منزل کہاں ہے تیری
آزادی کے حصول کے بعد ہم جس منزل کی طرف گرم سفر ہوئے تھے کیا وہ منزل ہم نے پالی؟
آزادی کے حصول کے بعد ہم جس منزل کی طرف گرم سفر ہوئے تھے کیا وہ منزل ہم نے پالی؟۔ فوٹو: فائل
قوم نے ماشاء اللہ قومی جوش و جذبہ، ملی حمیت اور شایان شان طریقہ سے 78 واں یوم پاکستان منایا۔ ملک بھر میں عام تعطیل ہوئی، مسلح افواج کی شاندار مشترکہ پریڈ، وفاقی دارالحکومت میں 31، صوبائی دارالحکومتوں میں21، 21 توپوں کی سلامی جب کہ دن کا آغاز نماز فجر کے بعد ملک وقوم کی سلامتی، خوشحالی کی دعاؤں سے ہوا۔
صدر مملکت ممنون حسین نے یوم پاکستان پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملکی تاریخ میں 23 مارچ جیسا کوئی دن نہیں، 23 مارچ 1940 کو ہمارے بزرگوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ کیا، ہماری امن دوستی کو کمزوری سمجھنا خطرناک ثابت ہوگا، ہمارا ہمسایہ اپنی فوجی قوت میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کشمیریوں کے جائز حق کے لیے کردار ادا کرتا رہے گا، افغانستان میں امن کے لیے پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے، یہ شاندار پریڈ ہمارے خوابوں کی تعبیر ہے۔
تاریخی حوالوں سے دیکھا جائے تو برصغیر میں قرارداد پاکستان 23 مارچ 1940 کی جن اعصاب شکن اور صبر آزما حالات میں اسلامیان ہند نے منظوری دی اس کے تقاضے معروضی تاریخی جدلیات سے جڑے ہوئے تھے، بانی قوم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلمانوں نے ایک ایسی فقیدالمثال سیاسی تحریک شروع کی، جس کا مقصد مسلمانان ہند کے لیے ایک الگ وطن کا قیام تھا اور لاکھوں انسانوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں علیحدہ مسلم قومیت کے تشخص کے ساتھ 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آیا، جو آج 22 کروڑ پاکستانیوں کے خوابوں، آرزوؤں اور قومی امنگوں کا مظہر ہے۔
قائداعظم نے منٹو پارک میں اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''ہندوستان کا مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے اور اس کو اسی لحاظ سے حل کرنا چاہیے، جب تک اس کی اساسی اور بنیادی حقیقت کو پیش نظر نہیں رکھا جائے گا جو دستور بھی بنایا جائے گا وہ نہیں چل سکے گا، اور نہ صرف مسلمانوں بلکہ انگریزوں اور ہندوؤں کے لیے بھی تباہ کن اور مضر ثابت ہوگا۔''
اس فصیح و بلیغ پیغام کی آفاقیت کا ادراک کثیر جہتی سطح پر ہونا چاہیے تھا، مگر قیام پاکستان کے نظریہ کے دشمنوں نے برصغیر میں قتل وغارت کی انتہا کردی اور مسلم دشمن فسادات کی جو روح فرسا داستان بربریت کے علمبرداروں نے رقم کی، اس کی تاریخ کوئی نظیر پیش نہیں کرسکتی۔
مگر سوال یہ ہے کہ آزادی کے حصول کے بعد ہم جس منزل کی طرف گرم سفر ہوئے تھے کیا وہ منزل ہم نے پالی؟ کیا بانی پاکستان نے جس پاکستان کی صورت گری کا تصور اپنے ذہن کشادہ میں سجایا تھا، اس خواب کو ہمارے ارباب اختیار نے شرمندۂ تعبیر کیا؟ قرارداد پاکستان درحقیقت علامہ اقبال کے تصور پاکستان اوراس شعری تلقین کا مظہر تھی کہ ؎
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح وشام پیدا کر
اس ایک شعر میں مفکر پاکستان نے نئے وطن کا پورا آئین قلمبند کیا تھا، اہل وطن کو پیغام ملا کہ وہ اپنے مقام کی شناخت کا پہلے سے تعین کرلیں، پھر نیا زمانہ اور نئے صبح و شام پیدا کرنے کی جستجو میں اس منزل تک پہنچیں، جس کی انتہا ایک پرامن، خوشحال، روادار، مطمئن، بندہ پرور اور سیاسی وسیع المشربی اور دینی اخوت و قومی یگانگت و بین الاقوامی خیرسگالی کا علمبردار اور نقیب بن کر سربلندی سے سرفراز ہو، لیکن آج اہل وطن سیاست دانوں اور ریاستی اداروں کے نگہبانوں سے بیتابانہ سوال کرتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
عالمی برادری میں ہمارے بارے میں کس قسم کے درد انگیز مخالفانہ چرچے ہورہے ہیں، یہ نوا سوز اور جگر پاش سیاسی انتشار کیسا ہے، مسلسل الزام تراشی اور بہتان طرازیوں سے فضا کیوں پراگندہ ہوچکی ہے، جمہوریت ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے کا معمہ کیوں بنی ہے، حقیقت کا کھوج لگاتے ہوئے اس بنیادی نکتہ پر نظریں مرکوز کیجیے کہ بانیٔ قوم اور علامہ اقبال سمیت تمام مشاہیر اور سرفروشان اسلام کے لیے پاکستان ''دیارعشق'' تھا۔
شیر بنگال مولوی اے کے فضل الحق نے قرارداد پیش کی، کیا ان کا جنون اور جذبہ آزادی تھا اور کیا اہل سیاست اور حکمرانوں نے 70 برس کے سیاسی ارتقا کے سفر میں گلشن ہی اجاڑ کے رکھ دیا۔ ایک آزاد وطن کے حصول کی تمنا قوم کے لیے تاریخ کا خوبصورت گلدستہ ہوا کرتی ہے، عوام اپنے قومی تہواروں پر ناز کرتے ہیں، ہم نے بھی اس بار 23 مارچ کی تقاریب منعقد کیں، دل سرشار تھے، روح میں ایک امنگ تھی کہ وطن ہر چیلنج سے سرخرو ہوکر نکلے گا، مگر جس قومی اتفاق رائے، کشادہ نظری اور سیاسی رواداری کی ضرورت ہے، کہیں نظر بھی آتی ہے، جدھر دیکھئے ادھر ایک سیاسی تماشا لگا ہوا ہے۔
میڈیا کس کس کا چہرہ بے نقاب کرے، کس جھوٹ کو سچ سے الگ کرکے قوم پر حقیقت واضح کرے کہ قرارداد پاکستان کا تقاضا ہے کہ قوم سیاسی سفر سے حاصل شدہ تجربات و حوادث کا گوشوارہ پارلیمنٹ سے تیارکروائے، قوم کو بتایا جائے کہ ملک خداداد کو آمریت کا دورانیہ زیادہ ملا یا جمہوریت کی نشوونما آزادی سے ہوئی؟
اس کا جواب ناگزیر ہے، ورنہ معروضی حقائق کا منظرنامہ سخت اذیت ناک ہے، ایک طرف فاٹا کے انضمام، نئی حلقہ بندیوں پر اتفاق، اداروں میں ہم آہنگی اور خیرسگالی کے فقدان کی شکایتیں ہیں، حکومت اور اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے سے دیوانہ وار سینگ اڑائے ہوئے ہیں، ہر سیاسی رہنما دوسرے کے میڈیا ٹرائل کی گھات میں لگا ہوا ہے، سیاست کیا ہورہی ہے کردار کشی کا ہولناک کھیل جاری ہے۔
بدھ کو اسلام آباد میں شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے پاکستان پیغام کنونشن میں خطاب کرتے ہوئے فکر انگیز بات کی، انھوں نے کہا کہ پاکستان کے دستور کے تقاضوں کے مطابق پاکستانی معاشرہ کی ایسی تشکیل جدید ضروری ہے جس کے ذریعہ معاشرے کی منافرت، تنگ نظری، عدم برداشت و رواداری، باہمی احترام، اور عدل وانصاف پر مبنی حقوق و فرائض کا نظام قائم ہوسکے۔
یہ روح کو تازگی بخشنے والی باتیں قوم زیرو پوائنٹ پر واپسی سفر کے موقع پر سن رہی ہیں، کیونکہ ان کے سامنے آج کے پیش نظر اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے پرشور بیانات ہیں، جن میں کوئی چیف جسٹس سپریم کورٹ سے 90 دن کے لیے جوڈیشل مارشل لاء استدعا کررہے ہیں، دوسری جانب ایک بڑی مذہبی شخصیت نے صحافیوں کے اعزاز میں دیئے گئے ظہرانے میں دہائی دیتے ہوئے کہا کہ سیاست دان نیا میثاق ترتیب دیں ورنہ مزید تذلیل ہوگی۔
میڈیا میں فیک نیوز اور الیکٹرانک میڈیا کے ضابطہ اخلاق پر زور دیا جارہا ہے، پانامہ فیصلہ کے بعد اس پر ارتعاش کا سلسلہ بھی موضوع بحث بنا ہوا ہے، بلوچستان میں نئے وزیراعلیٰ قدوس بزنجو اور صادق سنجرانی کے چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں کامیابی نے بلوچستان کو سیاسی بازیگری کی دلچسپ بحث کا مرکزی نکتہ بنادیا ہے۔
ادھر سپریم کورٹ، انسداد دہشت گردی عدالت اور نیب عدالتوں میں ہائی پروفائل مقدمات کی سماعتوں کا دی اینڈ قریب آنے کی نوید دی جارہی ہے۔ بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پورا سیاسی منظر 2018 کے الیکشن سے پہلے اتھل پتھل ہونے کے درپردہ خدشات ہیں جب کہ نگران حکومت کے لیے موزوں ناموں پر مشاورت جاری ہے، تھر میں بچوں کی ہلاکتیں روکنے کی سب تدبیریں تاحال ناکام ثابت ہوئی ہیں، کراچی کی تجارتی اور سماجی سرگرمیوں کا دائرہ پھیلا ہے۔
کل 25 مارچ کو پی ایس ایل کا فائنل کراچی میں کھیلا جائے گا، شہر کو دلہن کی طرح سجایا گیا ہے۔ شہر قائد میں تین دہائیوں تک سیاسی غلبہ رکھنے والی ایم کیو ایم میں تقسیم در تقسیم کے المیہ سے ان کے سرکردہ سیاسی رہنما نبرد آزما ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ارباب سیاست ایک لمحہ کو رک کر اپنی روحوں کو ٹٹولیں، سیاسی افق پر نظر دوڑائیں جہاں مایوسیوں کی دھند کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
صدر مملکت ممنون حسین نے یوم پاکستان پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملکی تاریخ میں 23 مارچ جیسا کوئی دن نہیں، 23 مارچ 1940 کو ہمارے بزرگوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ کیا، ہماری امن دوستی کو کمزوری سمجھنا خطرناک ثابت ہوگا، ہمارا ہمسایہ اپنی فوجی قوت میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کشمیریوں کے جائز حق کے لیے کردار ادا کرتا رہے گا، افغانستان میں امن کے لیے پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے، یہ شاندار پریڈ ہمارے خوابوں کی تعبیر ہے۔
تاریخی حوالوں سے دیکھا جائے تو برصغیر میں قرارداد پاکستان 23 مارچ 1940 کی جن اعصاب شکن اور صبر آزما حالات میں اسلامیان ہند نے منظوری دی اس کے تقاضے معروضی تاریخی جدلیات سے جڑے ہوئے تھے، بانی قوم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلمانوں نے ایک ایسی فقیدالمثال سیاسی تحریک شروع کی، جس کا مقصد مسلمانان ہند کے لیے ایک الگ وطن کا قیام تھا اور لاکھوں انسانوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں علیحدہ مسلم قومیت کے تشخص کے ساتھ 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آیا، جو آج 22 کروڑ پاکستانیوں کے خوابوں، آرزوؤں اور قومی امنگوں کا مظہر ہے۔
قائداعظم نے منٹو پارک میں اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''ہندوستان کا مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے اور اس کو اسی لحاظ سے حل کرنا چاہیے، جب تک اس کی اساسی اور بنیادی حقیقت کو پیش نظر نہیں رکھا جائے گا جو دستور بھی بنایا جائے گا وہ نہیں چل سکے گا، اور نہ صرف مسلمانوں بلکہ انگریزوں اور ہندوؤں کے لیے بھی تباہ کن اور مضر ثابت ہوگا۔''
اس فصیح و بلیغ پیغام کی آفاقیت کا ادراک کثیر جہتی سطح پر ہونا چاہیے تھا، مگر قیام پاکستان کے نظریہ کے دشمنوں نے برصغیر میں قتل وغارت کی انتہا کردی اور مسلم دشمن فسادات کی جو روح فرسا داستان بربریت کے علمبرداروں نے رقم کی، اس کی تاریخ کوئی نظیر پیش نہیں کرسکتی۔
مگر سوال یہ ہے کہ آزادی کے حصول کے بعد ہم جس منزل کی طرف گرم سفر ہوئے تھے کیا وہ منزل ہم نے پالی؟ کیا بانی پاکستان نے جس پاکستان کی صورت گری کا تصور اپنے ذہن کشادہ میں سجایا تھا، اس خواب کو ہمارے ارباب اختیار نے شرمندۂ تعبیر کیا؟ قرارداد پاکستان درحقیقت علامہ اقبال کے تصور پاکستان اوراس شعری تلقین کا مظہر تھی کہ ؎
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح وشام پیدا کر
اس ایک شعر میں مفکر پاکستان نے نئے وطن کا پورا آئین قلمبند کیا تھا، اہل وطن کو پیغام ملا کہ وہ اپنے مقام کی شناخت کا پہلے سے تعین کرلیں، پھر نیا زمانہ اور نئے صبح و شام پیدا کرنے کی جستجو میں اس منزل تک پہنچیں، جس کی انتہا ایک پرامن، خوشحال، روادار، مطمئن، بندہ پرور اور سیاسی وسیع المشربی اور دینی اخوت و قومی یگانگت و بین الاقوامی خیرسگالی کا علمبردار اور نقیب بن کر سربلندی سے سرفراز ہو، لیکن آج اہل وطن سیاست دانوں اور ریاستی اداروں کے نگہبانوں سے بیتابانہ سوال کرتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
عالمی برادری میں ہمارے بارے میں کس قسم کے درد انگیز مخالفانہ چرچے ہورہے ہیں، یہ نوا سوز اور جگر پاش سیاسی انتشار کیسا ہے، مسلسل الزام تراشی اور بہتان طرازیوں سے فضا کیوں پراگندہ ہوچکی ہے، جمہوریت ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے کا معمہ کیوں بنی ہے، حقیقت کا کھوج لگاتے ہوئے اس بنیادی نکتہ پر نظریں مرکوز کیجیے کہ بانیٔ قوم اور علامہ اقبال سمیت تمام مشاہیر اور سرفروشان اسلام کے لیے پاکستان ''دیارعشق'' تھا۔
شیر بنگال مولوی اے کے فضل الحق نے قرارداد پیش کی، کیا ان کا جنون اور جذبہ آزادی تھا اور کیا اہل سیاست اور حکمرانوں نے 70 برس کے سیاسی ارتقا کے سفر میں گلشن ہی اجاڑ کے رکھ دیا۔ ایک آزاد وطن کے حصول کی تمنا قوم کے لیے تاریخ کا خوبصورت گلدستہ ہوا کرتی ہے، عوام اپنے قومی تہواروں پر ناز کرتے ہیں، ہم نے بھی اس بار 23 مارچ کی تقاریب منعقد کیں، دل سرشار تھے، روح میں ایک امنگ تھی کہ وطن ہر چیلنج سے سرخرو ہوکر نکلے گا، مگر جس قومی اتفاق رائے، کشادہ نظری اور سیاسی رواداری کی ضرورت ہے، کہیں نظر بھی آتی ہے، جدھر دیکھئے ادھر ایک سیاسی تماشا لگا ہوا ہے۔
میڈیا کس کس کا چہرہ بے نقاب کرے، کس جھوٹ کو سچ سے الگ کرکے قوم پر حقیقت واضح کرے کہ قرارداد پاکستان کا تقاضا ہے کہ قوم سیاسی سفر سے حاصل شدہ تجربات و حوادث کا گوشوارہ پارلیمنٹ سے تیارکروائے، قوم کو بتایا جائے کہ ملک خداداد کو آمریت کا دورانیہ زیادہ ملا یا جمہوریت کی نشوونما آزادی سے ہوئی؟
اس کا جواب ناگزیر ہے، ورنہ معروضی حقائق کا منظرنامہ سخت اذیت ناک ہے، ایک طرف فاٹا کے انضمام، نئی حلقہ بندیوں پر اتفاق، اداروں میں ہم آہنگی اور خیرسگالی کے فقدان کی شکایتیں ہیں، حکومت اور اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے سے دیوانہ وار سینگ اڑائے ہوئے ہیں، ہر سیاسی رہنما دوسرے کے میڈیا ٹرائل کی گھات میں لگا ہوا ہے، سیاست کیا ہورہی ہے کردار کشی کا ہولناک کھیل جاری ہے۔
بدھ کو اسلام آباد میں شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی نے پاکستان پیغام کنونشن میں خطاب کرتے ہوئے فکر انگیز بات کی، انھوں نے کہا کہ پاکستان کے دستور کے تقاضوں کے مطابق پاکستانی معاشرہ کی ایسی تشکیل جدید ضروری ہے جس کے ذریعہ معاشرے کی منافرت، تنگ نظری، عدم برداشت و رواداری، باہمی احترام، اور عدل وانصاف پر مبنی حقوق و فرائض کا نظام قائم ہوسکے۔
یہ روح کو تازگی بخشنے والی باتیں قوم زیرو پوائنٹ پر واپسی سفر کے موقع پر سن رہی ہیں، کیونکہ ان کے سامنے آج کے پیش نظر اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے پرشور بیانات ہیں، جن میں کوئی چیف جسٹس سپریم کورٹ سے 90 دن کے لیے جوڈیشل مارشل لاء استدعا کررہے ہیں، دوسری جانب ایک بڑی مذہبی شخصیت نے صحافیوں کے اعزاز میں دیئے گئے ظہرانے میں دہائی دیتے ہوئے کہا کہ سیاست دان نیا میثاق ترتیب دیں ورنہ مزید تذلیل ہوگی۔
میڈیا میں فیک نیوز اور الیکٹرانک میڈیا کے ضابطہ اخلاق پر زور دیا جارہا ہے، پانامہ فیصلہ کے بعد اس پر ارتعاش کا سلسلہ بھی موضوع بحث بنا ہوا ہے، بلوچستان میں نئے وزیراعلیٰ قدوس بزنجو اور صادق سنجرانی کے چیئرمین سینٹ کے الیکشن میں کامیابی نے بلوچستان کو سیاسی بازیگری کی دلچسپ بحث کا مرکزی نکتہ بنادیا ہے۔
ادھر سپریم کورٹ، انسداد دہشت گردی عدالت اور نیب عدالتوں میں ہائی پروفائل مقدمات کی سماعتوں کا دی اینڈ قریب آنے کی نوید دی جارہی ہے۔ بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پورا سیاسی منظر 2018 کے الیکشن سے پہلے اتھل پتھل ہونے کے درپردہ خدشات ہیں جب کہ نگران حکومت کے لیے موزوں ناموں پر مشاورت جاری ہے، تھر میں بچوں کی ہلاکتیں روکنے کی سب تدبیریں تاحال ناکام ثابت ہوئی ہیں، کراچی کی تجارتی اور سماجی سرگرمیوں کا دائرہ پھیلا ہے۔
کل 25 مارچ کو پی ایس ایل کا فائنل کراچی میں کھیلا جائے گا، شہر کو دلہن کی طرح سجایا گیا ہے۔ شہر قائد میں تین دہائیوں تک سیاسی غلبہ رکھنے والی ایم کیو ایم میں تقسیم در تقسیم کے المیہ سے ان کے سرکردہ سیاسی رہنما نبرد آزما ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ارباب سیاست ایک لمحہ کو رک کر اپنی روحوں کو ٹٹولیں، سیاسی افق پر نظر دوڑائیں جہاں مایوسیوں کی دھند کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔