوگوں کی قانونی مددکرنا، ان کاپسندیدہ مشغلہ تھا۔

انھوں نے بھٹہ مزدوروں کے حقوق کی جنگ لڑی، بچوں کی جبری مشقت کے خلاف آواز اٹھائی، پاکستان کی اقلیتی برادری جن میں عیسائی، ہندو اور دیگرمذاہب کے لوگ شامل ہیں ان کو انصاف دلانے کے لیے بہت جد وجہد کی۔ جہا ں کہیں کسی بااثرکے ہاتھوں ستائے ہوئے کسی غریب بے سہارا پر ظلم وزیادتی کی اطلاع ان تک پہنچی یہ بی بی فورا آستین چڑھا کر پل پڑیں اسے انصاف دلانے کی جدوجہد میں لگ جاتیں۔

ایک ایسے معاشرے میں جہا ں عورت آج بھی پاؤں کی جوتی سمجھی جاتی ہو، ان کی بیداری سماج کے اصولوں سے بغاوت کے مترادف اور ناقابل معافی جرم بن کر دیگر عورتوں کے لیے عبرت بنا دی جاتی ہوں۔ سروے رپورٹ بھی کہتی ہوکہ پاکستان میں تما م بڑے عہدوں پر90 فی صد مرد جب کہ صرف دس فی صد پرخواتین فائز ہیں، وہاں عاصمہ جہانگیرجیسی خواتین کی کامیابی ان عو رتوں کے لیے ایک ہمت افزاء مثال بنی رہی کہ بے شک ذہانت کسی کی میراث نہیں! زندگی کے کھرے اور سچے تجربوں گرد وپیش کی دنیا سے مشاہدوں نے ان کے شعورکو وسعت بخشی اپنی بصیرت کے مطابق اپنے تجربوں کو بیان کرنے کی صلا حیت بھی ان کے اندرحیرت انگیز تھی۔

عاصمہ جہانگیرنے عدلیہ کی بحالی کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا آئین اور قانون کی بالادستی میں ہمیشہ غیر جانبداری سے کام لیا۔ اس بات کا اعادہ اپنے اعزازمیں دی گئی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھاکہ ’’ہمیں آئین اورقانون کی بالادستی کے لیے کام کرنا ہے۔ بار ایسوسی ایشن کو اپنی صفوں میں اتحاد پیداکرنا ہے، ہمیں عدلیہ کی آزادی کے لیے ابھی بہت کام کرنا ہے‘‘ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قانون کی بالادستی کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش رہیں گی۔ پورا ملک ان کی آناً فاناً موت سے دکھی ہے۔

عاصمہ جہانگیرکی بامقصد زندگی کا سفر اس قدر جلدی اور اچانک ختم ہوگا، یقین نہیں آتا، وہ زندگی کے آخری سفر پر روانہ ہوگئی ہیں، پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی عاصمہ جہانگیرکی وفات کی خبر پر جو محبت، عزت واحترام اور سوگواروں کا ہجوم انھیں نصیب ہوا وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔