شفاف انتخابات بریک تھرو کا امکان

انتخابات میں کون برستی گولیوں اور بم دھماکوں میں اپنا آزادانہ حق رائے دہی استعمال کرنے کے قابل ہوگا۔

انتخابات میں کون برستی گولیوں اور بم دھماکوں میں اپنا آزادانہ حق رائے دہی استعمال کرنے کے قابل ہوگا۔ فوٹو: فائل

آیندہ ملکی انتخابات کے شفاف انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے دو اہم اداروں کے سربراہوں کی جانب سے آنے والے بیانات نہ صرف فکر انگیز اور بروقت انتباہ کا درجہ رکھتے ہیں بلکہ ان میں مضمر تشویش اور دوسری طرف امید و معاونت کے پہلو بہت خوش آیند بھی ہیں جن کے پیش نظر سیاسی صورتحال کی بہتری کی سمت نگراں حکومت مزید امید افزا اقدامات کرتے ہوئے شفاف انتخابات کا کریڈٹ لے کر خود کو سرخرو کر سکتی ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ اگر انتظامیہ پولنگ کے روز امن و امان کی صورتحال بہتر نہ بنا سکی تو آزاد اور شفاف انتخابات کے لیے عدلیہ سمیت تمام اداروں کی کوششیں ناکام ہو جائیں گی، جب کہ صاف، شفاف اور آزادانہ انتخابات کے لیے خود عدلیہ کی ساکھ اور غیر جانبداری دائو پر لگی ہوئی ہے، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے لیے عدالتی افسران کسی سیاسی دبائو کو قبول نہ کریں اور نہ ہی کسی سیاسی قوت کی حمایت کرینگے، یہ انتخابات ملک کے مستقبل کا تعین کریں گے موجودہ انتخابات کے نتیجے میں ملک خوشحالی، بہتر طرز حکمرانی اور امن کی جانب سفر کریگا جب کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کوئٹہ میں کہا ہے کہ صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو ہر ممکن تعاون فراہم کریں گے، تمام سیاسی جماعتیں الیکشن میں بھرپور حصہ لیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بلوچستان کا دورہ کیا جہاں انھوں نے گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی اور نگراں وزیر اعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی سے ملاقاتیں کی، جن میں امن و امان کی صورتحال اور آیندہ عام انتخابات کے پر امن انعقاد کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا گیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور آرمی چیف جنرل کیانی نے در حقیقت بلوچستان کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکی انتخابات کے انعقاد کے قومی مشن میں بلوچستان کی مخدوش صورتحال کو مد نظر رکھنا اور اس میں مختلف سیاسی گرپوں اور مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے اکابرین، عمائدین اور قبائلی سربراہوں سے ملاقات ا ور مکالمہ انتہائی ضروری ہے۔

بلوچستان میں امن قائم نہ ہوا تو اس کے مضمرات کافی نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں، اور اس کا عام انتخابات کے نتائج اور اس کی اعتباریت پر بھی سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔ جنرل کیانی کی یہ پیشکش تو سیاسی بریک تھرو کا باعث بن سکتی ہے بشرطیکہ ان کی اس یقین دہانی کی روح کے مطابق نگراں انتظامیہ ملک میں موجود اور بیرون ملک مقیم ناراض بلوچ رہنمائوں کو مذاکرات کے لیے بلا تاخیر دعوت دے تو برف پگھل سکتی ہے اور بلوچستان سمیت پورے ملک میں پر امن اور شفاف انتخابات کی منزل تک پہنچنا یوں آسان ہو جائے گا کہ جنرل کیانی نے صوبائی قیادت کو یقین دلایا کہ فوج دل سے انتخابات کے موقع پر تمام جماعتوں کی انتخابات میں شرکت کا خیر مقدم کریگی۔


ادھر چیف جسٹس نے ریٹرننگ افسران پر زور دیا کہ عوام کو دیانتدار قیادت فراہم کرنے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کریں، آیندہ انتخابات ملک و قوم کی تقدیر بدلنے میں اہمیت کے حامل ہیں اور اگر یہ منصفانہ اور شفاف ہوئے تو یہ قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے مطابق بلوچستان میں انتخابات میں کسی کا بائیکاٹ نہ کرنا مثبت اشارہ ہے، یہ عوام کی طرف سے انتخابی عمل پر اعتماد کا اظہار ہے، توقع ہے انتخابی عمل پر امن طریقے سے مکمل ہو گا۔ یہ حقیقت ہے کہ تمام تر اندیشوں اور ممکنہ خطرات کے باوجود واحد آپشن یہی ہے کہ بلوچستان، کراچی سمیت پورے ملک میں امن و امان کی صورتحال کی بہتری کو اولین ترجیح ملنی چاہیے کیونکہ امن ہو گا، شورش اور قتل و غارت کی لہر تھمے گی تب ووٹر کو گھر سے نکل کر پولنگ اسٹیشن تک جانے کی ہمت ہو گی۔

کون برستی گولیوں اور بم دھماکوں میں اپنا آزادانہ حق رائے دہی استعمال کرنے کے قابل ہوگا۔ سب کو اپنی پڑی ہوگی۔ اس لیے دونوں سربراہان کے خیالات کی روشنی میں پر امن انتخابات کے انعقاد اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے اجتماعی کوششوں اور آہنی ہاتھوں کے استعمال کو یقینی بنانے کے لیے وقت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا بہتر استعمال کیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آیندہ الیکشن کے شفاف اور پر امن انتخابات کا واحد آپشن امن کے قیام کے لیے پر عزم حکمت عملی، انتہا پسندوں کو قابو کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی موثر تعیناتی، کرمنلز کے خلاف کریک ڈائون جب کہ ہر سطح کے سیاسی رہنمائوں، سول سوسائٹی اور دانشوروں سے سیاسی مکالمہ اور رابطہ کو بنیادی اہمیت دی جائے۔

ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے امن و امان سے متعلق اقدامات کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی۔ بلوچستان حکومت کے وکیل شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ آیندہ عام انتخابات میں بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں، بگٹی خاندان نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے، وہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، گزشتہ انتخابات میں تین چار سیاسی جماعتوں نے حصہ نہیں لیا تھا، اب کوئی بائیکاٹ نہیں کر رہا، تاہم اس ضمن میں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے وطن آنے والے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کی اس پکار پر بھی توجہ دی جائے کہ لاشیں گرنا بند نہ ہوئیں تو وہ الیکشن کا بائیکاٹ کا آپشن استعمال کر سکتے ہیں۔

ادھر ایک برطانوی جریدے نیوز ویک کی نیوز سائٹ ڈیلی بیسٹ Beast نے کہا ہے کہ پاکستان میں تاریخ کے خطرناک ترین انتخابات ہو نے جا رہے ہیں، خطے کا مستقبل توازن میں لٹکا ہوا ہے، ڈیلی بیسٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر یہ انتخابات منظم طریقے سے وقوع پذیر ہوئے تو پاکستانی تاریخ میں پہلی بار ایک مکمل سویلین حکومت کی منتقلی ہو گی۔ 18 کروڑ نفوس کی بحالی یا تباہی ان انتخابی نتائج پر منحصر ہو گی جو انتہائی متنازع اور خطرناک دوڑ کی صورت میں سامنے آ ئیں گے۔ ووٹرز کو خوش کرنے کے لیے سماجی بہبود اور ترقیاتی منصوبوں کی کمی سے بد اعتمادی میں اضافہ ہوا ہے۔ طالبان کے خوف اور سیاسی رہنمائوں کو قتل کی دھمکی سے انتخابات میں خلل پڑنے کا خدشہ ہے۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ انتخابات کے لیے امن کے قیام کو ناگزیر تسلیم کیا جائے۔
Load Next Story