ضبط و تحمل عظیم انسانی صفات
اگر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو ساری محنت اکارت چلی جاتی ہے۔
اگر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو ساری محنت اکارت چلی جاتی ہے۔ فوٹو : فائل
WASHINGTON DC:
قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ زمانے کی قسم! انسان یقینا گھاٹے میں ہے، ہاں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، نیک اعمال میں لگ گئے۔ ایک دوسرے کو حق کی تلقین کی اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔
ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کا نتیجہ عمل صالح ہے اور عمل صالح کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ فوری طور پر انفرادی زندگی سے اجتماعی زندگی میں نفوذ کرتا ہے، جسے حق کی تلقین کہا جاتا ہے۔ اس حق کی فوری تلقین کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مصائب و آلام کی بھٹی میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو ساری محنت اکارت چلی جاتی ہے۔ اس لیے کام یابی کی آخری شرط یہ قرار دی گئی کہ یہ لوگ ایک دوسرے کو صبر و استقامت اور ضبط و تحمل کی تلقین کرتے ہیں۔
حضور ﷺ کی سیرت طیبہ کے ساتھ تمام انبیا ؑ کی حیات ہائے طیبہ میں یہ بات واضح طور پر جھلکتی ہے کہ جوں ہی انہوں نے حق کی دعوت دی لوگوں کو شرک، ظلم، خودغرضی اور نفرت کے راستے سے ہٹا کر توحید، انصاف، ایثار اور محبت کے راستے پر ڈالنا چاہا تو ان پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ اور خصوصی طور پر ابتدائی حصہ ضبط و تحمل کی مشق میں گزر گیا۔ یہی حال ان صحابہ کرامؓ کا ہوتا رہا۔ اپنے نبی ﷺ کے ساتھ انہیں بھی کئی قسم کی تکالیف انتہائی ضبط و تحمل کے ساتھ سہنا پڑیں۔
حضور اکرم ﷺ کی مکی زندگی کا تیرہ سالہ دور صحابہ کرامؓ کو ضبط و تحمل کی مشق کرانے کا دور ہے۔ وہ دنیا والوں کی ایذارسانی، گالی گلوچ، آوازے، پراپیگنڈے، سنگ بازیاں، سوشل بائیکاٹ حتی کہ قتل و غارت سب کچھ اللہ کی محبت میں برداشت کرتے رہے۔ ضبط تحمل کی مشق میں جب تیرہ سالہ نصاب مکمل کرلیا جاتا ہے تو بغیر طویل و عریض ظاہری اسباب کے عرب و عجم کو مظلوم گریہ کناں انسانوں کی جھولی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا اس کا تو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں وعدہ فرمایا ہے، مفہوم : اے مسلمانو! اللہ سے مدد مانگو، صبر و تحمل کا دامن تھام کر اور نماز کے ذریعے۔ یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ صبر و تحمل پر اللہ کی معیت کا وعدہ ہے۔ اب اللہ تعالی جس کے ساتھ ہوجائیں اسے اور کسی کی مدد چاہیے؟ کام یابی اور کسے کہتے ہیں؟ غور فرمائیے کہ ہمارے محلے کا کوئی بڑا آدمی ہمیں کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہے کہ میاں گھبراؤ نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں، تو اس وقت ہماری کیا حالت ہوتی ہے! ہم پھولے نہیں سماتے اور اپنے آپ کو بڑا کام یاب آدمی سمجھنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالی فرما رہے ہیں کہ ضبط و تحمل سے کام لوگے تو پھر میں تمہارے ساتھ ہوں۔
ایک شخص نے جب حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کی موجودی میں زبان درازی کی، پہلی اور دوسری مرتبہ کی زبان درازی پر تو صدیق اکبر ؓ خاموش رہے۔ تیسری مرتبہ آپؓ نے اس کو اس کی گستاخی کا جواب دیا۔ جس پر رسول اکرم ﷺ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ حضرت ابوبکر ؓکے پوچھنے پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے صدیقؓ اس شخص کی زبان درازی پر جب تم خاموش رہے تو تمہاری طرف سے اللہ کے فرشتے جوا ب دیتے رہے اور تمہیں اللہ کا قرب حاصل رہا۔ یہ صورت حال دیکھ کر مجھے خوشی ہو رہی تھی، جوں ہی تم نے اس شخص کو جواب دیا تو گویا تم نے اس شخص کا معاملہ اللہ تعالی کے بہ جائے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ فورا اللہ تعالی کے فرشتے تمہارے پاس سے چلے گئے اور تم اس معاملے میں اللہ کی معیت سے محروم ہو ئے، یہ بات مجھے پسند نہ آئی۔
خود حضور اکرم ﷺ کا اسوۂ حسنہ ضبط و تحمل کے اعتبار سے روشنی کا عظیم مینار ہے۔ آپ ﷺ صبر و استقامت، ضبط و تحمل اور عفو و درگزر کا سراپا تھے۔ آپؐ طائف اور احد میں زخمی ہوئے تو خون میں نہلانے والوں کے لیے انتہائی محبت بھری دعا فرمائی کہ اے اللہ انہیں ہدایت فرما یہ مجھے نہیں پہچانتے۔
سگی بیٹی کا قاتل شکست کھانے کے بعد سامنے آیا تو آپؐ نے اسے معاف کردیا۔ امیر حمزہؓ کو قتل کرانے والی ہندہ فتح مکہ کے موقع پر سامنے آئی تو وہ بھی معاف کردی گئی۔
حضور اکرم ﷺ کو سوتا ہوا دیکھ کر ایک شخص تلوار سونت لیتا ہے اور قتل کرنا چاہتا ہے، لیکن جلال محمدیؐ سے کانپ اٹھتا ہے اور اس کی تلوار ہاتھ سے گرجاتی ہے وہ تلوار اب اللہ کے نبیؐ کے ہاتھ میں ہے چاہیں تو قتل کردیں، لیکن عفو و درگرز اور صبر و تحمل ملاحظہ ہو کہ اسے بھی معاف کر دیتے ہیں۔
اصل طاقت ور وہ شخص نہیں جو دوسرے شخص کو پچھاڑ دے بل کہ طاقت ور وہ شخص ہے جو اپنے غصے پر قابو پالے۔ بہادری اس کا نام نہیں ہے کہ انسان غصے کے حیوانی جذبے سے مغلوب ہوجائے اور دوسرے شخص کو ضربیں لگائے بل کہ بہادری یہ ہے کہ انسان اپنے اندر چھپے ہوئے خناس کو پچھاڑ دے۔ اپنے نفس کو قابو میں لے آئے اور ضبط و تحمل کا مظاہرہ کرے۔
آدم ؑ کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کا بھی یہی قصہ ہے کہ قابیل نے حسد کی بنا پر ہابیل کو قتل کرنا چاہا۔ ہابیل نے انتہائی ضبط و تحمل کے ساتھ قتل ہونا گوارا کرلیا لیکن اپنے بھائی پر ہاتھ نہ اٹھایا۔
عصر حاضر میں ہم بھی ضبط و تحمل جیسی عظیم صفت کو اختیار کر کے معاشرے کے پُرامن اور باوقار شہری بن سکتے ہیں۔
قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ زمانے کی قسم! انسان یقینا گھاٹے میں ہے، ہاں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، نیک اعمال میں لگ گئے۔ ایک دوسرے کو حق کی تلقین کی اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔
ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کا نتیجہ عمل صالح ہے اور عمل صالح کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ فوری طور پر انفرادی زندگی سے اجتماعی زندگی میں نفوذ کرتا ہے، جسے حق کی تلقین کہا جاتا ہے۔ اس حق کی فوری تلقین کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مصائب و آلام کی بھٹی میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو ساری محنت اکارت چلی جاتی ہے۔ اس لیے کام یابی کی آخری شرط یہ قرار دی گئی کہ یہ لوگ ایک دوسرے کو صبر و استقامت اور ضبط و تحمل کی تلقین کرتے ہیں۔
حضور ﷺ کی سیرت طیبہ کے ساتھ تمام انبیا ؑ کی حیات ہائے طیبہ میں یہ بات واضح طور پر جھلکتی ہے کہ جوں ہی انہوں نے حق کی دعوت دی لوگوں کو شرک، ظلم، خودغرضی اور نفرت کے راستے سے ہٹا کر توحید، انصاف، ایثار اور محبت کے راستے پر ڈالنا چاہا تو ان پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ اور خصوصی طور پر ابتدائی حصہ ضبط و تحمل کی مشق میں گزر گیا۔ یہی حال ان صحابہ کرامؓ کا ہوتا رہا۔ اپنے نبی ﷺ کے ساتھ انہیں بھی کئی قسم کی تکالیف انتہائی ضبط و تحمل کے ساتھ سہنا پڑیں۔
حضور اکرم ﷺ کی مکی زندگی کا تیرہ سالہ دور صحابہ کرامؓ کو ضبط و تحمل کی مشق کرانے کا دور ہے۔ وہ دنیا والوں کی ایذارسانی، گالی گلوچ، آوازے، پراپیگنڈے، سنگ بازیاں، سوشل بائیکاٹ حتی کہ قتل و غارت سب کچھ اللہ کی محبت میں برداشت کرتے رہے۔ ضبط تحمل کی مشق میں جب تیرہ سالہ نصاب مکمل کرلیا جاتا ہے تو بغیر طویل و عریض ظاہری اسباب کے عرب و عجم کو مظلوم گریہ کناں انسانوں کی جھولی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا اس کا تو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں وعدہ فرمایا ہے، مفہوم : اے مسلمانو! اللہ سے مدد مانگو، صبر و تحمل کا دامن تھام کر اور نماز کے ذریعے۔ یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ صبر و تحمل پر اللہ کی معیت کا وعدہ ہے۔ اب اللہ تعالی جس کے ساتھ ہوجائیں اسے اور کسی کی مدد چاہیے؟ کام یابی اور کسے کہتے ہیں؟ غور فرمائیے کہ ہمارے محلے کا کوئی بڑا آدمی ہمیں کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہے کہ میاں گھبراؤ نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں، تو اس وقت ہماری کیا حالت ہوتی ہے! ہم پھولے نہیں سماتے اور اپنے آپ کو بڑا کام یاب آدمی سمجھنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالی فرما رہے ہیں کہ ضبط و تحمل سے کام لوگے تو پھر میں تمہارے ساتھ ہوں۔
ایک شخص نے جب حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کی موجودی میں زبان درازی کی، پہلی اور دوسری مرتبہ کی زبان درازی پر تو صدیق اکبر ؓ خاموش رہے۔ تیسری مرتبہ آپؓ نے اس کو اس کی گستاخی کا جواب دیا۔ جس پر رسول اکرم ﷺ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ حضرت ابوبکر ؓکے پوچھنے پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے صدیقؓ اس شخص کی زبان درازی پر جب تم خاموش رہے تو تمہاری طرف سے اللہ کے فرشتے جوا ب دیتے رہے اور تمہیں اللہ کا قرب حاصل رہا۔ یہ صورت حال دیکھ کر مجھے خوشی ہو رہی تھی، جوں ہی تم نے اس شخص کو جواب دیا تو گویا تم نے اس شخص کا معاملہ اللہ تعالی کے بہ جائے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ فورا اللہ تعالی کے فرشتے تمہارے پاس سے چلے گئے اور تم اس معاملے میں اللہ کی معیت سے محروم ہو ئے، یہ بات مجھے پسند نہ آئی۔
خود حضور اکرم ﷺ کا اسوۂ حسنہ ضبط و تحمل کے اعتبار سے روشنی کا عظیم مینار ہے۔ آپ ﷺ صبر و استقامت، ضبط و تحمل اور عفو و درگزر کا سراپا تھے۔ آپؐ طائف اور احد میں زخمی ہوئے تو خون میں نہلانے والوں کے لیے انتہائی محبت بھری دعا فرمائی کہ اے اللہ انہیں ہدایت فرما یہ مجھے نہیں پہچانتے۔
سگی بیٹی کا قاتل شکست کھانے کے بعد سامنے آیا تو آپؐ نے اسے معاف کردیا۔ امیر حمزہؓ کو قتل کرانے والی ہندہ فتح مکہ کے موقع پر سامنے آئی تو وہ بھی معاف کردی گئی۔
حضور اکرم ﷺ کو سوتا ہوا دیکھ کر ایک شخص تلوار سونت لیتا ہے اور قتل کرنا چاہتا ہے، لیکن جلال محمدیؐ سے کانپ اٹھتا ہے اور اس کی تلوار ہاتھ سے گرجاتی ہے وہ تلوار اب اللہ کے نبیؐ کے ہاتھ میں ہے چاہیں تو قتل کردیں، لیکن عفو و درگرز اور صبر و تحمل ملاحظہ ہو کہ اسے بھی معاف کر دیتے ہیں۔
اصل طاقت ور وہ شخص نہیں جو دوسرے شخص کو پچھاڑ دے بل کہ طاقت ور وہ شخص ہے جو اپنے غصے پر قابو پالے۔ بہادری اس کا نام نہیں ہے کہ انسان غصے کے حیوانی جذبے سے مغلوب ہوجائے اور دوسرے شخص کو ضربیں لگائے بل کہ بہادری یہ ہے کہ انسان اپنے اندر چھپے ہوئے خناس کو پچھاڑ دے۔ اپنے نفس کو قابو میں لے آئے اور ضبط و تحمل کا مظاہرہ کرے۔
آدم ؑ کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کا بھی یہی قصہ ہے کہ قابیل نے حسد کی بنا پر ہابیل کو قتل کرنا چاہا۔ ہابیل نے انتہائی ضبط و تحمل کے ساتھ قتل ہونا گوارا کرلیا لیکن اپنے بھائی پر ہاتھ نہ اٹھایا۔
عصر حاضر میں ہم بھی ضبط و تحمل جیسی عظیم صفت کو اختیار کر کے معاشرے کے پُرامن اور باوقار شہری بن سکتے ہیں۔