فاٹا بل کی منظوری خوش آئند
اب وقت آ گیا ہے کہ فاٹا ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے قبائلی علاقوں کا بھی خاتمہ کیا جائے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ فاٹا ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے قبائلی علاقوں کا بھی خاتمہ کیا جائے۔ فوٹو: فائل
قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی سپریم کورٹ اورپشاور ہائیکورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھانے کا بل متفقہ طور پر منظور کرلیا۔
حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے عملی تصور ، اداروں میں خیر سگالی ، ہم آہنگی اور قوم کو درپیش مختلف النوع مسائل ،ایشوز اور تنازعات کے حل کی جو ضرورت قوم کو آج ہے اس سے پہلے نہیں تھی اور یہ خوش آئند بات ہے کہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام پر سیاسی کشیدگی،اختلافات پوائنٹ آف نوریٹرن تک نہیں پہنچے اور جمعہ کو نو منتخب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو فاٹا بل کی منظوری کی پہلی سعادت نصیب ہوئی، یوں پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں آئین کی حکمرانی کے سفر کا آغاز ہوگیا ،اس سے فاٹا کے شہری پشاور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک اپنے مقدمات لے کر جاسکیں گے۔
اگرچہ پختونخوا میپ اور جے یوآئی نے ایوان سے واک آؤٹ کرتے ہوئے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا تاہم اگر معروضی تناظر میں سیاست دانوں کا اختلاف رائے جمہوری رویے سے مشرط رہتا ہے تو اس امید کی قندیل بہر طور جلتی رہنی چاہیے کہ فاٹا کی تقدیر بدلنے میں تمام سیاسی جماعتیں جلد ایک پیج پر آجائیں گی کیونکہ یہ فاٹا میں جنگ اور دہشت گردوں کی دردناک تاریخ کی ایک غیر معمولی جدلیاتی پیش رفت کا معاملہ ہے، سیاسی رہنماؤں نے بہر حال بصیرت کا ثبوت دیا ہے، چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اختلاف رائے کرنے والوں کو حق ہے کہ اختلاف کریں۔
جمعے کووفاقی وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے اعلیٰ عدلیہ کا دائرہ کار فاٹا تک توسیع دینے کا بل جب کہ قائد حزب اختلاف شیری رحمان نے فاٹا اصلاحات کے متعلق پورے ایوان کی کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی۔ رائے شماری کے وقت کسی بھی رکن نے بل کی مخالفت نہیں کی۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، اپوزیشن لیڈر شیری رحمان، تمام پارلیمانی لیڈرز اور سینیٹرز نے بل کی منظوری پرفاٹا کے عوام کو مبارکباد دی۔
ادھرسابق صدرآصف علی زرداری نے جمعرات کو قبائلی یوتھ جرگہ کے وفد سے زرداری ہاؤس اسلام آباد میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت اعلیٰ عدالتوں کے اختیارات کو قبائلی علاقوں میں وسعت دینے، قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخوا میں انضمام اور این ایف سی ایوارڈ میں اس کا حصہ مختص کرنے کے مطالبات کی جدوجہد میں قبائلی علاقوں کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔
پیپلز پارٹی کا اس حوالے سے موقف واضح ہے اور وہ ماضی میں بھی فاٹا کا خیبر پختونخوا سے انضمام کے حق میں رہی ہے۔ دریں اثنا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ قیام امن کے حقیقی ثمرات فاٹا کو قومی دھارے میں لاکر حاصل کریں گے ، کچھ روز پہلے انھوں نے خبردار کیا تھا کہ کہ فاٹا میں ابھی امن آیا تو کچھ لوگوں نے نئی تحریک شروع کردی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ جب تک قوم فوج کے پیچھے کھڑی ہے دُشمن کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوںگے، کچھ لوگ اندر اور باہر سے پاکستان کی سالمیت کے درپے ہیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت کانفرنس میں آپریشن ردالفساد ، جیو اسٹرٹیجک سیکیورٹی صورتحال اور خوشحال بلوچستان پروگرام کا جائزہ لیا گیا، عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفند یارولی خان نے قبائلی عوام کی کاوش کوکامیابی سے ہمکنار ہونے پر تمام قبائلی عوام اور پختون قوم کو دلی مبارکباد پیش کی اور کہا ہے کہ فاٹا کے عوام کی سپریم کورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار فاٹا تک بڑھانے کے بل کی ایوان بالا سے منظوری بہت بڑی کامیابی اور انضمام کی جانب اہم قدم ہے۔
اسفندیار ولی خان نے کہا کہ اے این پی اور قبائلی عوام کا مشترکہ مطالبہ یہی تھا کہ فاٹا کو صوبے میں ضم کر کے اسے عدالتی دائرہ اختیار میں لایا جائے ، ایف سی آر کا خاتمہ،این ایف سی ایوارڈ میں قبائل کو حصہ اور 2018کے الیکشن میں صوبائی اسمبلی میں فاٹا کو نمایندگی دی جائے ۔ جماعت اسلامی کے لیے سراج الحق نے بھی سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار قبائلی علاقوں تک بڑھانے کا خیرمقدم کیا ہے۔
فاٹا انضمام کا ایشو اس امر کا متقاضی ہے کہ اس پر تمام سیاسی جماعتیں علاقے کی سیاسی و معروضی ضروریات اور زمینی حقائق سے مربوط اتفاق رائے کی جانب قدم بڑھائیں، مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی سے حکومت ، اداروں کے سربراہ ، فاٹا کی نئی نسل کے نمایندے اور مین اسٹریم سیاسی جماعتیں اپنا رابطہ قائم رکھیں، مکالمہ شفاف اور جمہوری اسپرٹ کے ساتھ ہو تو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بل کی منظوری کے بعد باقی ماندہ اختلافات بھی باہمی مشاورت اور علاقہ کے عوام کے مفاد میں مفاہمت سے حل ہو سکتے ہیں۔
ویسے بھی فاٹا اور خیبر پختونخوا میں تعمیر وترقی کا عمل شروع کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فاٹاکو خیبر پختونخوا میں ضم کردیا جائے ، پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو قبائلی علاقوں تک پھیلانے کے قانون کے پاس ہونے کے بعد پولیٹیکل انتظامیہ کی بے تاج بادشاہت کا خاتمہ ہو جائے گا اور قبائلی عوام کو بھی پاکستانی عوام کے برابر حقوق مل جائیں گے اور قبائلی اپنے آپ کو پاکستان کا حقیقی شہری تصور کریں گے۔
اس طریقے سے وہاں سرمایہ کاری کے لیے حالات سازگار ہوجائیں گے اور فاٹا میں جدید شہر کی تعمیر ممکن ہوسکے گی جس کا پورے ملک کو فائدہ ہوگا اورمقامی آبادی کو روزگار بھی ملے گا ، فاٹا میں گوادر کی طرح نیا اور جدید شہر بسانے کی ضرورت ہے ۔ سیدھی سی بات ہے کہ جس ملک میں ایسے علاقے موجود ہوں گے جہاں ملک کا قانون لاگو نہیں ہو گا، اس سے مسائل ہی جنم لیں گے۔
آج پاکستان جس قسم کی مشکلات کا شکار ہے اس کی بنیادی وجہ پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں کے ساتھ ساتھ ایسے علاقوں کی موجودگی ہے جہاں پاکستان کا قانون غیرموثر ہو جاتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فاٹا ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے قبائلی علاقوں کا بھی خاتمہ کیا جائے اور پنجاب میں راجن پور اور ڈیرہ غازی خان میں قبائلی سیٹ اپ کو توڑنے کے لیے تعمیر وترقی کا آغاز کیا جائے۔ ایران سے ملحقہ سرحد کو بھی فول پروف بنانے کے انتظامات کیے جائیں۔ پاکستان کی ترقی کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔
اصل منزل فاٹا عوام کے معاشی ، سیاسی، سماجی ، تعلیمی اور انتظامی اصلاحات اور ثمرات سے استفادہ کی ہے ۔ سیاست دان اور ارباب اختیار فاٹا کی ڈائنامکس ، نئی تحریکوں اور تنظیموں کے اجتماعات سے خائف ہوئے بغیر ان قوتوں ، ان کے مدعا اور منشا سے آگاہی حاصل کی جانی چاہیے، فاٹا ایک جزیرہ نہیں، اس کے تاریخی اور اسٹرٹیجک تعلقات ایران، بلوچستان اور قدیم ترین قبائلی کلچر اور تہذیبوں سے ہیں، پشتون نئی نسل کو اجتماع کے بعد مزید ڈائیلاگ سے محروم نہیں ہونا چاہیے، جس طرح پاکستان زندہ باد موومنٹ لوئردیرکے رہنماؤں نے تیمرگرہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کی اور اپنا جلسہ کیا۔
اسی طرح پاکستان عوامی راج پارٹی کے چیئرمین جمشید احمد دستی رکن قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبے کی جد و جہد کی آواز سب سے پہلے پارلیمنٹ میں انھوں نے اٹھائی اور صوبے کا بل بھی سب سے پہلے قومی اسمبلی میں انھوں نے جمع کرایا۔ اس وقت ضرورت سیاسی دور اندیشی کی ہے۔ انتخابات سر پر ہیں اس لیے اہل سیاست اس فکری بلوغت کے ہمہ جہتی امتحان سے بھی سرخرو ہوکر نکلیں۔تب فاٹا جشن منانا سہل ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے عملی تصور ، اداروں میں خیر سگالی ، ہم آہنگی اور قوم کو درپیش مختلف النوع مسائل ،ایشوز اور تنازعات کے حل کی جو ضرورت قوم کو آج ہے اس سے پہلے نہیں تھی اور یہ خوش آئند بات ہے کہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام پر سیاسی کشیدگی،اختلافات پوائنٹ آف نوریٹرن تک نہیں پہنچے اور جمعہ کو نو منتخب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو فاٹا بل کی منظوری کی پہلی سعادت نصیب ہوئی، یوں پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں آئین کی حکمرانی کے سفر کا آغاز ہوگیا ،اس سے فاٹا کے شہری پشاور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک اپنے مقدمات لے کر جاسکیں گے۔
اگرچہ پختونخوا میپ اور جے یوآئی نے ایوان سے واک آؤٹ کرتے ہوئے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا تاہم اگر معروضی تناظر میں سیاست دانوں کا اختلاف رائے جمہوری رویے سے مشرط رہتا ہے تو اس امید کی قندیل بہر طور جلتی رہنی چاہیے کہ فاٹا کی تقدیر بدلنے میں تمام سیاسی جماعتیں جلد ایک پیج پر آجائیں گی کیونکہ یہ فاٹا میں جنگ اور دہشت گردوں کی دردناک تاریخ کی ایک غیر معمولی جدلیاتی پیش رفت کا معاملہ ہے، سیاسی رہنماؤں نے بہر حال بصیرت کا ثبوت دیا ہے، چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اختلاف رائے کرنے والوں کو حق ہے کہ اختلاف کریں۔
جمعے کووفاقی وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے اعلیٰ عدلیہ کا دائرہ کار فاٹا تک توسیع دینے کا بل جب کہ قائد حزب اختلاف شیری رحمان نے فاٹا اصلاحات کے متعلق پورے ایوان کی کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی۔ رائے شماری کے وقت کسی بھی رکن نے بل کی مخالفت نہیں کی۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، اپوزیشن لیڈر شیری رحمان، تمام پارلیمانی لیڈرز اور سینیٹرز نے بل کی منظوری پرفاٹا کے عوام کو مبارکباد دی۔
ادھرسابق صدرآصف علی زرداری نے جمعرات کو قبائلی یوتھ جرگہ کے وفد سے زرداری ہاؤس اسلام آباد میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت اعلیٰ عدالتوں کے اختیارات کو قبائلی علاقوں میں وسعت دینے، قبائلی علاقوں کے خیبرپختونخوا میں انضمام اور این ایف سی ایوارڈ میں اس کا حصہ مختص کرنے کے مطالبات کی جدوجہد میں قبائلی علاقوں کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔
پیپلز پارٹی کا اس حوالے سے موقف واضح ہے اور وہ ماضی میں بھی فاٹا کا خیبر پختونخوا سے انضمام کے حق میں رہی ہے۔ دریں اثنا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ قیام امن کے حقیقی ثمرات فاٹا کو قومی دھارے میں لاکر حاصل کریں گے ، کچھ روز پہلے انھوں نے خبردار کیا تھا کہ کہ فاٹا میں ابھی امن آیا تو کچھ لوگوں نے نئی تحریک شروع کردی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ جب تک قوم فوج کے پیچھے کھڑی ہے دُشمن کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوںگے، کچھ لوگ اندر اور باہر سے پاکستان کی سالمیت کے درپے ہیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت کانفرنس میں آپریشن ردالفساد ، جیو اسٹرٹیجک سیکیورٹی صورتحال اور خوشحال بلوچستان پروگرام کا جائزہ لیا گیا، عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفند یارولی خان نے قبائلی عوام کی کاوش کوکامیابی سے ہمکنار ہونے پر تمام قبائلی عوام اور پختون قوم کو دلی مبارکباد پیش کی اور کہا ہے کہ فاٹا کے عوام کی سپریم کورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار فاٹا تک بڑھانے کے بل کی ایوان بالا سے منظوری بہت بڑی کامیابی اور انضمام کی جانب اہم قدم ہے۔
اسفندیار ولی خان نے کہا کہ اے این پی اور قبائلی عوام کا مشترکہ مطالبہ یہی تھا کہ فاٹا کو صوبے میں ضم کر کے اسے عدالتی دائرہ اختیار میں لایا جائے ، ایف سی آر کا خاتمہ،این ایف سی ایوارڈ میں قبائل کو حصہ اور 2018کے الیکشن میں صوبائی اسمبلی میں فاٹا کو نمایندگی دی جائے ۔ جماعت اسلامی کے لیے سراج الحق نے بھی سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار قبائلی علاقوں تک بڑھانے کا خیرمقدم کیا ہے۔
فاٹا انضمام کا ایشو اس امر کا متقاضی ہے کہ اس پر تمام سیاسی جماعتیں علاقے کی سیاسی و معروضی ضروریات اور زمینی حقائق سے مربوط اتفاق رائے کی جانب قدم بڑھائیں، مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی سے حکومت ، اداروں کے سربراہ ، فاٹا کی نئی نسل کے نمایندے اور مین اسٹریم سیاسی جماعتیں اپنا رابطہ قائم رکھیں، مکالمہ شفاف اور جمہوری اسپرٹ کے ساتھ ہو تو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بل کی منظوری کے بعد باقی ماندہ اختلافات بھی باہمی مشاورت اور علاقہ کے عوام کے مفاد میں مفاہمت سے حل ہو سکتے ہیں۔
ویسے بھی فاٹا اور خیبر پختونخوا میں تعمیر وترقی کا عمل شروع کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فاٹاکو خیبر پختونخوا میں ضم کردیا جائے ، پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو قبائلی علاقوں تک پھیلانے کے قانون کے پاس ہونے کے بعد پولیٹیکل انتظامیہ کی بے تاج بادشاہت کا خاتمہ ہو جائے گا اور قبائلی عوام کو بھی پاکستانی عوام کے برابر حقوق مل جائیں گے اور قبائلی اپنے آپ کو پاکستان کا حقیقی شہری تصور کریں گے۔
اس طریقے سے وہاں سرمایہ کاری کے لیے حالات سازگار ہوجائیں گے اور فاٹا میں جدید شہر کی تعمیر ممکن ہوسکے گی جس کا پورے ملک کو فائدہ ہوگا اورمقامی آبادی کو روزگار بھی ملے گا ، فاٹا میں گوادر کی طرح نیا اور جدید شہر بسانے کی ضرورت ہے ۔ سیدھی سی بات ہے کہ جس ملک میں ایسے علاقے موجود ہوں گے جہاں ملک کا قانون لاگو نہیں ہو گا، اس سے مسائل ہی جنم لیں گے۔
آج پاکستان جس قسم کی مشکلات کا شکار ہے اس کی بنیادی وجہ پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں کے ساتھ ساتھ ایسے علاقوں کی موجودگی ہے جہاں پاکستان کا قانون غیرموثر ہو جاتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فاٹا ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے قبائلی علاقوں کا بھی خاتمہ کیا جائے اور پنجاب میں راجن پور اور ڈیرہ غازی خان میں قبائلی سیٹ اپ کو توڑنے کے لیے تعمیر وترقی کا آغاز کیا جائے۔ ایران سے ملحقہ سرحد کو بھی فول پروف بنانے کے انتظامات کیے جائیں۔ پاکستان کی ترقی کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔
اصل منزل فاٹا عوام کے معاشی ، سیاسی، سماجی ، تعلیمی اور انتظامی اصلاحات اور ثمرات سے استفادہ کی ہے ۔ سیاست دان اور ارباب اختیار فاٹا کی ڈائنامکس ، نئی تحریکوں اور تنظیموں کے اجتماعات سے خائف ہوئے بغیر ان قوتوں ، ان کے مدعا اور منشا سے آگاہی حاصل کی جانی چاہیے، فاٹا ایک جزیرہ نہیں، اس کے تاریخی اور اسٹرٹیجک تعلقات ایران، بلوچستان اور قدیم ترین قبائلی کلچر اور تہذیبوں سے ہیں، پشتون نئی نسل کو اجتماع کے بعد مزید ڈائیلاگ سے محروم نہیں ہونا چاہیے، جس طرح پاکستان زندہ باد موومنٹ لوئردیرکے رہنماؤں نے تیمرگرہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کی اور اپنا جلسہ کیا۔
اسی طرح پاکستان عوامی راج پارٹی کے چیئرمین جمشید احمد دستی رکن قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبے کی جد و جہد کی آواز سب سے پہلے پارلیمنٹ میں انھوں نے اٹھائی اور صوبے کا بل بھی سب سے پہلے قومی اسمبلی میں انھوں نے جمع کرایا۔ اس وقت ضرورت سیاسی دور اندیشی کی ہے۔ انتخابات سر پر ہیں اس لیے اہل سیاست اس فکری بلوغت کے ہمہ جہتی امتحان سے بھی سرخرو ہوکر نکلیں۔تب فاٹا جشن منانا سہل ہوگا۔