افغانستان میں قیام امن کے لیے مذاکرات ہی درست آپشن ہے

ایک طویل عرصے سے افغانستان میں جاری دہشت گردی اور خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے امریکا اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لایا۔

ایک طویل عرصے سے افغانستان میں جاری دہشت گردی اور خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے امریکا اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لایا۔ فوٹو: رائٹرز

اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب وزیر خارجہ اور اعلی سفارت کار سید عباس عرا قچی نے ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں شروع ہونے والی دو روزہ افغان امن عمل کانفرنس سے خطاب میں افغانستان میں ایک عرصہ سے موجود بدامنی کی وجوہات اور اس کا حل پیش کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں بد امنی اس ملک میں غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی کی وجہ سے ہے،افغانستان میں فوجی طریقے سے مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں' افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے مسلح گروہوں کو امن مذاکرات کی دعوت دینے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

ایران کے نائب وزیر خارجہ نے افغانستان میں امن و امان کی برقراری کے لیے ہر قسم کے تعاون اور امداد کے لیے ایران کی آمادگی کا اعلان کیا۔ کانفرنس کی سربراہی ازبک اور افغان حکام کر رہے ہیں جب کہ اس میں ایران، پاکستان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ہندوستان، ترکی، چین، روس، امریکا، اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے نمایندے شریک ہیں۔

ایک طویل عرصے سے افغانستان میں جاری دہشت گردی اور خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے امریکا اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لایا، افغان جنگجوؤں پر قابو پانے میں ناکامی پر اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے اس نے دہشت گردی کی ہر کارروائی کے پس منظر میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیا' جب اس سے بھی بات نہ بنی تو اس نے پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کے الزامات عائد کرتے ہوئے ڈومور کی رٹ لگائے رکھی۔


پاکستان نے امریکی الزامات کا دوٹوک جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ وہ خود دہشت گردی کا شکار ہے لہٰذا وہ دہشت گردوں کی کیسے پشت پناہی کر سکتا ہے،اس نے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا اور اتحادی افواج سے ہر ممکن تعاون کیا ہے اور اب بھی وہ اپنے ملک میں بڑے پیمانے پر آپریشن کر رہا ہے۔

جہاں تک افغانستان کی خانہ جنگی کا سوال ہے پاکستان نے امریکا پر بار بار یہ واضح کر دیا کہ اس مسئلے کا حل جنگ نہیں بلکہ مذاکرات میں مضمر ہے اگر امریکا افغانستان میں امن چاہتا ہے تو اسے فوجی حل کے بجائے طالبان کو مذاکرات کی دعوت دے کر حکومت میں شریک کار کرنا چاہیے۔

امریکا نے طالبان سے مذاکرات کا ڈول بھی ڈالا مگر درپردہ اسے سبوتاژ کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھیں۔ ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں شروع ہونے والی افغان امن عمل کانفرنس بھی اسی ایجنڈے کا حصہ ہے کہ افغانستان میں بدامنی کا سیاسی حل تلاش کیا جائے۔

ایران نے افغانستان سے غیرملکی فوجیوں کے انخلا کا جو حل پیش کیا وہ یقیناً درست اور قابل ستائش ہے بشرطیکہ اس پر جلد از جلد عمل درآمد کیا جائے۔ امریکا اور افغان حکومت طالبان سے مذاکرات کی راہ اپنائیں اور افغانستان کو افغان فورسز کے حوالے کرکے امریکی اور اتحادی فوجیں اپنے اپنے ملک کی راہ لیں تو افغانستان جلد امن کا گہوارہ بن جائے گا۔
Load Next Story