پانی کا ہر قطرہ سونا ؛ قلت آب کے سنگین ہوتے مسئلے سے نمٹنے کی جنگ

سید بابر علی  اتوار 22 اپريل 2018
دنیا میں پانی کو محفوظ کرنے کے لیے کیا طریقے آزمائے اور ٹیکنالوجیز اپنائی جارہی ہیں۔ فوٹو: فائل

دنیا میں پانی کو محفوظ کرنے کے لیے کیا طریقے آزمائے اور ٹیکنالوجیز اپنائی جارہی ہیں۔ فوٹو: فائل

زندگی کا بنیادی اور اہم جزو پانی ہے، زندگی کا آغاز ہی پانی سے ہوتا ہے، اسی لیے سائنس داں کسی سیارے کی دریافت پر سب سے پہلے یہ معلوم کرتے ہیں کہ وہاں پانی کے آثار ہیں یا نہیں۔ پانی نہیں تو زندگی بھی نہیں۔

ایک اندازے کے مطابق بقائے انسانی کے لیے ناگزیر اس عظیم نعمت سے دنیا کے 84 کروڑ 40 لاکھ افراد محروم ہیں۔ یعنی ہر نو میں سے ایک فرد کو پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں۔ دنیا بھر میں لوگوں تک پینے کے صاف پانی اور سینیٹیشن تک رسائی کے لیے کام کرنے والی غیرسرکاری امریکی تنظیم واٹر ڈاٹ اوآر جی کے اعدادوشمار کے مطابق پانی کی قلت، عدم فراہمی اور آلودگی سے سب سے زیادہ عورتوں کے معمولات زندگی متاثر ہوتے ہیں، دنیا بھر میں عورتیں روزانہ چھے گھنٹے مختلف علاقوں اور مقامات سے پانی کے حصول پر صرف کرتی ہیں۔ مجموعی طور پر یہ وقت 26 کروڑ 60 لاکھ گھنٹے فی دن بنتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر عورتیں یہ وقت کوئی ہنر سیکھنے یا تعلیم حاصل کرنے میں صَرف کریں تو دنیا کی معاشی ترقی میں اہم تر کردار ادا کرسکتی ہیں۔

عورتوں کے علاوہ گھروں میں بچوں پر بھی پانی بھرنے کی ذمے داری عائد کی جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں بچوں کی بھی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ اگر بچوں کو اس ذمے داری سے آزاد کردیا جائے تو ان کو کھیلنے اور پڑھائی کے لیے مناسب وقت مل سکتا ہے۔ پانی کے بحران اور اس حوالے سے شکایات کا صحت سے براہِ راست تعلق ہے۔ کسی خطے میں لوگوں کی صاف پانی تک رسائی کا مطلب وہاں صحت کی مجموعی صورت حال بہتر بنانا ہے۔ ماہرین کے مطابق لوگوں تک صاف پانی پہنچا کر دنیا بھر میں بچوں کی شرح اموات میں حیرت انگیز حد تک کمی کی جاسکتی ہے۔ دنیا بھر میں ہر نوے سیکنڈ میں ایک بچہ آلودہ پانی کی وجہ سے لاحق ہونے والی کسی بیماری کے نتیجے میں موت سے ہم کنار ہو رہا ہے۔

پانی کی قلت اور اس سے متعلق دوسرے مسائل کی وجہ سے دنیا کی معیشت پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔ صاف پانی کی تلاش میں ضایع ہونے والے وقت کو اگر مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو اس سے اربوں ڈالر کے معاشی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ پانی جیسی بنیادی ضرورت کی کمی کی وجہ سے دنیا بھر میں سالانہ 260 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ پانی کی کم یابی اور آلودگی سے متعلق آنے والی رپورٹس بتاتی ہیں کہ صورت حال مزید خراب ہونا ہے، چناں چہ دنیا بھر میں پانی کو محفوظ رکھنے اور صورت حال سے نمٹنے کے لیے کئی طریقے اپنائے جارہے ہیں اور مختلف ٹیکنالوجیز سامنے آرہی ہیں۔ اس فیچر میں ان طریقوں اور ٹیکنالوجیز کی تفصیل پر مبنی ہے۔

٭دنیا بھر میں رائج پانی بچانے کے جدید طریقے

تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور انسانی سرگرمیوں کی بدولت دنیا بھر میں پینے کے صاف پانی کی قلت سنگین شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ دنیا کے بیش تر ممالک نے مستقبل میں پانی جیسی نعمت کی محرومی سے بچنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کر رکھا ہے۔ کچھ ممالک سمندری پانی کو میٹھا بنانے کی تگ و دو میں ہیں تو کچھ ممالک پانی کو ری سائیکل کر رہے ہیں، کچھ ممالک اس کام کے لیے قدرتی طریقے استعمال کر رہے ہیں تو کچھ ممالک نے اپنے شہریوں کو پانی کے ضیاع سے روکنے کے لیے گھروں، صنعتوں میں بجلی گیس کی طرح پانی کے میٹر لگا رکھے ہیں۔ پانی بچانے کے چند اہم طریقے درج ذیل ہیں:

٭ڈی سیلی نیشن (سمندری پانی کو میٹھا بنانا)

ڈی سیلی نیشن ایسا طریقہ ہے جس میں کھارے پانی سے نمک اور دیگر معدنی اجزا کو نکال کر اسے پینے اور انسانی استعمال کے قابل بنا یا جاتا ہے۔ اس طریقۂ کار کو سیم لگی زرعی زمین سے نمک نکال کر اسے قابل کاشت بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ طریقۂ کار انسانی استعمال کے لیے تازہ پانی کے حصول کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ میٹھے پانی کے حصول کے دیگر طریقوں کی نسبت یہ تھوڑا منہگا طریقہ ہے۔

پاکستان میں پہلا ڈی سیلی نیشن پلانٹ 1987میں بلوچستان کی سینڈیک کاپر مائنز میں نصب کیا گیا تھا۔ دوسرا پلانٹ 1995میں کراچی کے ساحل پر نصب کیا گیا، جب کہ 2014 میں ڈیفینس ہاؤسنگ سوسائٹی کراچی میں سمندری پانی کو میٹھا کرنے کے پلانٹ کا افتتاح کیا گیا۔ دس ایکٹر رقبے پر محیط 600ملین ڈالر لاگت سے بننے والے اس پلانٹ میں روزانہ 14ملین لیٹر پانی سمندری پانی کو میٹھا کرنے کی گنجائش ہے، جب کہ رواں سال جنوری میں ہی گوادر میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے ڈی سیلی نیشن پلانٹ کی تعمیر کا آغاز کیا گیا ہے ۔ تکمیل کے بعد یہ پلانٹ اسی پیسے فی گیلن کی لاگت سے ڈھائی لاکھ گیلن پانی فی دن فراہم کرسکے گا۔

سعودی عرب اس طریقے پر عمل کر کے میٹھا پانی پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ جب کہ حال ہی میں سعودی حکومت نے ساحلی شہر الخفجی میں شمسی توانائی سے چلنے والا ڈی سیلی نیشن پلانٹ نصب کیا ہے۔ سعودی عرب 2019 تک اپنے تمام ڈی سیلی نیشن پلانٹس کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔ اس کے بعد اسرائیل کا بھی پانی کی بچت کرنے والے مما لک میں سرفہرست ہے۔ صحرائی محل وقوع ہونے کے باوجود اسرائیل دوسرے ممالک کو میٹھا پانی فروخت کرکے سالانہ دو ارب ڈالر کماتا ہے۔ یہ ملک 85 فی صد ویسٹ واٹر کو ری سائیکل کرتا ہے۔ وہاں تین سو سے زاید کمپنیاں کھارے پانی کو میٹھا بنا رہی ہیں۔ امریکی ریاست کیلے فورنیا جو کہ اپنی تاریخ کی بدترین خشک سالی کا شکار ہے، وہاں اس وقت سترہ ڈی سیلی نیشن پلانٹ فعال ہیں۔

٭ جیو تھرمل توانائی سے پانی کا حصول

یونان نے میٹھے پانی کے حصول کے لیے ایک نیا طریقہ استعمال کیا ہے۔ یونانی جزیرے میلوس کا محل وقوع آئیگین وولکانک آرک (آتش فشانی چٹان) پر ہونے کی وجہ سے جیو تھرمل توانائی کے لیے بہترین ہے۔ یونان اپنے اس جزیرے میں زمین کے اندر آتش فشانی چٹانوں سے نکلنے والی حرارت کو پانی میں تبدیل کر رہا ہے۔ اس طریقۂ کار کے تحت گرم پانی کو زیرزمین نصب پائپوں سے گزارا جاتا ہے اور گرم پانی سے نکلنے والی بھاپ دیواروں پر موجود چھوٹے سوراخوں سے ایک جگہ جمع ہوکر صاف پانی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ بعدازاں اس پانی کو جمع کرکے پینے اور زرعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

٭ڈیموں کی تعمیر

ڈیم کو پانی بچانے کے لیے سب سے موثر طریقہ سمجھا جاتا ہے، دنیا بھر میں اس وقت اڑتالیس ہزار سے زاید بڑے ڈیمز آپریشنل ہیں، جب کہ لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی، زراعت ، توانائی کے حصول اور سیلاب سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے ڈیموں کی تعمیر جاری ہے۔ لیکن پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر کو ایک سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں پانی کا بحران دن بہ دن شدید ہوتا جا رہا ہے۔

٭زراعت میں پانی کا ضیاع اور جدید نظام آب پاشی

اقوام متحدہ کے ادارے برائے خوراک اور زراعت کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر کا ستر فی صد پانی زرعی مقاصد میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک کلو چاول اُگانے کے لیے تین سے پانچ ہزار لیٹر پانی، ایک کلو سویا اگانے کے لیے دو ہزار لیٹر پانی، ایک کلو گندم اگانے کے لیے نو سو لیٹر پانی اور ایک کلو آلو اگانے کے لیے پانچ سو لیٹر پانی خرچ ہوتا ہے۔ زراعت میں پانی کی اہمیت و افادیت مسلّمہ ہے اور میٹھے پانی کا سب سے زیادہ استعمال زرعی مقاصد میں ہی ہوتا ہے۔ مصدقہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں میٹھے پانی کا 90 فی صد زرعی شعبے کو دیا جاتا ہے جس میں سے نصف سے زاید آب پاشی کے پرانے نظام کی وجہ سے ضایع ہوجاتا ہے۔ ہماری زراعت کے لیے آب پاشی کا سب سے بڑا ذریعہ دریائے سندھ اور اس سے نکلنے والی نہریں ہیں۔

انڈس واٹر سسٹم 3 بڑے آبی ذخائر، 19 بیراجوں، 12رابطہ نہروں، 45 بڑی نہروں اور 1لاکھ7ہزار کھالوں پر مشتمل ہے، جس کا تخمینہ تقریباً 140ملین ایکڑ فٹ سالانہ ہے۔ ہمارے آبی وسائل کا تقریباً 70 فی صد پانی چھوٹی بڑی نہروں، کھالوں اور کھیتوں میں دوران آب پاشی ضائع ہوجاتا ہے۔ دنیا بھر میں زراعت میں پانی بچانے کے لیے، اسپرنکلزاور ڈرپ ایری گیشن جیسے جدید طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں، جب کہ زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے علاقے جہاں پانی کم ہو وہاں کم پانی میں اُگنے والی فصلیں کاشت کی جائیں۔ پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے نالوں، نہروں اور کھالوں کی وقتاً فوقتاً صفائی کی جائے اور پانی کو ضائع اور جذب ہونے سے بچانے کے لیے انہیں پختہ کیا جائے۔

٭ڈرپ ایری گیشن

ڈرپ ایری گیشن ایک ایسا جدید طریقہ ہے جس میں ایک نوزل کے ذریعے پودے کی جڑوں میں پانی آہستہ آہستہ ڈالا جاتا ہے۔ اس کا مقصد زراعت میں پانی کے ضیاع کو کم سے کم کرنا ہے ۔ اس طریقۂ کار میں پانی کو والو، پائپ، ٹیوبز کے نیٹ ورک کے ذریعے پانی تقسیم کیا جا تا ہے۔ یہ نظام اسپرنکلز ایری گیشن کی نسبت زیادہ موثر ہے۔

پاکستان میں زرعی نظام میں بہتر ی لانے اور پانی بچانے کے لیے ڈرپ ایری گیشن کا محدود استعمال کافی عرصے سے جاری ہے، لیکن حال ہی میں حکومتِ پنجاب نے اس نظام کو چھوٹے کاشت کاروں تک متعارف کروایا ہے، جس کے تحت پانی کو پودوں کی ضرورت کے مطابق پورے کھیت کے بجائے پودوں کی جڑوں میں پائپ نیٹ ورک کے ذریعے قطرہ قطرہ فراہم کیا جاتا ہے، جس سے پانی اور کھاد کی بچت کے علاوہ پیداوار میں بھی 20 سے 100فی صد تک اضافہ ہوتا ہے۔ آب پاشی کے اس جدید نظام کی مدد سے کاشت کار اپنی بنجر اور ناکارہ زمینوں کو بھی زیرکاشت لاسکتے ہیں۔

٭ اسپرنکلر ایریگیشن

اس طریقۂ کار میں بارش کا انداز استعمال کرتے ہوئے پانی کے پائپس کو ایک مخصوص طریقے سے تھوڑے تھوڑے فاصلے سے لگایا جاتا ہے۔ پانی پائپ کے سرے پر موجود نوزل سے ہلکی پھوار کی شکل  میں نکل کر اطراف کے رقبے کو پانی فراہم کرتی ہے۔ اس طریقۂ کار کو زیادہ تر زراعت ، گھر کے باغیچوں، گالف کورس اور پارکس وغیرہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں پانی کو محفوظ کرنے کے قدرتی طریقے
٭ مٹی میں نمی کو برقرار رکھنا اور زیرآب پانی کو ری چارج کرنا

مٹی میں نمی کو جذب کرنے کی قدرتی صلاحیت ہوتی ہے۔ مٹی میں موجود مسام اس عمل کو سر انجام دیتے ہیں، جو اپنے اندر گیس اور پانی کو محفوظ رکھتے ہیں۔ مٹی کی پانی کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت کا دارومدار پانی کے مالیکیولز اور اجسام کی جسامت پر ہوتا ہے، مثال کے طور پر چکنی مٹی میں پانی کے مالیکیولز اجسام کو بہت مضبوطی سے جوڑے رکھتے ہیں، جب کہ ذرات پر مشتمل مٹی میں ان کی گرفت کم زور ہوتی ہے اسی وجہ سے چکنی مٹی میں زیادہ پانی جذب اور محفوظ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ مٹی جتنی زیادہ پانی سے لبریز ہوگی پودوں کی بڑھوتری اتنی ہی تیزی سے ہوگی۔

عمومی طور پر مٹی کی اوپری سطح 25 فی صد پانی، 25 فی صد ہوا، 45 فی صد معدنیات اور 5 فی صد دوسرے اجسام پر مشتمل ہوتی ہے، جب کہ واٹر ری ٹینشن (پانی ذخیرہ کرنے کا عمل) گہرائی میں ہوتی ہے اور زندگی کے لیے واٹر ری ٹینشن نہایت ضروری ہے، کیوں کہ یہ پودوں کو انفلٹریشن (ایک طریقہ جس میں سطح زمین پر موجود پانی مٹی میں داخل ہوتا ہے، اسی وجہ سے مٹی میں بارش اور زراعت میں استعمال ہونے والے پانی کو جذب کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے) کے دوران پانی کی فراہمی جاری رکھتی ہے۔

یہی پانی گرمیوں یا خشک سالی میں پودوں کو ملتا رہتا ہے، جب کہ مٹی میں نمی کو برقرار رکھنے اور زیرآب پانی کو ری چارج کرنے کا طریقہ استعمال کرکے پانی کی قلت کو کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ اس طریقۂ کار میں مٹی میں موجود ایسے پانی کو جو کہ پودوں، درختوں کے استعمال میں نہ ہو، اسے استعمال کیا جاسکتا ہے، اس عمل کے لیے ’ری چارج ‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے ذریعے مٹی میں فیلڈ کیپیسٹی کے عمل کو روک کر پانی کی سطح میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ مٹی کی تین اقسام (اوون ڈرائی، سیچوریٹڈ اور فیلڈ کیپیسٹی) ہیں جنہیں مٹی، پانی اور پودوں کی بڑھوتری کے درمیان ربط کو سمجھنے کے لیے جاننا بہت ضروری ہے۔

٭خشک (اوون ڈرائی)

مٹی ذرات اور ایسے مسام پر مشتمل ہوتی ہے جو کہ آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ڈائی نائٹروجن جیسی گیسوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ مٹی میں موجود مسام جب مکمل طور پر ان گیسوں سے بھر جاتے ہیں تو اس طرح کی مٹی کو اوون ڈرائی کہا جاتا ہے۔ اسے ایسی مٹی جانا جاتا ہے جسے 105 ڈگری سینٹی گریڈ پر خشک کیا گیا ہو اور وہ اپنے مخصوص وزن تک پہنچ چکی ہو۔ اس طرح کی مٹی میں پانی بالکل نہیں ہوتا۔

٭سیر شدہ (سیچوریٹڈ)

اس طرح کی مٹی میں موجود مسام پانی سے بھرتے ہوتے ہیں، اور اس وقت یہ مٹی نمی کو محفوظ رکھنے کی اپنی مکمل گنجائش کے ساتھ ہوتی ہے۔

٭فیلڈ کیپیسٹی

بارش یا زراعت کی وجہ سے سیچوریٹڈ (سیر شدہ) مٹی کے بڑے مساموں میں سے پانی کا ایک حصہ گریویٹی (کشش ثقل) کی وجہ سے بہہ جاتا ہے۔ جب کہ مائیکرو پورز (باریک مسام) میں پانی موجود رہتا ہے۔ دو سے تین دن بعد گریویٹی (کشش ثقل) کی وجہ سے بہنے والا حصہ ناقابل استعمال ہوجاتا ہے اور اس وقت اس مٹی کو فیلڈ کیپیسٹی کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے پاس سیر شدہ مٹی 100کیوبک سینٹی میٹر ہے، اور اس میں میکرو پورز (بڑے مسام) 35فی صد ہیں، تو مٹی کے فیلڈکیپیسٹی پر پہنچنے پر آپ کے پاس صرف 65کیوبک سینٹی میٹر سیچوریٹڈ مٹی بچے گی۔

٭قدرتی اور بنائی گئی ویٹ لینڈز

ویٹ لینڈ ز زمین میں ایسی جگہ کو کہا جاتا ہے جو مستقل یا عارضی طور پر پانی سے سیر شدہ ہو۔ ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ کے لیے ویٹ لینڈز کی تعمیر نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ کیو ں کہ ایسی جگہ پر اُگنے والے پودوں میں زہریلے مادوں کو بڑی مقدار میں جذب کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ ویٹ لینڈز کے حیاتیاتی اور کیمیائی طریقۂ کار سے آلودہ پانی کو صاف کیا جاسکتا ہے۔ ویٹ لینڈز ماحول میں بہتری، خصوصاً پانی کی صفائی، سیلاب پر قابو پانے، کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے اور خطِ ساحل کے استحکام کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ ویٹ لینڈز کو دو اقسام قدرتی ویٹ لینڈز اور تعمیر کیے گئے ویٹ لینڈز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

٭ قدرتی ویٹ لینڈز

قدرتی طور پر بنے ہوئے ویٹ لینڈز ماسوائے انٹارکٹیکا دنیا کے ہر خطے میں ہیں۔ ویٹ لینڈ ز میں تازہ اور سمندری دونوں طرح کا پانی ہوسکتا ہے۔ قدرتی طور پر بنے ویٹ لینڈز کو مزید چار اقسام سوامپ (دریاؤں کے کنارے بنے جنگلات)، مارشیس(ایسی جگہ جہاں درختوں کے بجائے چھوٹے خودرو پودے ہوں)، بوگس (ایسی جگہ جہاں مردار درختوں کے گلنے سڑنے کا عمل جاری ہو) اور فینز (ایسی جگہ جہاں گھاس، مردار درخت اور پودے ہوں) میں تقسیم کیا جاتا ہے، جب کہ مینگروز، کار، پوکوسین اور وارزیا کے جنگلات ان کی ذیلی اقسام ہیں۔ قدرتی ویٹ لینڈزآبی ایکو سسٹم کو برقرار میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ویٹ لینڈز پانی میں سے نائٹروجن ، فاسفورس اور اس نوعیت کی دیگر زہریلی گیسوں کو جذب کرکے زیرآب موجود پانی کو صاف اور زیرزمین نفوذ پذیر چٹانوں میں پانی کی مقدار میں اضافہ کرتے ہیں۔

٭ تعمیر کیے گئے ویٹ لینڈز

کارخانوں اور رہائشی علاقوں سے نکلنے والے آلودہ پانی کو ٹریٹ کرنے کے لیے مصنوعی ویٹ لینڈز تعمیر کیے جاتے ہیں۔ قدرتی ویٹ لینڈز کی طرح یہ بھی بائیو فلٹر کا کام کرتے ہیں۔ مصنوعی ویٹ لینڈز بنیادی طور پر سینی ٹیشن ٹیکنالوجی ہے جو نہ صرف پیتھوجینز (متعدی بیماریاں پھیلانے والا ایک جرثومہ) کو ختم کرتا ہے بل کہ آرگینک مادوں، اور بھاری دھاتوں کو صاف کرکے پانی کے معیار کو مزید بہتر بناتا ہے۔ مصنوعی ویٹ لینڈز آلودہ پانی کو صاف کرکے زیر زمین پانی کو استعمال کے قابل بنانے میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔

٭ری فاریسٹٹیشن

کسی میدانی مقام پر شجرکاری کرکے جنگلات بنانے کا عمل ری فاریسٹٹیشن کہلاتا ہے۔ یہ عمل ماحولیاتی نظام کی بقا میں اہم کردار ادا کرتا ہے، تو دوسری جانب یہ طریقہ پانی کی قلت کے خاتمے کے لیے بہت ضروری ہے۔ جنگلات نہ صر ف مٹی کو پانی کے ساتھ بہنے سے روکتے ہیں بل کہ انفلٹریشن کے عمل کے ذریعے مٹی میں پانی کو جذب کرتے ہیں، جس سے زیرزمین چٹانوں اور مٹی کا کٹاؤ رُکتا ہے۔ جنگلات اس عمل کے ذریعے سیلاب اور بارشوں کے پانی کو جذب کرکے ایکوا فرز میں پانی کی مقدار میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔ جنگلات کی وجہ سے پانی کے معیار میں بہتری آتی ہے اور یہ پانی کے چکر (واٹر سائیکل) کو بھی باقاعدہ کرتا ہے۔ دنیا بھر میں پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانے کے لیے قدرتی اور مصنوعی جنگلات بنانے میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، لیکن ہمارے ملک میں قیمتی لکڑی کے حصول کے لیے پورے پورے جنگلات کاٹ کر انہیں چٹیل میدانوں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

٭ ری پیرین بفر اسٹرپ (آبی گزرگاہوں کے کنارے یا دونوں اطراف شجرکاری)

پانی کو محفوظ کرنے کے ری پیرین بفر اسٹرپ کا طریقہ بھی دنیا کے بہت سے ممالک میں رائج ہے۔ اس طریقۂ کار میں پانی کے ساتھ ایسی جگہوں پر جہاں فارمنگ کی ممانعت ہو وہاں درخت لگائے جاتے ہیں، لیکن اس کے لیے کچھ قوانین رائج ہیں جیسا کہ کھاد، کٹائی اور جانوروں کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے اور مخصوص درختوں کو اپنے طور پر خود ہی بڑھوتری کرنے دی جاتی ہے۔ یہ طریقۂ کار مٹی کے بہاؤ کو روکنے کے لیے کئی سال سے رائج ہے۔ اس طریقے پر عمل کرنے سے پانی آلودگی سے بچ جاتا ہے، آبی گزرگاہوں میں بہتری آتی ہے اور جنگلی حیات کو تحفظ ملتا ہے۔ ری پیریئن زون (وہ جگہ جہاں یہ درخت لگے ہوں) نہ صرف پانی کے معیار کو بہتر بناتے ہیں بل کہ اسے ضایع ہونے سے بچانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ گاد، نائٹروجن، فاسفورس، کیڑے اور جڑی بوٹی مار ادویات کو صاف پانی میں شامل ہونے سے روکتا ہے، جب کہ ان درختوں کی جڑیں سیلابی پانی کا بہاؤ سست کرکے مٹی کے کٹاؤ روک کر مٹی کو زیادہ سے زیادہ پانی جذب کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔

دنیا بھر میں زیرزمین پانی کے کم ہوتے ذخائر

دنیا بھر میں زیرزمین پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔ ناسا کے نئے سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق دنیا بھر کے اربوں لوگوں کو تازہ پانی فراہم کرنے والے زیرزمین ایکوافرز (زیرزمین نفوذ پذیر چٹانیں جن کی تہہ میں پانی موجود ہوتا ہے) میں پانی کی مقدار خطرناک حد تک ختم ہوچکی ہے۔

بھارت سے چین اور امریکا سے فرانس تک موجود دنیا کے 37 بڑے ایکوافرز میں سے 21 ایکوافرز میں پانی اپنی آخری حد سے نیچے آچکا ہے۔ دس سال پر محیط اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ان 21 میں سے 13ایکوافرز میں پانی انتباہی حد کو بھی عبور کرکے سب سے خطرناک درجے میں آچکا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پانی کے یہ ذخائر بڑھتی ہوئی آبادی، زراعت اور کان کنی جیسی صنعتوں کی وجہ سے اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں، کیوں کہ ان سب ضروریات کے لیے پانی کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور انسانوں کا پانی کی بچت کرنے کے بجائے زیرزمین پانی پر انحصار دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔

ناسا کے واٹر Jay Famiglietti کا اس بابت کہنا ہے،’’یہ صورت حال بہت پیچیدہ ہے۔ دنیا بھر کی آبادی کے استعمال کے لیے یہ ایکوافرز 35 فی صد پانی فراہم کرتے ہیں، لیکن خشک سالی کی صورت میں پانی کھینچنے کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مثال کے طور بارش کے نہ ہونے کی وجہ سے صرف کیلی فورنیا میں ایکوافرز کا 60 فی صد پانی استعمال کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے دریا اور زمین کی اوپری سطح پر موجود پانی کے دیگر ذخائر (تالاب، جھیل وغیرہ) خشک ہوچکے ہیں۔

پاکستان کی صورت حال

دوسری طرف انڈیا، پاکستان اور شمالی افریقا جیسے گنجان آبادی والے خطوں میں ایکوافرز کی صورت حال زیادہ خراب ہے، کیوں کہ ان خطوں میں پانی کے محدود متبادل اور قلت ان ایکوافرز کو زیادہ تیزی سے غیرمستحکم کر سکتی ہے۔‘‘ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے نتیجے میں پاکستان میں اوسط درجۂ حرارت میں خطرناک حد تک اضافہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ درجۂ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لیے قبل از وقت اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے سالوں کے دوران پاکستان میں قدرتی آفات کی شرح میں مزید اضافہ ہونے کے ساتھ خوراک، توانائی اور پانی کا شدید بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ میں اضافے کے باعث اوسط درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے، تاہم دیگر ملکوں کی نسبت پاکستان میں اوسط درجۂ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ دستاویزات کے مطابق گذشتہ 100 سال کے دوران دنیا کے اوسط درجۂ حرارت میں 0.6 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو رواں صدی کے دوران درجۂ حرارت کی اوسط شرح 1.8 سے4.0 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ سکتی ہے۔ دستاویز کے مطابق باقی دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں گذشتہ 60 سال کے دوران اوسط درجۂ حرارت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق1901 سے 1956 تک پاکستان سمیت پوری دنیا میں اوسط درجۂ حرارت 0.6 رہا۔ 1956سے 1971تک دنیا کا اوسط درجۂ حرارت 0.128 رہا، جب کہ پاکستان میں اس دوران اوسط درجۂ حرارت 0.16 رہا۔ 1971سے 1981تک دنیا کا اوسط درجۂ حرارت 0.152 رہا، جب کہ پاکستان میں اس دوران 0.26 رہا۔1981 سے1991 تک دنیا کا اوسط درجۂ حرارت 0.177 رہا، جب کہ پاکستان میں0.39 رہا۔1991 سے2005 تک دنیا میں اوسط درجۂ حرارت 0.333 رہا، جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان میں0.74 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔

2010 سے 2039 تک دنیا کا اوسط درجۂ حرارت 0.7 رہے گا، جب کہ اس دوران پاکستان میں درجۂ حرارت 1 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جائے گا۔ ملک کے اوسط درجۂ حرارت میں اس قدر تیزی سے اضافے کے باعث آئندہ سال کے دوران پاکستان میں قدرتی آفات کے ساتھ ساتھ صاف پانی کی قلت میں خطرناک حد تک اضافہ ہو نے کا امکان ہے۔

ان مسائل کو حل کرنے پر کس قدر توجہ دی جارہی ہے، اس سے سب واقف ہیں۔ بے حسی اور غفلت ہماری قومی شناخت بن چکی ہے۔ اس لیے پانی کے معاملے میں بھی ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں یا محض کاغذی یا دکھاوے کی کارروائیوں پر گزارہ کر رہے ہیں۔ سماجی شعور کی پستی اس معاملے میں بھی اپنے تماشے دکھا رہی ہے۔ مثال کے طور پر؛ نہاتے ہوئے، حجامت بناتے ہوئے، کپڑے برتن دھوتے ہوئے پانی کا نَل کھلا رکھا جاتا ہے، اتنا پانی ان کاموں میں صرف نہیں ہوتا جتنا پانی ہم نلکا کُھلا چھوڑ کر ضایع کر دیتے ہیں۔

ہم ایک واٹر بال لگا کر ٹینک سے بہنے والے پانی کو بچانے کی کوشش نہیں کرتے، سڑکیں تالاب بنتی ہیں بن جائیں لیکن ہم چند سو روپے کی واٹر بال لگانے کی زحمت نہیں کرتے، باغیچوں میں پانی دینے کے لیے پھوار کے بجائے پائپ کے ذریعے اسے تالاب بنا دیتے ہیں۔ گاڑی کو ایک بالٹی پانی سے بھی بہ آسانی صاف کیا جاسکتا ہے لیکن ہم اپنی شان و شوکت ظاہر کرنے کے لیے گھر کے باہر کھڑے ہوکر کئی گیلن پانی گاڑی پر بہا دیتے ہیں۔ جس طرح ہم وقت جیسی نعمت کی قدر نہیں کرتے اسی طرح ہمارے لیے پانی بھی ایک بے وقعت شے ہے اور ہمارا یہ انفرادی رویہ ہماری بے حسی اور شعوری فقدان کا جیتا جاگتا نمونہ ہے۔

ساتھ ساتھ پاکستان میں صاف پانی کی نایابی اور منہگائی خوف ناک ترین شکل اختیار کرچکی ہے۔ وسائل کی غیر یکساں تقسیم اور صاحب اقتدار لوگوں کی ہوسِ زر نے عوام کو زندہ درگور کردیا ہے۔ اس بہتی گنگا میں ہر فرد، ہر ادارہ حسب استطاعت ہاتھ دھو رہا ہے۔ کثیرالقومی کمپنیاں سالوں تک ’منرل واٹر‘ کے نام پر فلٹر واٹر پلاتی رہیں تو مقامی کمپنیاں فلٹر واٹر کے نام پر لوگوں کو آلودہ پانی خوب صورت پیکنگ میں منہگے داموں فروخت کر رہی ہیں۔ جن لوگوں کے اس پانی کو خریدنے کی استطاعت نہیں وہ گلی محلوں، چھوٹی دکانوں میں ’فلٹر واٹر‘ کے نام پر اپنا ہی چوری کیا ہوا پانی خرید رہے ہیں۔

اوپر سے لے کر نیچے تک کوئی انہیں دیکھنے والا نہیں، کوئی جواب دہی کرنے والا نہیں کہ جی آپ ایک غیرمعیاری فلٹر اور بالائے بنفشی ٹیوب لائٹ لگا کر پانی کو کیسے فلٹر کر رہے ہیں، اسی طرح مرغی خانوں کے درمیان مضافاتی علاقوں میں قایم کثیرالقومی کمپنی سے یہ نہیں پوچھتا کہ جی آپ نے اتنے آلودہ بدبودار ماحول میں صاف پانی کی فراہمی کا دعویٰ کیسے کر رہے ہیں؟ عوام کو لوٹنے کھسوٹنے کا سلسلہ جاری ہے اور لگتا یہی ہے کہ آئندہ بھی جاری ہی رہے گا، کیوں کہ جب تک ہم خود کو ٹھیک نہیں کریں گے، باشعور نہیں ہوں گے، اس وقت دنیا کی کوئی طاقت ہمیں غربت، جہالت سے نہیں نکال سکتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔