پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ
پٹرولیم قیمتوں کے نرخ ماہانہ بنیاد پر طے کرنے کی روش بدستور جاری ہے۔
پٹرولیم قیمتوں کے نرخ ماہانہ بنیاد پر طے کرنے کی روش بدستور جاری ہے۔ فوٹو؛ فائل
وفاقی حکومت نے ایک بار پھر عوام پر پٹرول بم گراتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق پٹرول کی قیمت میں 3 روپے 56پیسے فی لیٹر، ہائی اسپیڈ ڈیزل 2 روپے 62 پیسے، مٹی کا تیل 6 روپے 28 پیسے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں ایک روپے فی لیٹر اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔
ایوان بالا میں بیٹھے عوامی نمایندگان پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے مضمرات سے بخوبی واقف ہیں، جو وزرا عوامی قربت سے دور اور عوامی مسائل سے ناواقفیت رکھتے ہیں انھیں متوجہ کرنے کے لیے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا مستقل اپنی مقدور بھر کاوشوں کے ذریعے آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ کس طرح صرف ایک پٹرول کی قیمت بڑھنے سے نہ صرف ٹرانسپورٹ کرائے بلکہ اشیائے صرف سے لے کر ہر کاروبار زندگی سے وابستہ اشیا کے نرخ بڑھ جاتے ہیں۔
پٹرولیم قیمتوں کے نرخ ماہانہ بنیاد پر طے کرنے کی روش بدستور جاری ہے اور نئی قیمتیں بھی 31مارچ تک نافذ رہیں گی۔ اس کے بعد یہ قیمتیں کم ہوتی ہیں یا مزید بڑھائی جاتی ہیں یہ حکمرانوں کے ''موڈ'' پر منحصر ہے۔ جب کہ اس وقت بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر عوام کو ریلیف دیا جانا ازحد ضروری ہے۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم قیمتوں میں تبدیلی کا تذکرہ کرکے ملک میں قیمتیں بڑھا تو دی جاتی ہیں لیکن کبھی بھی عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کم ہونے کا فائدہ پاکستانی عوام کو نہیں پہنچایا جاتا۔ عوام حیران ہیں کہ جو سبسڈیز اور ریلیف پہنچانے کے حکومتی دعوے علی الاعلان کیے جاتے ہیں ان کے ثمرات کبھی محسوس کیوں نہیں ہوتے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ متوسط اور نچلے طبقے کے لیے زندگی دشوار تر ہوتی جارہی ہے، ظاہر ہے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑھوتری کا اثر بھی ان ہی طبقات پر ہوگا، امرا اور ایوان بالا میں بیٹھے عوامی نمایندگان مہنگائی کے صرف نام سے واقف ہیں۔ صائب ہوگا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں معتدل رکھنے کے ساتھ ششماہی یا سالانہ نرخ نامہ مرتب کرنے کی ضرورت کا احساس کیا جائے۔ عوام کو ریلیف پہنچایا ضروری ہے۔
ایوان بالا میں بیٹھے عوامی نمایندگان پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے مضمرات سے بخوبی واقف ہیں، جو وزرا عوامی قربت سے دور اور عوامی مسائل سے ناواقفیت رکھتے ہیں انھیں متوجہ کرنے کے لیے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا مستقل اپنی مقدور بھر کاوشوں کے ذریعے آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ کس طرح صرف ایک پٹرول کی قیمت بڑھنے سے نہ صرف ٹرانسپورٹ کرائے بلکہ اشیائے صرف سے لے کر ہر کاروبار زندگی سے وابستہ اشیا کے نرخ بڑھ جاتے ہیں۔
پٹرولیم قیمتوں کے نرخ ماہانہ بنیاد پر طے کرنے کی روش بدستور جاری ہے اور نئی قیمتیں بھی 31مارچ تک نافذ رہیں گی۔ اس کے بعد یہ قیمتیں کم ہوتی ہیں یا مزید بڑھائی جاتی ہیں یہ حکمرانوں کے ''موڈ'' پر منحصر ہے۔ جب کہ اس وقت بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر عوام کو ریلیف دیا جانا ازحد ضروری ہے۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم قیمتوں میں تبدیلی کا تذکرہ کرکے ملک میں قیمتیں بڑھا تو دی جاتی ہیں لیکن کبھی بھی عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کم ہونے کا فائدہ پاکستانی عوام کو نہیں پہنچایا جاتا۔ عوام حیران ہیں کہ جو سبسڈیز اور ریلیف پہنچانے کے حکومتی دعوے علی الاعلان کیے جاتے ہیں ان کے ثمرات کبھی محسوس کیوں نہیں ہوتے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ متوسط اور نچلے طبقے کے لیے زندگی دشوار تر ہوتی جارہی ہے، ظاہر ہے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑھوتری کا اثر بھی ان ہی طبقات پر ہوگا، امرا اور ایوان بالا میں بیٹھے عوامی نمایندگان مہنگائی کے صرف نام سے واقف ہیں۔ صائب ہوگا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں معتدل رکھنے کے ساتھ ششماہی یا سالانہ نرخ نامہ مرتب کرنے کی ضرورت کا احساس کیا جائے۔ عوام کو ریلیف پہنچایا ضروری ہے۔