الیکشن کمیشن، امید کی کرن

پاکیزہ منیر  جمعـء 5 اپريل 2013

پاکستان میں 2013 کا انتخابی معرکہ 2010 میں توثیق کردہ سول وسیاسی حقوق کے عالمی معاہدے (آئی سی سی پی آر) کے تحت پہلا انتخابی عمل ہوگا۔ عالمی معاہدے کے تحت الیکشن کمیشن کو سیاسی دبائو سے آزاد، مکمل شخصی آزادی کے تناظر اور جمہوری انتخابات کرانا ہوںگے جب کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل انتخابی عمل کی براہ راست یا بلاواسطہ نگرانی کرسکتی ہے۔ پاکستان نے سول وسیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدہ میں بیشتر شقوں پرعمل در آمد کیا ہے، تاہم انتخابی عمل سے قبل، دوران اور بعد ازاں بھی کئی حصوں پر عمل در آمد انتہائی ضروری ہوگا۔

پاکستان میں عالمی معیار کے مطابق جمہوری انتخابات کا انعقاد، خفیہ رائے شماری کو یقینی بنانا اور عوامی امنگوں کے مطابق (آئی سی سی پی آر) معاہدے پر عمل درآمد کی خصوصی نگرانی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی ذیلی کمیٹی کرتی ہے، آئین میں 8 ویں ترمیم، سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم سمیت دیگر اراکین کاتقرر، اراکین کے لیے گریجویشن کی شرط کا خاتمہ، غلطیوں سے پاک انتخابی فہرستوں کی تیاری کے لیے نادرا کی خدمت کا حصول، انتخابی حلقے امیدواروں اور پولنگ اسٹیشنز کی مانیٹرنگ کے لیے قومی اور صوبائی سطح پر مبصرین کی ٹیموں کا اجراء بھی (آئی سی سی پی آر) معاہدے کی روشنی اور قوانین میں بہتری کے باعث سامنے آیاہے۔

فخر الدین جی ابراہیم کی سربراہی میں الیکشن کمیشن پاکستان کو مطلوبہ قوت فراہم کرکے سپریم کورٹ آف پاکستان نے بالکل وہی کیا ہے جو بھارتی سپریم کورٹ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں شفاف ومنصفانہ انتخابات یقینی بنانے کے لیے طویل عرصے سے کرتی آرہی ہے۔ انڈین الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق طویل روایات اور متعدد عدالتی احکامات کے تحت جب انتخابی عمل ایک بار شروع ہوجائے تو عدلیہ انتخابات کے طریقہ کار اور انتظامی امور میں مداخلت نہیں کرتی۔

ویب سائٹ کے مطابق آئین کے تحت انتخابات کے بعد کسی منتخب رکن پارلیمنٹ یا رکن صوبائی اسمبلی کو نا اہل قرار دینا الیکشن کمیشن کا مشاورتی اختیار ہے، اگر ایک شخص انتخابات کے دوران کسی غلط کاری کا مرتکب ہو اور اس کا مقدمہ سپریم یا ہائی کورٹ کے سامنے ہو تو اس رکن کو نااہل قرار دینے اور کتنی مدت، ایسے تمام معاملات میں صدر مملکت الیکشن کمیشن کی رائے تسلیم کرنے کے پابند ہیں، ریاستی رکن ہونے کی صورت میں گورنر کو یہ رائے ماننا ہو گی۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے پاکستان کے الیکشن کمیشن کو کافی طاقت ور بنا دیا ہے۔ اب عوام کو امید ہے کہ انشاء اﷲ انتخابات صاف وشفاف ہوں گے۔ ایک رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے مجوزہ قانونی صدارتی آرڈیننس کے ذریعے منظور ہو یا نہ ہو کمیشن کسی بھی افسر کو ہٹانے یا معطل کرنے سمیت وہ تمام اقدامات کرے گا جوآزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہوںگے، یہ بھی پتہ چلا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ایسے وفاقی اور صوبائی افسران کی ایک فہرست بھی تیار کرلی ہے جنھیں انتخابات سے قبل ٹرانسفر کردیاجائے گا، تاکہ کوئی بھی شخص کسی طرح انتخابات میں دھاندلی نہ کرسکے، الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کو ہر ممکن طریقے سے منصفانہ بنانے کے لیے جس عزم کا اظہار کیاگیاہے اور اس کے لیے وہ ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔

الیکشن کمیشن کی کمزوری اور بے اختیاری کے بارے میں جو افواہیں اڑائی جاتی رہی ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے، الیکشن کمیشن نہ صرف یہ کہ ہر طرح سے بااختیار ہے بلکہ وہ اپنے اختیارات کو استعمال کرنے میں بھی کسی بھی قسم کی مداخلت برداشت کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہے، اگر الیکشن کمیشن اپنے اسی طریقے کار پر قائم رہے تو ہونے والے ملک میں انتخابات اپنی شفافیت کے اعتبار سے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرونی دنیا میں بھی ہر لحاظ سے معتبر قرار پائیںگے، اس طرح یہ انتخابات فی الواقع ایک نئے جمہوری دور کا نقطہ آغاز ثابت ہوسکتے ہیں۔

اب عوام کی ساری امیدیں الیکشن کمیشن سے وابستہ ہیں کہ اس انتخابات میں الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کروائے گا اور بد عنوانوں کو انتخابی عمل سے دور رکھے گا، عوام کی غمگین نظریں اب فخر الدین جی ابراہیم پر ہیں کہ وہی ہے جو صاف شفاف الیکشن کرواکے ملک میں انقلاب لاسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی ہی ذمے داری ہے کہ انتخابات میںایسے لوگوں کوسامنے لائے جس پر ٹیکس چوری، قرض نادہندگی یا کرپشن کا الزام نہ ہو، کیونکہ یہ بات طے ہوگئی ہے کہ اس مرتبہ آرٹیکل 62، 63 کے تحت کئی نامی گرامی چہرے بھی نا اہلیت سے نہیں بچ سکتے، بعض زد میں آگئے ہیں، اس لیے ہی الیکشن کمیشن کے دلیرانہ فیصلے نے سیاستدانوں کے لیے چیلنجز پیدا کردیے ہیں، تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں امیدواروں کے چنائو میں بہت احتیاط کرنی ہوگی اور مستقبل کی صاف ستھری قیادت کے لیے اہم فیصلے کرنا ہوںگے۔

طاہر القادری نے آرٹیکل 62، 63 کا جو راستہ کھول دیا ہے شاید ہی اب وہ بند ہوسکے گا۔ اس انتخابات میں سیاستدانوں کو روایتی طریقے سے کھلی چھٹی نہیں ہوگی، انھیں الیکشن کمیشن کے طے کردہ رولز کے مطابق انتخابات لڑنا پڑے گا، آج کا الیکشن کمیشن ماضی کا الیکشن کمیشن نہیں جس کے سربراہ کو حکومت کا ایک جوائنٹ سیکریٹری کنٹرول کرتا تھا اور لکھے لکھائے فیصلے پڑھ دیے جاتے تھے۔ الیکشن کمیشن کے ایک فیصلے نے غیر یقینی صورتحال ختم کردی ہے اور ثابت ہوگیاہے کہ وہی ہوگا جو الیکشن کمیشن چاہے گا۔

الیکشن کمیشن صاف شفاف طریقے سے انتخابات کروانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے، ہر شخص کی ڈگری چیک کی جا رہی ہے جو انتخابات میں امیدوار ہیں، 2008 کے الیکشن میں تقریباً 14000 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ بی اے کی ڈگریاں جمع کرائی تھیں کہاجاتاہے کہ ان میں سے 2000 زائد امیدواروں کی ڈگریاں جعلی تھیں، الیکشن کمیشن نے صرف الیکشن جیتنے والوں کی ڈگریاں چیک کی تھیں جب کہ ہارنے والوں کی ڈگریوں کی تصدیق ہی نہیں کی گئی اور ان میں سے اکثر امیدوار اب بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

ذرایع کا کہناہے کہ ایچ ای سی نے الیکشن کمیشن کو کہاہے کہ امیدواروں کی اسناد اور ڈگریاں ایک دن کے نوٹس پر چیک کرکے واپس بھجوائی جاسکتی ہیں، سپریم کورٹ نے بھی جعلی ڈگری کیسز میں 14 اپریل تک تمام پارلیمنٹرین کے کیسز کو نمٹانے کی ہدایت کی تھی تاہم ابھی تک ایسے افراد کے بارے میں کوئی واضح لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔ پہلی بار کسی فرد کو جعلی ڈگری پر سزا سنائی گئی ہے، عدالت نے سابق رکن خیبر پختونخوا اسمبلی سردار خان کو جعلی ڈگری کیس میں 3 سال قید اور 5 ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی ہے۔

یہ بہت ہی زبردست اقدام ہے، اس سے اب جعلی ڈگری رکھنے والے افراد اپنی جعلی ڈگری استعمال کرنے میں بہت محتاط رویہ اختیار کریں گے۔ اس بار کا الیکشن کمیشن کافی مثبت اور طاقت ور ہے، اور پاکستان میں انقلاب اور تبدیلی لاسکتاہے، اب مظلوم عوام کی امیدیںالیکشن کمیشن پر ہیں، عوام کا واحد سہارا اب الیکشن کمیشن ہی ہے جو اس وقت پاکستان کے سنگین حالات میں جہاں ہر طرف مایوسی اور نا امیدی کا اندھیرا پھیلا ہوا ہے وہاں اب آج کا الیکشن کمیشن پاکستان میں روشنی کی کرن معلوم ہورہا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔