بلوچستان میں دہشتگردی کی وارداتیں

گزشتہ روز ایف سی بلوچستان نے دہشتگردوں کے ٹھکانوں کی موجودگی سے متعلق خفیہ معلومات کی بنیاد پر سرچ آپریشنز کیے تھے۔

گزشتہ روز ایف سی بلوچستان نے دہشتگردوں کے ٹھکانوں کی موجودگی سے متعلق خفیہ معلومات کی بنیاد پر سرچ آپریشنز کیے تھے۔ فوٹو:فائل

بلوچستان میں یکے بعد دیگرے دہشتگردی کے دو واقعات نے صوبہ کی سیاسی اور سماجی صورتحال پر موجود بیانیہ کی ہیئت تبدیل کردی ہے اس لیے بلوچستان حکومت اور سیکیورٹی حکام کو دہشتگردی اور امن وامان برقرار رکھنے کی حکمت عملی پر نظر ثانی کے لیے زیادہ وقت میسر نہیں، دہشتگردوں کی طرف سے حملے حکومتی اقدامات اور اعلانات کے خلاف جارحانہ رد عمل ہے جسے کچلنا ضروری ہے کیونکہ مشاہدہ میں آیا ہے کہ حکومت یا سیکیورٹی حکام نے جب بھی آپریشن یا اسلحہ کی بازیابی اور فراریوں کے ہتھیار ڈالنے کی بات میڈیا تک پہنچائی دہشتگردوں کی جانب سے مسلح جوابی کارروائی ہوتی رہی اور کوئٹہ ان کا ہدف بنا رہا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق گزشتہ روز ایف سی بلوچستان نے دہشتگردوں کے ٹھکانوں کی موجودگی سے متعلق خفیہ معلومات کی بنیاد پر سرچ آپریشنز کیے تھے، چمن، سبی، اوچ، کوہلو میں کارروائیوں کے دوران اسلحہ وگولہ بارود کا ذخیرہ برآمد کیا گیا جن میں خودکش جیکٹس، سب مشین گنیں، بارودی سرنگیں، ڈیٹونیٹرز اور بارودی مواد شامل تھا۔اس بار بھی دو سمتی حملوں کے لیے ہدف کے چناؤ میں امن دشمنوں نے ''نو نان سنس''اسٹرٹیجی برقرار رکھی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کوتاہی نہیں ہوئی تب بھی پیشگی کارروائی کے میکنزم کے فقدان پر دو رائے کی گنجائش نہیں، اس لیے کوئٹہ کے نواحی علاقے نوحصار میں خونی تالاب کے قریب ایف سی کیمپ پر خودکش حملے میں 4 ایف سی اہلکار محمد عامر، محمد عمران، جاوید احمد اور محمد ارشد کی شہادت ، 6 کے زخمی ہونے جب کہ سمنگلی روڈ پر ڈی ایس پی پراسیکیوٹنگ حمیداﷲ دستی کی گاڑی پر فائرنگ سے 2 پولیس اہلکاروں کی شہادت درد انگیز واقعات ہیں۔


جس میں ڈی ایس پی اور ان کی اہلیہ عندلیب قیصرانی کے بال بال بچنے کے سانحوں نے ثابت کر دیا ہے کہ دہشتگردوں کے خفیہ ٹھکانے یقیناً تباہ ہو چکے مگر دہشتگردوں کی باقیات کا سوال ابھی باقی ہے جو دندناتے ہوئے یا گھات لگا کر واردات کرتے ہیں، ایسی صورتحال میں سیکیورٹی فورسز نے دونوں علاقوں میں آپریشن شروع کر دیا ہے جسے منطقی انجام تک پہنچائے بغیر ختم نہیں ہونا چاہیے۔

واضح رہے وزیراعلیٰ سبی کے سالانہ میلہ میں امن کا پیغام دے رہے تھے اور دہشتگردوں نے اس کا جواب بندوق کی زبان میں دیا۔ پولیس کے مطابق حمیداللہ دستی ڈی ایس پی پراسیکیوٹنگ تعینات ہیں اور وہ کیسز کی پیروی کے لیے عدالت جا رہے تھے، حملے کے وقت ڈی ایس پی کی اہلیہ عندلیب قیصرانی بھی گاڑی میں موجود تھیں۔ایک اطلاع کے مطابق ڈی ایس پی کی گاڑی بلٹ پروف تھی جب کہ گاڑی کے عقب میں بلٹ پروف جیکٹ پہنے گارڈز کے لیے بھی بلٹ پروف لوہے کہ چادریں لگائی گئی تھیں مگر دہشتگردوں کی متعدد گولیاں چادروں کے پار نکل کر دو محافظوں کے جاں بحق ہونے کا سبب بن گئیں۔اب تو دہشتگردوں کے قدم ہر حال میں رکنے چاہئیں۔
Load Next Story