وقت کا ادراک

اس قسم کے لوگ گناہوں کے معاون اور ظالموں کے ساتھی ہوتے ہیں۔

anisbaqar@hotmail.com

توہینِ عدالت کے قانون پر چیف جسٹس کا فیصلہ غیر متوقع نہ تھا۔ اس کی اصل وجہ یہ بنیادی انسانی حقوق کے منافی تھا کہ عام شہری کے مقابلے میں ایک خاص گروہ کو شترِ بے مہار کی طرح چھوڑ دیاجائے اور اس پر نہ کسی قانون کا اطلاق ہو اور نہ ہی اس کے عمل پر کوئی بازپرس ہو، بلکہ عام شہری کے مقابلے میں حکمراں طبقے پر تو زیادہ کڑے قوانین کی ضرورت ہے کیونکہ وہ عوام کے ووٹوں کا امانت دار ہوتا ہے، جن وعدوں پر وہ انتخاب جیت کر آیا ہے۔

کیا اس میں کوئی وعدہ بھی وفا ہوا یا نہ ہوا، جو عہد و پیمان عوام سے کیے گئے ان پر کس حد تک عمل ہوا، عوام کا معیارِ زندگی اور عوام کی جان و مال، عزت و ناموس اُس دور میں کتنی محفوظ رہی، محض جمہوریت کا نام لے کر عالمی پیمانے پر عوام کو بلیک میل نہیں کیا جاسکتا، جوں ہی چیف جسٹس کا فیصلہ آیا، حکومتی ردّعمل سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ اب کوئی طبلِ جنگ بجنے کو ہے مگر جلد ہی انھوں نے کروٹ لی اور ہوش کی باتیں شروع کردیں کیونکہ اگر محاذ آرائی عدلیہ کے ساتھ جاری رکھی جائے گی تو عدلیہ کوئی سیاسی پارٹی نہیں جو عوام سے ووٹ لے کر آئی ہے۔

وہ تو میرٹ کی بنیاد پر ایک ادارہ ہے جو پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون پر عمل درآمد کرتی ہے اور اگر آج عدلیہ مضبوط ہے تو یقیناً کوئی جمہوریت پر شبِ خون مارنے کی جرأت نہیں کرسکتا، بلکہ موجودہ جمہوری نظام کے دعوے داروں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر عدلیہ کمزور ہوتی اور چیف جسٹس افتخار چوہدری اصول پسندی پر قائم نہیں ہوتے تو کئی بار اس حکومت پر ایسے دن آئے جب فوجی مداخلت کے امکانات پیدا ہوئے۔ یہ عدلیہ اور اُس کے ماتحت ڈیڑھ لاکھ وکلا کی فوج تھی جو قانون کا تحفظ کرنے کے لیے تیار تھے، نہ ان کو عہدوں کی ضرورت، نہ پلاٹوں اور نہ کسی لالچ سے خریدا جاسکتا تھا۔ یہ قانون کے محافظ ہی تھے۔

ورنہ اُسامہ بن لادن کے واقعات اور میموگیٹ والے اسکینڈل ہی جمہوریت کی بساط اُلٹنے کے لیے کافی تھے۔ مضبوط عدلیہ ہی مضبوط جمہوریت کی اصل بنیاد ہے۔ اب کسی طالع آزما کو یہ جرأت نہ ہوگی کہ وہ اپنا خود ساختہ آئین نافذ کرکے اور میڈیا پر آکر قومی ترانہ بجانے کے بعد یہ اعلان کرے کہ آئین معطل ہوچکا ہے یا ایمرجنسی نافذ ہوچکی ہے، کیونکہ پرویز مشرف نے یہ عمل کرکے دیکھ لیا اور موجودہ حکومت اس قوت کی مالک نہیں کہ وہ پنجہ آزمائی کرسکے۔ پورے ملک میں توانائی کے بحران کی وجہ سے ڈنڈا بردار جلوس ازخود نکل رہے ہیں۔ بس اگر کوئی واضح سبب اور موقع ملا تو پھر یہ ڈنڈا بردار جلوس سیاسی رہنماؤں کا گھیرائو کرنے کے لیے نکل پڑے گا، بس اشارہ چاہیے۔

آج کل کے نوجوانوں نے وہ دن نہیں دیکھے جب متحدہ پاکستان تھا، یعنی بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان) ہمارا حصّہ تھا۔ اُس وقت ایک رہنما مولانا بھاشانی ہوتے تھے جو جلائو اور گھیرائو کے ماہر تھے اور مغربی پاکستان میں ان کی نائب محترمہ کنیز فاطمہ مزدور لیڈر تھیں، انھوں نے کوشش کی تھی کہ انتخاب کے عمل سے اجتناب کیا جائے کیونکہ انتخاب میں ایک مخصوص طبقہ ہر بار حکمران بنتا ہے، لہٰذا بڑی بڑی فیکٹریوں اور اداروں کے جلائو گھیرائو کیے جاتے تھے۔ حالات ایسے بدلے کہ انتخاب و انقلاب انقلاب کا نعرہ لگانے والے عبدالحمید خان بھاشانی پر بنگالی نیشنلزم حاوی ہوگیا اور انھوں نے مغربی پاکستان کو خیرباد کہہ کر شیخ مجیب کو انتہا پسندی کی لائن پر ڈال دیا اور سونار بنگال کا نعرہ لگایا۔

حالات اس قدر کشیدہ تھے مغربی پاکستان کے حاکموں کے خلاف بداعتمادی تھی، لہٰذا شیخ مجیب اس سیلاب کو آگے لے گئے اور بنگلہ بندو بن گئے۔ آج ملک کی معاشی صورت حال 1970 کے مقابلے میں بدرجہا خراب ہے۔ 7-8 روپے والا ڈالر تقریباً 90 روپے کا ہے۔ مہنگائی اور بدترین قسم کی بے چینی نے ملک کو گھیر رکھا ہے تو پھر اگر کسی طالع آزما نے انتخاب کے مقابلے میں انقلاب کا نعرہ لگایا تو پھر کس قسم کا دور دورہ ہوگا، نہ تو انتخاب ہوگا اور نہ ہی انقلاب۔کیونکہ پورے ملک میں کوئی ایسی جماعت نہیں جس کا انقلابی جال موجود ہو، بلکہ نسل پرستی، فرقہ پرستی، عروج پر ہے۔ اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ دنیا کے کسی خطے میں کوئی دہشت گردی ہوتی ہے تو پاکستان کا نام لیا جاتا ہے۔


مثل مشہور ہے بد اچھا بدنام بُرا۔ یعنی پاکستان کا نام اچھائیوں سے دُور ہوتا جارہا ہے، انسان انسان سے محبت کے لیے ایک دوسرے کے دُکھ درد بانٹنے کے لیے دُنیا میں آیا ہے، نہ کہ دُکھ درد میں مبتلا کرنے کے لیے۔ لہٰذا حکومت کے لیے اور خاص طور سے پیپلز پارٹی کے لیے ضروری ہے کہ یہ وقت حکومت بچانے کے بجائے پارٹی بچانے کا ہے۔ اس پارٹی کی ایک طویل کہانی ہے، جس میں ان لوگوں کا بھی لہو شامل ہے جو کبھی عوامی راج کا خواب دیکھتے تھے۔ چیف جسٹس کے خلاف لائن لینے والے اپنی سیاسی زندگی کے خلاف فیصلہ کریں گے۔ پارٹی آقائوں کو خوش کرنے کے لیے وہ چیف جسٹس کو مناظرہ کی دعوت دے رہے ہیں۔

کیا عدالت کوئی مذہبی پارٹی ہے جس پر عقاید اور نظریات کی چھاپ ہے کہ تاریخی حوالے سے یا فقہی حوالے سے مناظرہ ہوگا۔ یہ تو شقوں اور اصولوں کی ایک دستاویز ہے، جس میں اغلاط کی گنجایش نہیں اور نہ تشریحات میں کوئی ہیر پھیر ممکن ہے تو پھر مناظرہ کا چیلنج دینا خود مناظرہ کی ابجد کے خلاف ایک قدم ہے بلکہ اگر کوئی سیاسی طالب علم ہے تو نوشتۂ دیوار پڑھ لے اور پارٹی کو منظم کرے۔ عوام کے روبروکوتاہیوں کو قبول کرتے ہوئے نئے منصوبے عوام کے سامنے پیش کرے۔ محض شطرنج کی چال سے ہی بازی نہیں جیتی جاسکتی۔

اگر کسی شخص کی پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ہے تو اُس کو معلوم ہوگا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا رُخ بڑے شہر متعین کرتے ہیں اور تمام بڑے شہروں میں نسبتاً شعور دیہی علاقوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور دوم یہاں کے لوگ نہ وڈیرے کے تابع ہیں، نہ کسی کے مُرید ہیں۔ وہ آزاد اور اپنے عمل میں مختار ہیں۔ کچھ اور دن حکومت چلالینے میں دانائی نہیں بلکہ مستقبل پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر پھر بھی کوئی دُوربینی کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو ایسی صورت میں ایجی ٹیشن کو دعوت دینا ہوگا اور موجودہ اُٹھا پٹخ انارکی کی شکل اختیار کرے گی۔

یہ کام عدالت کا نہیں کہ فیصلے کے سیاسی مضمرات کیا ہوں گے۔ یہ کام تو سیاست دانوں کا ہے کہ زمینی حقائق کا جائزہ لیں اور اپنا تجزیہ خود کریں۔ بقول مائوزے تنگ self criticism خود اپنے آپ پر تنقید اور تجزیہ (Analysis) کہ ہمارے رویہ اور کارکردگی میں کیا کمی رہ گئی اور ہمارے وعدے کس قدر وفا ہوئے وغیرہ۔ اگر تاریخ کے اوراق پیچھے پلٹیں تو ملت مسلمہ کے عظیم دانشور حضرت علی ابنِ ابی طالب کا جو طویل دستور تحریری شکل میں مالک ابنِ حارث اشترؒ والیٔ مصر کو بھیجا، اس کا مختصر اقتباس پیش کررہا ہوں۔

''اپنے مشوروں میں کسی بخیل کو شریک نہ کرنا کیونکہ وہ بندگانِ خدا کے ساتھ بھلائی کرنے سے روکے گا اور افلاس کا خطرہ دِکھائے گا اور نہ کسی بزدل سے مہمات میں مشورہ لینا، ورنہ وہ تمہاری ہمت پست کرے گا اور نہ کسی لالچی سے مشورہ کرنا، ورنہ وہ ظلم کے راستے سے مال بٹورنے کو تمہاری نظروں میں سجادے گا۔ یاد رکھو کہ بخیلی، بزدلی اور حرص اگرچہ الگ الگ خصلتیں ہیں مگر اﷲ سے بدگمانی ان سب میں مشترک ہے۔ تمہارے لیے سب سے بدتر وزیر وہ ہوگا جو تم سے پہلے بدکاروں کا وزیر رہ چکا ہوگا اور گناہوں میں ان کا شریک رہ چکا ہے۔

اس قسم کے لوگ گناہوں کے معاون اور ظالموں کے ساتھی ہوتے ہیں۔ ان کی جگہ ایسے لوگوں کو تلاش کرنا جو تدبیر و رائے اور کارکردگی کے اعتبار سے ان کے مثل ہوں مگر جنھوں نے نہ گناہوں میں شرکت کی ہو اور نہ ظالموں کا ہاتھ بٹایا ہو۔ ان لوگوں کو اپنا معاون بنانا جو حق کی کڑوی باتیں تم سے کہنے والے ہوں۔ پرہیزگاروں اور راست بازوں کو اپنا بازو بنانا، خوشامدیوں کو دُور رکھنا کیونکہ مدح سرائی غرور پیدا کرتی ہے اور سرکشی کی طرف لے جاتی ہے۔ نیکوکاروں اور بدکاروں کو یکساں نہ سمجھنا۔ رعایا پر اِتنا بوجھ نہ ڈالو کہ وہ برداشت نہ کرسکیں۔ لہٰذا تنقید برائے تدبیر اور اصلاح خود حکمران کے حق میں ہے اور یہی طریقہ امن و آشتی کی سمت جاتا ہے۔''
Load Next Story