گنجینہ گوہر

ایم قادر خان  پير 16 اپريل 2018

کسی کے علاوہ میں اپنی بات کروں گا، بہت جلد کسی شخص یا کسی ادارے پر تنقید شروع کردیتا ہوں اس کی اچھائی بھول جاتا ہوں ۔ دنیا میں ہر شخص میں اچھائی برائی دونوں ہوتی ہیں ۔ ایک شخص میں صرف ایک برائی ہے تو بے شمار اچھائیاں ضرور ہوں گی لیکن اس کی برائی پر زیادہ زور ہوتا ہے۔ کوئی شخص میں جس قدر اچھائیاں ہیں لیکن برائیاں بھی لازم ہیں۔

اس میں میں بھی شامل ہوں ، میں سمجھتا ہوں سب سے زیادہ ناخلق، تنقید نگار، برائیوں والا دنیا کا ایک انسان ہوں میں سمجھتا ہوں میرے علاوہ ہر شخص اچھا ہے۔ آج میرے ذہن میں چند اہم باتیں آئیں ، میری کاوش ہے آپ کے سامنے پیش کروں۔

عرض کرتا چلوں یہ نہ سمجھیں سب لوگ برے ہیں برے بہت کم اچھے بہت زیادہ ،کسی کو برا کہنا اچھی بات نہیں لیکن یہ ضرور ہے برائیوں کا اظہارکردیں تاکہ آنے والے وقت وہ ان برائیوں کو دورکرسکے۔ یہ بڑی بات ہے اس میں کسی کو ناراضگی کے بجائے اپنی اچھائیوں کی طرف کوشاں ہونا ضروری ہے۔ پاکستان میں جس طرح معیشت کا برا حال ہے شاید ملک کا ہر فرد واقف ہوگا جس ادارے کی جانب رخ کریں تو کچھ نہ کچھ برائی ضرور نظر آئے گی ہمیں ۔

اس کی برائی کا اظہار اس طرح نہ کریں کہ وہ اپنے آپ کو برا سمجھے بلکہ انداز کہنے کا ایسا ہو جس پر وہ بجائے ناراضگی یا اپنے آپ کو برا سمجھنے کے بجائے اچھائیوں اور خوبیوں کی طرف بڑھے۔

ایک چھوٹی بات ہے اگر چور کو آپ چور کہیں وہ اس کو اچھا نہیں برا سمجھیں گے، اپنے آپ کو نہیں بلکہ وہ آپ کو اچھا نہیں کہے گا جب کہ آپ نے صاف گوئی سے کہا۔ اس کے بجائے آپ اس شخص کو یہ کہیں کہ آپ ایک نیک انسان ہونے کے باوجود کسی شے کو کسی کی اجازت کے بغیر اٹھا لینا نا مناسب ہے۔

اگر کوئی شے درکار ہو تو آپ اپنی محنت و مشقت سے حاصل کرسکتے ہیں جس میں آپ کو افضلیت محسوس ہوگی اور آپ کی نیکیوں اچھائیوں میں اضافہ ہوگا۔ ان باتوں سے نہ صرف وہ خوش ہوگا بلکہ اس کی آیندہ یہ کاوش ہوگی کہ اس شخص کے پاس کوئی برائی نہ آئے جو مجھ کو برا سمجھیں۔ یقینا اکثر لوگ اپنی برائیوں سے دور ہوجاتے ہیں۔

میرے نزدیک پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے میں اور اداروں کے علاوہ 2 ادارے اس میں مرکزی ہیں اور صوبائی بھی۔ قومی اسمبلی ایم این اے اور صوبائی اسمبلی ایم پی اے۔ یہ وہ ادارے ہیں جو ارض پاک کے قانون بنانے کے لیے معرض وجود میں لائے گئے۔ ان مقتدر ریاست میں ایسے قانون تشکیل دینا جو رعیت کے لیے آسانیاں پیدا کریں میری اپنی ذاتی کاوش ہے کیوں نہ آج ان کو ان کے کردار اعلیٰ کو انصاف کی کسوٹی پر تولنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

ایک ایم این اے اور ایم پی اے پر لانے والا غریب عوام ہوتا ہے اور اس کا ماہوار محاصل ایک لاکھ بیس ہزار سے 2 لاکھ اجلاس کے اخراجات ایک لاکھ ماہانہ دفتر کے اخراجات ایک لاکھ چالیس ہزار روپے چارجز اول درجہ نشست ٹرین میں پورے پاکستان میں مفت۔ ہوائی پیما میں بزنس درجہ بمع پانچ افراد بالکل مفت۔ سرکاری ہاسٹل مفت۔ (پچاس ہزار) برقی رو کے یونٹس مفت(ایک لاکھ ساٹھ ہزار) روپے ٹیلی فون بل فری جوکہ چھ ہزار فی کلو میٹر ہے۔

ایک ایم این اے اور ایم پی اے پر غریب عوام کا سالانہ خرچ 3 کروڑ 20 لاکھ 5 سالوں میں آنے والا ٹوٹل خرچ 16 کروڑ فی ایم این اے، ایم پی اے۔ اسمبلی تعداد پنجاب 371 ممبرز پر مشتمل ہے۔ سندھ اسمبلی میں 159 ممبرز ہوتے ہیں۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں 124 ممبرز بلوچستان اسمبلی میں 45 ممبرز ہوتے ہیں۔

میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں شاید ایک کھرب 49 ارب 76 کروڑ روپے یعنی ہر 5 سالوں میں ایم این اے اور ایم پی اے اتنا روپیہ اس غریب ملک کا غریب عوام کے حق سے مالیت حاصل کی جاتی ہے۔ یہ تمام رقومات ان غریب عوام کی ہیں جو خط غربت سے نیچے آ رہے ہیں اور افسوسناک بات ہے جس سے ہم غافل ہیں۔

اٹھائے پھرتے احسان جسم کا جاں پر

چلے جہاں سے تو یہ پیرہن اتار چلے

نہ جانے کون سی مٹی وطن کی مٹی تھی

نظر میں دھول‘ جگر میں لیے غبار چلے

سحر نہ آئی کئی بار نیند سے جاگے

سو رات‘ رات کی ہر زندگی گزار چلے

چونکہ یہ میری اپنی ذاتی باتیں ہیں میری کاوش نے جو حاصل کیا اس کو پیش کرنے کی سعی کی اگر اس ادنیٰ خادم اس معمولی انسان کے کوئی جملے یا الفاظ ناگوار گزرے تو اس پر معذرت خواہ ہوں۔ بہت پرانی بات ہے حقائق تلخ ہوتے ہیں جس طرح حکیم (طبیب) کوئی تلخ دوا دیتا ہے جس کو استعمال کرنا ضروری ہے اس لیے کہ اس تلخ دوا سے فائدہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مریض اس دوا کے استعمال سے شفا یاب ہوجاتا ہے۔

میرے ایک دوست مجھ سے ناراض ہیں کہتے ہیں آپ کیوں ایسی تلخ باتیں کرتے ہیں۔ میں نے ان کو بارہا عرض کیا آپ جن باتوں کو تلخ سمجھ رہے ہیں میں ان کو سچ جان رہا ہوں۔ کہنے لگے آپ دیکھیں جس طرح دور بڑھ رہا ہے وہ آپ کی باتوں پر کون عمل کر رہا ہے یا کرے گا؟

میں نے کہا میرے دوست یہ ضروری نہیں کوئی میری سچائی پر عمل کرے لیکن اس ملک میں اکثریت ایسی ہے جو میری بیان کی ہوئی باتوں کو پڑھتی اور سمجھتی ضرور ہے بس یہی میرے لیے اعزاز ہے کوئی میری ان تلخ باتوں کو سچ سمجھ کر پڑھ لے عمل کرنا یا نہ کرنا یہ طاقت و اختیار پر ہوتا ہے۔ ہر شخص کے پاس اتنی طاقت ہے نہ اختیارات لہٰذا کسی پر کوئی دوش ہے نہ شکوہ۔

یہ بات میں ضرور کہوں گا ہمارے ملک میں اس قدر ذہین قابل لوگ موجود ہیں جن کو آگے نہیں لایا گیا۔ شاید اس لیے کہ ان کے پاس ایسے اختیار یا دولت نہیں جو وہ آگے آسکیں۔ پاکستان سے دیگر بیرونی ممالک میں جاکر وہ جس قدر محنت و ذہانت دکھاتے ہیں وہاں کے مقامی لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ افسوس اس امر پر ہے ہم اپنے ان لوگوں سے متاثر ہیں۔

یاد رکھیں ’’گدڑی میں لعل‘‘ ہوتے ہیں کیا کیا جائے اس گدڑی کو ساری عمر بیت جاتی ہے جوکہ تار تار ہوکر ناپید ہوتی ہے اور ہم ان جید، قابل، ذہین افراد سے دور رہ جاتے ہیں یہ بڑی اہم بات ہے جو میرے ذہن میں نہ جانے کیسے آگئی۔ اگر کوئی شخص غربا، مساکین کی جانب قربت اختیار کرے تو اس کو بڑے جوہر ملیں گے ایسے نایاب موتی جن سے گنجینہ گوہر پاکستان ہوگا۔

جس دن ہم ان جواہرات کو استعمال کرنا شروع کردیں گے تو میں یقینا اس امر کو مسلم سمجھتا ہوں پوری دنیا ہماری محتاج ہوگی جب کہ آج ہم دوسروں کے محتاج ہیں وہی لوگ ہمارے تابع ہوں گے۔ مجھے امید ہے آج نہیں کل اگر کل نہیں تو اس سے آگے ہمارے ملک کے وہ لوگ جو گنجینہ گوہر ہیں آگے ہوں گے ملک ان کے طفیل آگے بڑھے گا ہم کامیاب ہوتے چلے جائیں گے۔ تاریخ اس امر کی گواہ ہے کبھی ایک جیسا وقت نہ رہا جس قدر برائی بڑھی اسی قدر برائی نے بری طرح شکست کھائی وہی شکست ملک کی کامیابی کی دلیل ہے۔

آخر میں ایک چھوٹی سی بات عرض کرنا چاہوں گا۔ ہم مسلم ہیں ایک فخر ہے کہ پوری دنیا میں مسلم کی عبادت صرف ایک زبان عربی پر ہے جب کہ دنیا کے دیگر مذاہب کی ہر ملک کے مطابق مختلف زبانیں ہیں۔ ہمارا قرآن ہماری بے مثل کامیابی ہے صرف عمل کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔