پاکستان میں خسرہ کا خطرناک پھیلائو

ڈاکٹر ظفر بشیر چودھری  اتوار 31 مارچ 2013
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

کیا آپ کو اس اہم بات کا علم ہے کہ دنیا بھر میں بچوں میں پایا جانے والا سب سے زیادہ متعدی مرض (ایک سے دوسرے کو لگنے والا) کونسا ہے؟تو سن لیجئے ’’یہ خسرہ‘‘ ہے۔

اس موذی مرض کا نام اکثر ہمارے کانوں میں پڑتا رہتا ہے۔ لیکن ہم میں سے اکثر اس کی سنگینی سے بالکل واقف نہیں۔ یاد رکھیں تمام طرح کے دیگر متعدی امراض/انفیکشنز یا تو پانی کے ذریعے، خون کے ذریعے ،لعاب کے ذریعے یا خوراک وغیرہ کے ذریعے پھیلتے ہیں مگر آپ خسرہ کے وائرس کے بھیانک پن کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ خسرہ کا وائرس دنیا کا وہ واحد وائرس ہے جو ہوا کے ذریعے پھیلتا ہے۔

یعنی اگر ایک متاثرہ مریض جب ہوا میں سانس لیتا ہے، کھانستا ہے یا چھینکتا ہے تو یہ خطرناک وائرس مریض کے نتھنوں یا منہ سے نکل کر فوری طور پر آپ کے اردگرد ہوا میں پھیل جاتا ہے، اور پاس کھڑا کوئی دوسرا شخص فوری طور پر وائرس اپنے پھیپھڑوں میں لے جاتا ہے۔ مگر یاد رکھیں ان تمام خرابیوں کے باوجود خسرہ کا وائرس وہ وائرس ہے جس کی 100فیصد کامیاب ویکسین ہے اور ایک خاص ویکسین کے ذریعے100فیصد روک تھام ہو سکتی ہے۔

وطنِ عزیز پاکستان میں ابھی پچھلے سالوں میں ڈینگی کا عفریت در آیا تھا۔ اُس نے پاکستان خصوصاً پنجاب کے تمام حکومتی اور نجی اداروں کے ڈھانچوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ابھی ڈینگی سے پاکستان کی عوام کی جان چھوٹی ہی تھی کہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں خسرہ کی شدید وباء پھیل گئی۔

ایسے میں یہ ضروری تھا کہ عوام کو خسرہ کے بارے میں تمام ضروری معلومات فراہم کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ خسرہ پر لکھا جانے والا یہ مضمون بھی عوام کی فلاحِ اور صحتِ عامہ کی غرض و غایت سے تحریر کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں مندرجہ ذیل حقائق سے آپ بخوبی آگاہ ہو سکیں گے۔

٭خسرہ کی اب تک کی مختصر تاریخ

٭خسرہ کی وجوہات

٭خسرہ کی علامات اور پیچیدگیاں

٭خسرہ کی باقاعدہ تشخیص

٭خسرہ کی روک تھام اور اس کا علاج معالجہ

خسرہ(Measles)کو رویبلا یا ماربیلی بھی کہا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں ایک دور ایسا بھی آیا تھا کہ خسرہ بچوں میں موجود ایک انتہائی عام پایا جانے والا متعدی مرض/انفیکشن ہوا کرتا تھا۔

شمالی امریکا میں پہلی دفعہ اس پر تحقیق ہوئی تھی۔1960ء کی دہائی کے آغاز میں صرف شمالی امریکا میں5لاکھ بچے اس کا شکار ہوئے تھے۔

1963ء میں خسرہ کی ویکسین دریافت ہوئی اور اس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ آج جب خسرہ کے چند نئے کیسز ترقی یافتہ ممالک میں ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ مگر ترقی پذیر ممالک میں یہ وباء کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔

اگرچہ مریضوں کی ایک بڑی تعداد اس انفیکشن سے صحت یاب ہو جاتی ہے۔ مگر پھر بھی خسرہ کی سنگین پیچیدگیاں بھی سامنے آسکتی ہیں۔ انفیکشن کے شروع میں دماغ کے حصے ورم زدہ ہو سکتے ہیںہیں جس کوENCEPHALITISٰؑیعنی دماغ کی سوزش کہتے ہیں۔ ایک ایسی پیچیدگی ہے جو کہ فوراً تو نہیں بلکہ کئی سالوں کے بعد دیر سے بھی نمودار ہوسکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں دماغ کے مختلف حصوں کی تباہی ہوتی ہے۔

انسانوں میں ویکسین سے جن متعدی امراض کی روک تھام بالکل ممکن ہو جاتی ہے خسرہ کا شمار ان بیماریوں میں ہوتا ہے۔ ان بیماریوں کو ویکسین پریوینٹیسبل انفیکشن کہتے ہیں۔ خسرہ کی مختلف اینٹی جینک اقسام ہیں۔ لیکن انسانوں میں خسرہ کی صرف ایک خاص طرح کی اینٹی جینک قسم پائی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پاکستان میں ایک بڑی اور موثر ایمیونائزیشن یعنی ویکسین کی مہم شروع کی جائے اور پھر اس کو بطریق احسن مکمل کر لیا جائے یعنی بلند ترین ایمیونائزیشن شرح تک کامیاب جدوجہد کی جائے تو اس وائرس کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے جیسے چچک اور سمال پاکس اور پولیو کو ختم کیا جا چکا ہے۔

خسرہ کی وجوہات

خسرہ ایک خاص قسم کے وائرس سے لاحق ہوتا ہے جس کا نامPARAMYXOVIRUSپیرا مکسو وائرس ہے۔

یہ ہوا میں موجود چھوٹے چھوٹے آبی قطرات Droplets کے ذریعے اُس وقت پھیلتا ہے جب ایک متاثرہ انفیکٹڈ ورم زدہ شخص کھانستا ہے ،سانس لیتا ہے یا ناک کے ذریعے چھینکتا ہے۔ انفلوائنز اوائرس تو آ پ نے سنا اور پڑھا ہوگا۔ اس انفلوائنزا وائرس کے برعکس خسرہ وائرس دروازوں کے ہینڈلز(دستوں) اور ٹیلیفون وغیرہ جیسی دوسری اشیاء پر زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہتا۔ یہ ایک ہوا میں رہنے والا وائرس ہے۔ اور اُس کا یہ مطلب ہے کہ یہ انتہائی زیادہ اچھوتی اور متعدی وائرس ہے۔ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ صرف10فی صد وہ اشخاص جن کو ویکسین نہیں لگی ہوئی ہوتی اور وہ ایک ہی گھر میں رہتے ہیں، اس انفیکشن سے متاثرہ مریض کے ساتھ بچ پاتے ہیں باقی سب 90فیصد لوگ اس وائرس کا شکار ہو جاتے ہیں۔

خسرہ کی علامات اور دیگر پیچیدگیاں

ایک دفعہ انفیکشن ہوجانے کے بعد ایک یا 2ہفتوں تک کوئی علامات نمودار ہونے کے بغیر ہی وائرس تعداد میں بڑھتا رہا ہے۔ اسے کہتے ہیں انکوبیشنINCUBATION اس کے بعد علامات نمودار ہوتی ہیں جیسے کھانسی، نزلہ، بخار، آنکھوں کا سُرخ ہو جانااور آنسوئوں کا بہنا وغیرہ۔ بچوں میں چڑچڑا پن بھی پیدا ہو سکتا ہے۔

ان ابتدائی علامات کے تقریبا دو دن بعد کاپلکس سپاٹس KOPLIK’S SPOTS منہ کے اندرمولر دانتوں کے نزدیک گالوں کے اندرونی سائڈ پر ظاہر ہوتے ہیں۔کاپلکس سپاٹس Ropcik’s چھوٹے سائز کے سُرخ رنگ کے بے قاعدہ سے سپاٹ یا داغ ہوتے ہیں جن کے اندرونی مرکز میں سفید یا نیلا رنگ ہوتا ہے تقریبا دو دن کے بعد بڑے سائز کے برائون یا سرخ ابھرئے ہوئے دھبے نمودار ہوتے ہیں یہ Rash(دھرپڑ) کانوں سے پیچھے اور بعد میں ساتھ ہی پیشانی اور چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد یہ پیٹ ،کمر، بازوئوں اور ٹانگوں پر پھیل سکتے ہیں۔ یہRash عموماً پانچ دن کے اندر غائب ہونا شروع ہو جاتے ہیں یہ شروع میں سر کی طرف سے غائب ہونا شروع ہوتے ہیں پھر جسم کے نچلے حصوں(ٹانگیں وغیرہ) کی طرف سے صاف ہوتے جاتے ہیں۔

ایک دفعہ جبRash مکمل طور پر غائب ہو جاتے ہیں تو جسم کی جلد کچھ کچھ بھورے رنگ کی نظر آنے لگتی ہے اور اوپر جلد کی تہیں جلد ہی بعد میں ازخود اُترنی شروع ہو جاتی ہیں اور جسم سے اترتی جاتی ہے۔ یہ Rash درد نہیں کرتے اور بالکل خارش نہیں کرتے کچھ لوگ روشنی سے بہت زیادہ حساس ہو جاتے ہیں اور انکی آنکھیں سُرخ اورسوزش زدہ ہو جاتی ہے۔ انفیکشن کے عروج کے دوران بہت زیادہ درجہ حرارت کا بخار واقع ہو جاتا ہے یعنی104F/40cتک۔

جب Rash ظاہر ہوتے ہیں تو اُس سے چار دن پہلے سے خسرہ متعدی Contagious صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس لیے یہ بہت بہتر ہوتا ہے کہ اس دوران خسرہ زدہ لوگ دوسرے لوگوں سے دور رہیں تاکہ دوسرے لوگ متاثر نہ ہو سکیں۔

خسرہ کا مرض عموماً سادہ مراحل کیساتھ گزرتا جاتا ہے۔ کچھ پیچیدگیوں کے سا تھ کچھ کیسزCasesمیں توسنگین مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ ایک بڑی پیچیدگی “نمونیا ـ”ہے جو پھیپھڑوں کا ورم انفیکشن INFECTIONہوتا ہے۔ خسرہ ازخود کبھی بھی سخت نمونیا کا باعث نہیں بنتا بلکہ خسر ہ مد ا فعتی نظام/امیون سسٹم IMMUNE SYSTEM کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ اور پھیپھڑوں کو ورم زدہ کر دیتا ہے۔

پھر اس کے بعد بیکٹیریا آسانی سے پھیپھڑوں میں داخل ہو جاتا ہے اور پھیپھڑوں کو سپرانفیکٹSuper-Infectکر دیتاہے۔ جراثیمی ورم انفیکشن کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ سخت قسم کی کھانسی ہوتی ہے جو لگاتار پانچ دن تک رہتی ہے۔اور زرد یا سبز رنگ کی بلغم کا اخراج ہوتا ہے۔ اگر یہ علامات اُبھرنی شروع ہو جائیں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ ایک دوسرا عام جراثیمی ورم /انفیکشن جو ٹشوز کی سوزش کے نتیجے میں اُبھرتا ہے اور خسرہ کی وجہ سے ہوتا ہے، وہ ہے کان کے درمیانے حصہ کا انفیکشن/ورم جو Otitis Media کہلاتا ہے۔

خسرہ کی تشخیص

یہ انتہائی اہم ہوتا ہے کہ خسرہ کی جانچ جلداز جلد کی جائے چونکہ بیماری اپنے ابتدائی مرحلہ میں چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ آپ کا ڈاکٹر آپ کی میڈیکل ہسٹری لے گا اور فزیکل چیک اپ عمل میں لائے گا۔ تاکہ خسرہ کی تشخیص ہو جائے۔ عام نشانات اور علامات میں Rash  بخار، نزلہ، چھینکیں، کھانسی شامل ہیں۔ سرخ آنکھیں آسانی سے دیکھی جا سکتی ہیں اور یہ خسرہ کی تشخیص میں انتہائی کارآمد ہیں۔

اگر کسی مریض کے ساتھ خسرہ روائتی علامات یعنی نزلہ، زکام، وغیرہ بالکل موجود نہ ہوں تو مریض کے منہ کا اندر سے معائنہ بیسیوں حقائق بتا دیتا ہے۔

سرخ ،چھوٹے سے بے قاعدہ داغ سپاٹس منہ کے اندر دیکھے جا سکتے ہیں۔ جن کوکاپلک سپاٹسCoplik’s spotsکہتے ہیں۔ یہ گالوں کے اندر کی دیواروں پر،مولر دانتوں کے نزدیک پائے جاتے ہیں۔ ہر سپاٹس کا سفید یا نیلا مرکزہ ہوتا ہے۔ کاپلک سپاٹس خسرہ کی یقینی اور حقیقی علامت ہوتے ہیں۔ اور جو ابتدائی علامات کے دو دن کے بعد نمودار ہوتے ہیں اورجو کہ Rash بننے سے دو دن قبل ظہور پذیر ہوتے ہیں۔

جو ڈاکٹر صاحب ان کا پلک سپاٹس کو منہ کے اندر دیکھ لیتے ہیں وہ عموما خون ٹیسٹ یا دیگر ٹشو ٹیسٹ کو اس غرض سے اہمیت نہیں دیتے کہ تشخیص ہو سکے بلکہ اس لیے ان ٹیسٹوں کو تجویز کرتے ہیں کہ یہ ٹیسٹ صحت عامہ کو ملحوظ خاطر رکھ کر فائدہ دے سکتے ہیں۔ تاکہ خسرہ اوٹ بریکس کو قابو کرنے میں مدد مل سکے۔

خسرہ کی روک تھام اور علاج

کامن کولڈ یاعام نزلہ زکام کی طرح خسرہ بھی ایک وائرس انفیکشن یعنی وائرس زدہ ورم ہوتاہے۔ جسکا مقابلہ انسانی جسم بڑی کامیابی سے کرتا ہے اور ایک مقررہ وقت کے بعد انفیکشن زائل ہو جاتا ہے۔

کوئی ایسی ادویات نہیں جو کہ اس وائرس کو ختم کرسکیں۔ پس فائدہ مند علاج معالجہ صرف وہ ہی ہے جو کہ علامات کو زائل کرنے میں مدد دے۔مثال کے طور پر ACETAMINOPHIN یا IBUPROFEN بروفن بخار کم کر سکتا ہے کھانسی اور گلے کی خراش وغیرہ کے لیے جو ادویات ہوتی ہیں وہ ان علامات کو ختم کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔

ڈاکٹر صاحبان وٹامنAکی زیادہ مقدارکی خوارکیں دے سکتے ہیں اور تجویز کر سکتے ہیں۔ اُن بچوں کو جن کو خسرہ ہو جاتا ہے یا جن کو خسرہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ وہ بچے زیادہ رسک پر ہوتے ہیںجو خسرہ کی وجہ سے ہسپتالوں میں داخل ہوتے ہیں۔ یا وہ بچے جن کا مدافعتی نظام انتہائی کمزورSuppressedہوتا ہے۔ یا وہ بچے جن کو وائٹا منA کی کمی کا مرض لاحق ہوتا ہے یا وہ بچے جو ان ممالک سے سفر کر کے کہیں پہنچتے ہیں، جہاں پر خسرہ کی وجہ سے اموات کی شرح بہت زیادہ رہتی ہے،95%بچے جن کو خسرہ کے خلاف اچھی طرح سے ویکسین دے دی جائے تو وہ بچے خسرہ سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے علم کے مطابق ویکسین کی وجہ سے یہ تحفظ ساری زندگی کے لیے ہوتا ہے۔

صرف15%کیسز میں مریضوں کو بہت معمولی غیر متعدی ، خسرہ ہو سکتا ہے۔ ویکسین دینے کے تقریبا10دن کے بعد یہ اس لیے ہوتا ہے کہ ویکسین زندہ وائرسوں پر مشتمل ہوتی ہے مگر یہ وائرس انتہائی کمزور سٹرین کے ہوتے ہیں۔

وہ مائیں جن کو خسرہ ہو چکا ہو۔ اُن کے ہاں جنم لینے والے نوزائدہ بچے ایک سال تک خسرہ سے محفوظ رہتے ہیں۔ چونکہ خاص قسم کےANTIBODIESٰٓاینٹی باڈیز ماں کے مدافعتی نظام میں سے بچے کو منتقل ہو جاتے ہیں اس وجہ سے خسرہ کی ویکسن اس طرح بچے میں پہلے سال کی عمر تک کام نہیں بھی کر سکتی۔

زیادہ مستعمل یعنی استعمال میں لایا جانے والا طریقہ یہ ہے کہ بچوں کو12سے15ماہ کی عمر میں ویکسین دے دی جائے اور پھر4یا6برس  کی عمر میں ایک بوسٹر ڈوز(خوراک) دے دی جائے۔ یعنی جب وہ سکول یا کنڈر گارٹن جانے لگیں۔خسرہ کی ویکسین عام طور پرMumpsاور روبیلا ویکسن کے ساتھ ہی ملا کر ایک انجکشن میں دی جاتی ہے جس کوMMRویکسین کہاجاتا ہے۔

یہ ویکسین خسرہ کو ان لوگوںمیں پروان چڑھنے سے روک سکتی ہے جو کہ وائرس زدہ ہوتے ہے۔ مگر یہ تبھی ممکن ہے اگر ویکسین مریض میں وائرس کے حملہ ہونے سے72گھنٹے کے اندر اندر دے دی جائے۔

عام طور پر خسرہ کی ویکسین اُن بچوں کو نہیں دی جانی چاہیے جو ایک سال سے چھوٹے ہوں، اُن مائوں کو جو کہ حاملہ ہوں۔ یا ان لوگوں کوجن کا مدافعتی نظام بُر ی طرح متاثر اور نقصان زدہ ہو۔

ہاں اگر ایک حاملہ عورت یا نوزائیدہ بچہ اس خسرہ وائرس کا شکار ہو جائے تو ویکسین کی بجائے اُن کوایمیون سیرم گلابولین۔ IMMUNE SERUM GLOBULINE دی جانی چاہیے۔ جس میں وائرس کے خلاف انسانی جسم کو تحفظ فراہم کرنے والے خاص قسم کے انٹی باڈیز ANTIBODIES ہوتی ہیں۔

تمام تر ادویات کا ایک جینزکا نام اور دوسرا برانڈ نام ہوتا ہے. برانڈ نام وہ ہوتا ہے جوادواساز ادارے اپنی پراڈکٹ کو دیا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پیرا سٹامول وغیرہ ۔

پنجاب میں خسرہ کی صورتحال

ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز برائے ای پی آئی (EPI) پنجاب ڈاکٹر تنویر احمد کے مطابق ’’حالیہ جائزے کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ چار ماہ کے دوران پنجاب کے مختلف حصوں‘ زیادہ تر لاہور میں‘ خسرہ کے چھ ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ صوبے میں روزانہ  خسرہ کے 60سے 70 مریض رپورٹ ہورہے ہیں۔ ابھی تک گوجرانوالہ‘ راجن پور‘ رحیم یار خان‘ قصور اورلاہور کے اضلاع میں 19  اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کچھ کیسز میں بچوں کی حفاظتی ویکسی نیشن ہوچکی تھی لیکن ان میں بیماری سے مدافعتی نظام پیدا نہیں ہوسکا تھا۔

اس بڑھتی ہوئی بیماری کی روک تھام کے لیے ویکسی نیشن اور نگرانی کی مہم میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ خسرے سے متاثرہ مریضوں کے علاقوں کی صفائی اور ان کی ویکسی نیشن ہماری سٹرٹیجی کا حصہ ہے۔ رحیم یار خان اورسندھ کی حدود سے متصل تحصیلوں میں بڑے پیمانے پر ویکسی نیشن کی گئی ہے تاکہ وائرس کو پنجاب میں داخل ہونے سے روکا جاسکے۔ لاہور کے تمام ہسپتالوں میں خسرہ کی ویکسین با افراط دستیاب ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے پانچ سال تک کے بچوں کو خسرے سے بچائو کی ویکسین ضرور پلوائیں اورویکسی نیشن عملے سے تعاون کریں تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کوبا احسن سرانجام دے سکیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔