جنرل کیانی اور بلوچ ووٹرز

بِلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران جنرل پرویز کیانی نے بار بار جمہوری حکومت کی دستگیری کی۔

tanveer.qaisar@express.com.pk

4 اپریل2013ء کو پاکستان آرمی کے سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں تھے۔ سابق دونوں وزرائے اعظم (یوسف گیلانی اور پرویز اشرف) اور صدرِ مملکت جناب آصف زرداری کو پانچ برسوں میں بلوچستان جانے کا کم سے کم موقع ملا لیکن جنرل کیانی آتش فشاں بنے اِس صوبے کا متعدد بار دَورہ کر چکے ہیں۔ چار دن قبل بھی آپ وہاں موجود تھے۔ کوئٹہ میں اُنھوں نے نگراں وزیر ِاعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی اور گورنر نواب ذوالفقار علی مگسی سے تفصیلی ملاقاتیں کیں۔ ظاہر ہے اِس میں بلوچستان کے امن و امان کے بارے میں بھی گفتگو ہوئی اور گیارہ مئی کو ہونے والے عام انتخابات کا ذکر بھی ہوا۔

آمدہ اطلاعات کے مطابق جنرل پرویزکیانی نے کہا: ''ہم ملک میں صاف شفاف انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہر ممکن امداد فراہم کریں گے۔'' اُن کی گفتگو کا یہ جملہ پورے پاکستان میں عموماً اور بلوچستان میں خصوصاً سُنا گیا: ''بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات میں شرکت کرنی چاہیے۔ ہم صوبائی قیادت کو یقین دلاتے ہیں کہ فوج دل سے تمام جماعتوں کی انتخابات میں شرکت کا خیر مقدم کرے گی۔'' فوج، خصوصاً فوج کے سربراہ عام انتخابات کے حوالے سے اِس اسلوب میں گفتگو نہیں کرتے مگر بلوچستان جس فیز سے گزر رہا ہے، پاک فوج کے سربراہ کی طرف سے ایسے بیان کا منظرِ عام پرآنا لازم سمجھا گیا ہے۔

ہمہ مقتدر جنرل پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد جنرل پرویز کیانی نے جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے سب سے اہم کردار ادا کیا۔ اگر ہم 2008ء سے لے کر مارچ2013ء تک کا جائزہ لیں تو کہا جا سکتا ہے کہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے فوج کو بہت سے مواقع ملے لیکن اِن سے فائدہ اٹھانے کے بجائے جنرل کیانی صاحب نے اِس سے دانستہ اعراض بھی برتا اور احتراز بھی کیا۔ اِس پس منظر میں کہا جا سکتا ہے کہ گزشتہ منتخب حکومت نے اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار اپنے پانچ سال پورے کیے ہیں تو اِس میں اگر جناب نواز شریف کا مستحسن کردار ہے تو جنرل کیانی کے تعاونی کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اِن گزرے پانچ برسوں میں ایک اہم شخصیت اور جنرل کیانی کے درمیان مبینہ طور پر لفظی تلخی اورکوئٹہ میں سیکڑوں کی تعداد میں قتل ہونے والے ہزارہ افراد کے لواحقین کے مطالبات کے با وصف مسلح برّی افواج کے سربراہ نے بہت احتیاط برتی اور فوج کے قدم آگے بڑھنے نہ دیے۔ اِس کا بہرحال کریڈٹ فوج اور اس کے سپہ سالار کو ملنا چاہیے۔ الیکشن کے دن قریب آنے لگے تو ایک بار پھر بین السطور یہ ہوائیاں بکثرت اڑائی گئیں کہ اسٹیبلشمنٹ انتخابات نہیں ہونے دے گی۔ اِن کی بازگشت فوج نے بھی یقیناً سُنی ہو گی۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ آئی ایس پی آر کی وساطت سے فوج کے سربراہ کا یہ پیغام ملک بھر میں پہچانے کی کوشش کی گئی کہ فوج عام انتخابات کو صاف اور شفاف بنانے کے لیے بھرپور کوشش کرے گی۔

سپہ سالار نے فخرو بھائی کو نادرا کے دفترمیں براہِ راست، ایک اچانک ملاقات کے دوران، یہ پیغام بھی دیا کہ ہم ہر سطح پر تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔ حیرت خیز بات یہ ہے کہ یار لوگوں نے اس ملاقات میں بھی اپنی پسند کے مطابق رنگ بھرنے کی کوشش کی۔ہفت روزہ ''نیوزویک''(اشاعت، پانچ اپریل 2013ء) کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی فخر الدین جی ابراہیم صاحب نے اِس اچانک ملاقات کے بارے میں کہا: ''مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جنرل کیانی کو اگر مَیں پہچان نہ سکا تو اِسے کیوں بڑا ایشو بنایا گیا۔ آخر نادرا کا دفتر ایسی جگہ تو نہیں جہاں آپ جرنیلوں سے ملاقات کی توقع رکھتے ہوں۔''


پاکستان میں انشاء اللہ گیارہ مئی کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ جنرل پرویز کیانی صاحب کی طرف سے دورہ بلوچستان کے دوران ایک بار پھر تعاون کی یقین دہانی سامنے آ چکی ہے لیکن نہ جانے کیوں اِس کے باوجود بعض اطراف سے فوج کے حوالے سے شکوک و شبہات پھیلانے کی دانستہ یا نا دانستہ کوششیں بروئے کار ہیں۔ مثال کے طور پر ممتاز انگریزی جریدے ''ہیرالڈ'' (شمارہ اپریل 2013ء) نے پاکستان میں بی بی سی کے سابقہ نمایندے اور پاکستان کے بارے میں ایک متنازعہ کتاب Pakistan: Eye of the Storm. کے مصنف اووَن بینٹ جونز سے سوال کیا گیا کہ فوج نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران (جمہوریت کے حوالے سے) کیا کوئی مثبت کردار ادا کیا؟

جونز نے جواب میں کہا: ''ہمیں نہیں معلوم کہ فی الحقیقت وہ کیا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ہمارے پاس تو ایسی افواہیں کئی ہیں کہ (سابقہ حکومت پر) اُن کی طرف سے دبائو ڈالے جاتے رہے ہیں اور انھوں نے (ماضی میں) وقتاً فوقتاً حکومت میں مداخلت بھی کی لیکن یہ واقعہ ہے کہ پچھلی بار کی نسبت فوج نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران حکومت میں براہِ راست کوئی مداخلت نہیں کی۔''

بِلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران جنرل پرویز کیانی نے بار بار جمہوری حکومت کی دستگیری کی۔ یہ واقعہ اس وقت تو خصوصاً ابھر کر سامنے آیا جب فروری2013ء کے آخری ہفتے جنرل پرویز کیانی صاحب نے راولپنڈی میں سینیئر اخبار نویسوں اور اینکر پرسنوں سے تفصیلی ملاقات کی۔ آج اگر جنرل کیانی یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ گیارہ مئی کے عام انتخابات میں بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو بھی حصہ لینا چاہیے تو یہاں یہ حقیقت بھی تسلیم کی جانی چاہیے اور اِس کا بلند آہنگ سے اظہار کیا جانا بھی از بس ضروری ہے کہ گزشتہ نصف عشرے کے دوران بلوچستان کے شعبہ تعلیم میں بھی جنرل صاحب کی خدمات نمایاں ہیں اور ناقابلِ فراموش بھی۔

اُن کی ایما اور کوششوں سے اگر بلوچستان کے دور دراز علاقوں کے سیکڑوں بلوچ نوجوانوںکو پاک فوج کا حصہ بنایا گیا ہے تو یہ جنرل پرویز کیانی ہی ہیں جنہوں نے بلوچستان کے ایک معروف اور نئے تعمیر شدہ ملٹری کالج میں بلوچ بچوں کو بکثرت داخل کرنے کا شاندار اور یادگار فیصلہ کیا۔ یہ بلوچ بچے یقیناً مستقبل میں بلوچستان کا بھی عظیم سرمایہ بننے والے ہیں اور پاکستان بھر کے لیے بھی وہ قابل فخر سپوت ہوں گے۔ فوج پر تنقید کرنا بہت آسان ہے کہ فوج ہر اٹھائے جانے والے سوال کا نہ تو جواب دیتی ہے اور نہ ہی غیر ضروری کاموں میں اُلجھنا پسند کرتی ہے۔ فوج کی زبان یعنی آئی ایس پی آر بھی متنازعہ بحث میں شریک ہونے سے گریز کرتا ہے لیکن بلوچستان کے سلسلے میں ایک سوال بہر حال یہ کیا جا سکتا ہے: جن مقتدر سیاستدانوں نے ''آغازِ حقوقِ بلوچستان'' کا پُرکشش اور تعمیری نعرہ لگایا تھا، انھوں نے عمل کے میدان میں کیا اقدامات کیے؟

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ گزرے پانچ برسوں کے دوران جہاں جنرل کیانی نے مقدور بھر بلوچ نوجوانوں کو مرکزِ گریز قوتوں سے بچا کر مرکزی دھارے میں لانے کی مسلسل کوشش کی ہے، وہاں مسلم لیگ (ن) کے قائد جناب محمد نواز شریف بھی ناراض بلوچ رہنمائوں کے ساتھ محبت سے ملاقاتیں کر کے اُنھیں قومی سیاست کا حصہ بنانے کی سنجیدہ سعی کرتے رہے ہیں۔ جناب نواز شریف نے اسلام آباد میں ستمبر2012ء کو بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر خان مینگل سے جو تفصیلی ملاقات کی، وہ اس سلسلے کی سب سے مضبوط کڑی تھی۔ بلوچستان کے کچھ قوم پرست لیڈروں کو سینیٹ کا رکن بنانے میں بھی نواز شریف نے اعانت فراہم کی۔ گزشتہ برسوں کے دوران نواز شریف نے عطاء اللہ مینگل صاحب اور مقتول نواب اکبر بگٹی مرحوم کے صاحبزادے طلال بگٹی اور اُن کے قریبی عزیزوں سے بھی مسلسل رابطہ رکھا۔

انھیں متعدد بار اپنا مہمان بھی بنایا۔ اِس اقدام سے یقیناً بلوچ لیڈروں کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا ہوا ہے اور یہ مجموعی طور پر پاکستان کے مفاد ہی میں ہے۔ اِس بات کا بھی اعتراف کیا جانا چاہیے کہ فوج نے بلوچستان میں جو خدمات انجام دی ہیں، اِس کا یہ نتیجہ بھی نکلا ہے کہ اِس بار بلوچستان کے قوم پرست لیڈروں اور جماعتوں نے 2008ء کے برعکس، عام انتخابات میں بھر پور حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ دبئی سے واپسی پر، 26 مارچ2013ء کو کراچی میں اختر مینگل صاحب کا اِس سلسلے میں مثبت اعلان کو خیر اندیشانہ احساسات کے تحت دیکھا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں صاف، شفاف اور منصفانہ انتخابات کے معنی یہ بھی ہیں کہ قیمتی معدنیات سے مالا مال اِس صوبے کے بعض ناراض نوجوانوں پر، رفتہ رفتہ، مرکزِ گریز عناصر کی گرفت ڈھیلی پڑتی جائے گی۔
Load Next Story