’’ایک شاہانہ باغی‘‘

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 16 مارچ 2018
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

بقول حبیب جالبؔ کے ’’رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا‘‘ہمارا بھی آج کل یہی کام رہ گیا ہے، یہاں ہر دوسرا تیسرا شخص اُٹھتا ہے اور بغاوت کا علم بلند کر دیتا ہے۔ہم اس پر لکھنے بیٹھ جاتے ہیں، جسے بغاوت کے معنی کا علم نہیں وہ اعلان کرتا ہے کہ میں اس سسٹم کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتا ہوں، موجودہ 2 تین سال میں اتنی ’’بغاوتیں ہو چکی ہیں کہ یہاں بیان کرنا مشکل ہو گا؟

اور پھر یہ حالیہ بغاوت کیسی شاہانہ بغاوت ہے کہ نواز شریف زبردست پروٹوکول کے ساتھ جلسے جلوسوں میں شرکت کے لیے جا رہے ہیں، نہ کہیں دھوپ، بارش نہ کہیں جنگل، نہ بھوک کا مسئلہ، نہ پیدل مارچ، بیماری کے مسئلے مسائل، نہ فکر معاش۔ انھیں کیا علم بغاوت کیا ہوتی ہے؟

سرزمینِ پنجاب اور خطہ کشمیر نے کئی باغی پیدا کیے۔ایک باغی رائے عبداللہ خان بھٹی تھا، جس نے 20 سال تک اکبر بادشاہ کو مسلسل للکارا، پنجاب پر شمالی لشکریوں کی یلغار کے راستے روکے، تلواروں سے سینہ چھلنی کرایا۔ لیکن سمجھوتہ یا ’’ڈیل‘‘ نہیں کی۔ یہ آج کے کیسے باغی ہیں جو پس پردہ ڈیل بھی کرلیتے ہیں۔

نواز شریف ڈیل کے ذریعے ہی سعودیہ گئے تھے لیکن ساتھیوں کو علم بھی نہیں تھا کہ ’’ڈیل‘‘ ہو چکی ہے۔اب سینیٹ کے الیکشن میں آصف زرداری اور عمران خان نے کسی کے ایما پر پس پردہ ہاتھ بھی ملا لیا اور خود کو جمہوریت پسند بھی کہلوا رہے ہیں، یہ کیا تماشا ہے۔ پنجاب کا دوسرا باغی بھگت سنگھ ہے، جس نے بغاوت سے شادی کی اور 26 سالہ جوانی نچھاورکر دی۔

اک اور بڑا باغی راجپوت رائے احمد خان کھرل تھا۔ پھانسی ان سب کا مقدر کر دی گئی۔ باغی تو ماؤزے تنگ تھا جس کے ساتھ نوے ہزار لوگ روانہ ہوئے اور منزل تک پہنچے صرف تیس ہزار، باقی سب لوگ کٹھن راستوں کی نذر ہو گئے۔ چھ ہزار میل کاسفر طے کیا۔ مصر کا جمال عبدالناصر باغی تھا جس نے استعمار اور امریکا کی نیندیں اُڑا دی تھیں، وہ آخری دم تک لڑتا رہا، پھر ویت نام کے ہو چی منہ، وینزویلا کے ہوگو شاویز، پھر روس کے لینن کے باغی پن سے کون واقف نہیں جس کا پروگرام زار شاہی کے خلاف عوامی مسلح بغاوت تھا جس نے ایک عبوری حکومت تشکیل دے کر مزدوروں اور کسانوں کی انقلابی جمہوری آمریت کو منظم کیا تاکہ ملک کو غلامی اور زارازم سے نجات مل سکے۔

پھر ترکی کے مصطفی کمال اتاترک کی بغاوت سے کون واقف نہیں جن کی جدو جہد ہمارے انٹرمیڈیٹ کے نصاب میں بھی موجود ہے۔ پھر بھٹو جس نے ڈیل نہیں کی اور پھانسی کے پھندے کو گلے لگا لیا۔ لیکن ان کے برعکس ہمارے باغیوں کو ذرا سی شرم یا رتّی برابر حیابھی نہیں آتی۔ میرے خیال میں باغی تو عوام ہیں جنھیں خوراک دو نمبر ملتی ہے، انتظامیہ دو نمبر ملتی ہیں، سیاستدان دو نمبر ملتے ہیں، دوائیاں بھی دو نمبر ملتی ہیں اور پھر مزے کی بات دیکھیں کہ باغی بھی دونمبر مل رہے ہیں۔

اور تو اور بغاوت کا اعلان کس سے کیا جا رہا ہے؟ اسٹیبلشمنٹ سے؟ حالانکہ نواز شریف ہوں یا عمران خان یا پھر زرداری، سب ڈیل کے محتاج ہیں۔ میرے خیال میں بغاوت حکومت میں رہ کر نہیں کی جا سکتی۔ حکومت سے باہر نکل ہوتی ہے۔ اس وقت مسلم لیگ ن مرکز اور پنجاب میں حکومت میں ہے، پیپلز پارٹی سندھ پر حکمرانی کر رہی ہے، جب کہ اب تو وہ بلوچستان کو اپنا کہہ رہی ہے، تحریک انصاف خیبر پی کے پر حاکم ہے، آپ ہی سوچیں، یہ کیسے انقلاب لائیں گے۔

جب یہ سب لوگ حکومت سے باہر جائیں گے تو ان کا انقلاب اور بغاوت ماضی کا قصہ بن جائے گا۔اور کیا نواز شریف بھول گئے ہیں کہ وہ جنرل ضیا کے دعا کی تاثیر سے حکومتی ایوانوں تک پہنچے۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد جمہوریت پسند قوتیں ایم آر ڈی کی شکل  میں اکٹھی ہو رہی تھیں تو میاں نواز شریف اس وقت 1980ء میں جنرل جیلانی کے قائم کردہ بورڈ کے ممبر بن گئے۔

پھر 1983ء میں صوبائی وزیر خزانہ کا عہدہ حاصل کیا۔ 1985ء میں جنرل ضیاء الحق کی حمایت سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ حاصل کی۔ 29 مئی 1988ء کو جب جنرل ضیاء نے اپنی بنائی ہوئی اسمبلی کو توڑ دیا اور وزیر اعظم جونیجو کو برطرف کر دیا گیا تو میاں صاحب اپنی پارٹی کے صدر جونیجو کی حمایت کرنے کے بجائے صدر ضیاء کے اقدامات کی حمایت کر کے نگران وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اور پھر جنرل مشرف کے لطفِ خاص سے اٹک قلعے سے وکٹری بنا کر نکلے اور جدہ کے سرور پیلس تک کا باعزت سفر طے کیا۔

اب دوسری طرف آئیے، نئے پاکستان والے عمران خان جنرل مشرف کے حامی رہے، جن لیڈروں پر تبریٰ بھیجتے رہے، انھی کے ساتھ گھی شکر ہوگئے، تازہ مثال زرداری کی۔ زرداری صاحب اب غیر مرئی قوتوں کے ساتھ ہیں۔

یہی ہمارے لیڈر ہیں۔ آج نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ اس ملک میں پچھلے 70 سال میں بڑے ظلم ہوئے،پاکستان کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہ ملک اس وقت تک آگے نہیں جاسکتا جب تک 70 سال کے مظالم کا حساب نہ لے لیا جائے، میں ان مظالم کے خلاف بغاوت کرتا ہوں۔ ہم کسی کو ووٹ کی عزت پر ڈاکہ نہیں ڈالنے دیں گے۔ حق نہ ملے تو حق چھیننا پڑے گا۔قارئین حیرت ہے ۔ اب جو کچھ نواز شریف کہہ رہے ہیں، ہمارے عمران خان اور زرداری یا بلاول صاحب بھی وہی بات کررہے ہیں لیکن ان کا طریقہ واردات مختلف ہے۔

اب سمجھ نہیں آرہی کہ ہم یعنی عوام کدھر جائیں۔ نواز شریف کی بغاوت کا ساتھ دیں یا نئے پاکستان کے لیے عمران خان کو چن لیں یا پھر سب پر بھاری آصف زرداری کی جمہوریت کو چن لیں۔ غور کریں تو فرق کسی میں نہیں ہے ، ہر کوئی اپنے آپ کو سسٹم کا باغی کہہ رہا ہے۔ اگر یہی شاہانہ بغاوتیں جارہی رہیں تو یقینا اس ملک کی ’’تقدیر‘‘ ضرور بدلے گی، اللہ ہم سب پر رحم فرمائے (آمین)آخر میں حبیب جالبؔ کے ہی شعر ملاحظہ فرمائیں

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے

چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے

وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے

ایسے دستور کو، صبح بے نور کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔