سوات اور پشاور میں دہشت گردی کی وارداتیں
پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں مختلف جہتوں میں ہوتی ہیں۔
سوات میں دہشت گردی کی واردات سے ایک دن پہلے پشاور کے نواحی علاقے متنی میں مسافر کوچ میں دھماکے سے نو افراد جاں بحق دس شدید زخمی ہوگئے. فوٹو: اے پی پی
عام انتخابات میں حصہ لینے والے امید وار اور سیاسی جماعتیں اپنی اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر چکی ہیں۔ کارنر میٹنگز شروع ہوچکی ہیں لیکن اس وقت میں سے بڑا خطرہ دہشت گردوں سے ہے کیونکہ یہ عناصر ملک دشمن قوتوں کے ایما پر امن و امان خراب کر کے عام انتخابات ملتوی کرانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔اتوار کوسوات میں عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن مکرم شاہ ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہوگئے ہیں۔
اے این پی کے لیڈروں اور کارکنوں پر پہلے بھی قاتلانہ حملے ہوتے رہے ہیں، موجودہ حالات میں اس جماعت کے کارکنوں اور اسمبلی کے امیدواروں پر مزید حملے ہوسکتے ہیں۔سوات میں دہشت گردی کی واردات سے ایک دن پہلے پشاور کے نواحی علاقے متنی میں مسافر کوچ میں دھماکے سے نو افراد جاں بحق دس شدید زخمی ہوگئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔دہشت گردی کی یہ واردات بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ادھر اسی روز تھانہ بڈھ بیر کے مال خانے میں چار سے پانچ من بارود دھماکوں کی صورت میں پھٹ گیا جس سے تھانے کی عمارت اور پانچ قریبی مکانات تباہ ہوگئے۔اسے کوئی حادثہ بھی قراردیا جاسکتا ہے، اس کی تفصیلات تو تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئیں گی۔
پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں مختلف جہتوں میں ہوتی ہیں۔ پشاور میں مسافر بس کو نشانہ بنانے کی یہ کوئی پہلی واردات نہیں تھی، اس طرح کی وارداتیں چلتی بس میں بھی ہوئی ہیں اور ٹرانسپورٹ کے اڈوں میں کھڑی بسوں میں دھماکا کرکے بھی بے گناہ شہریوں کے خون سے ہاتھ رنگے گئے ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے یا متعلقہ اداروں کی تغافل شعاری کہ ہر افسوسناک واقعے خصوصاً دھماکے کے بعد تفتیشی ٹیمیں موقع پر پہنچ کر یہ انکشاف کردیتی ہیں کہ دھماکے میں اتنا بارود استعمال ہوا یا زیادہ سے زیادہ یہ بتاکر قوم کو مطمئن کردیا جاتا ہے کہ خودکش حملہ آور کا سر مل گیا ہے۔
آج تک جتنے بھی خود کش حملہ آوروں کے اعضاء ملے ہیں ان میں سے کتنوں کے ڈی این اے ٹیسٹ ہوئے ہیں، کتنے ٹیسٹوں کا نتیجہ کیا برآمد ہوا ہے اور اس قسم کے واقعات کی تفتیش میں مزید کیا کیا انکشافات ہوئے ہیں؟ قوم کو اس حوالے سے تفصیلات اور حقائق کا انتظار ہی رہے گا۔ فاٹا اور خیبرپختونخوا میں اکثر امن لشکروں سے وابستہ افراد یا کسی خاص مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، ایسے افراد کو کسی مسافر گاڑی، کسی ٹرانسپورٹ کے اڈے میں بھی معاف نہیں کیا جاتا مگر اس قسم کے افسوسناک واقعات کے بعد بھی متعلقہ اداروں نے مسافر گاڑیوں کی چیکنگ کا کوئی مناسب انتظام وضع کیا ہے اور نہ ٹرانسپورٹ کے اڈوں میں سکیورٹی کا معقول انتظام ہے۔
وی آئی پی مقامات پر جس طرح سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ہیں اور سکیورٹی کے غیرمعمولی انتظامات دیکھنے کو ملتے ہیں، بازاروں میں تاجر تنظیموں نے اپنے طور پر سکیورٹی کے انتظامات کررکھے ہیں، پولیس اور دیگر ادارے بھی خاص مقامات پر چوکس نظر آتے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ متعدد وارداتوں کے باوجود ٹرانسپورٹ اڈے سکیورٹی اداروں کی نظروں سے اوجھل ہیں اور یہاں آنے اور جانے والوں کو انسانی جان کا درجہ نہیں دیا جارہا؟
خیبرپختونخوا میں انتخابی سرگرمیاں امن و امان کی غیرتسلی بخش صورتحال کی وجہ سے پوری شدت کے ساتھ شروع نہیں کی جاسکیں، سوات اور پشاور کے افسوسناک واقعے نے ایک بار پھر قوم کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے اس سے قبل پشاور میں شیخ محمدی گرڈ اسٹیشن پر ہونے والے افسوسناک حملے اور پشاور، بنوں اور دیگر علاقوں میں اے این پی اور آزاد امیدواروں پر ہونے والے قاتلانہ حملوں کے بعد لگتا تھا کہ ایک بار پھر فاٹا اور خیبرپختونخوا کے عوام پر کڑا وقت آنے والا ہے اور اب سوات میں اے این پی کے رہنما کا دھماکے میں جاں بحق ہونا ثابت کرتا ہے کہ ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والے عناصر پوری طرح سرگرم ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان لوگوں کو پی پی پی، اے این پی اور ایم کیو ایم کے جلسوں سے دور رہنے کی تنبیہہ کرچکے ہیں، دیکھنا اب یہ ہے کہ فاٹا اور خیبرپختونخوا کے عوام ماضی کی طرح کس عزم اور حوصلے سے موجودہ اور آنے والے حالات کا مقابلہ کرتے ہیں اور قوم کو الیکشن کی صورت میں تبدیلی کا جو موقع ملا ہے اس سے کس طریقے سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ امن و امان کی اسی قسم کی صورتحال کی وجہ سے فاٹا اور خیبرپختونخوا میں ایک عجیب قسم کی غیریقینی کی صورتحال پائی جاتی ہے، امیدوار اپنی اپنی انتخابی مہم کے لیے پریشان ہیں تو سیاسی جماعتوں کو بھی فکر ہے کہ وہ گیارہ مئی تک کا سفر کیسے طے کریں گی۔ انھی حالات کی وجہ سے متعدد امیدواروں نے ابھی تک ایک بھی جلسہ نہیں کیا، سارا زور کارنر میٹنگز اور ڈور ٹو ڈور کمپین پر دیا جارہا ہے۔
ان حالات میں متعلقہ اداروں پر بھاری ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ معمول کی سرگرمیوں سے ہٹ کر بھی کچھ کردکھائیں، سیاسی جماعتوں پر اداروں سے بھی زیادہ ذمے داریاں ہیں، سیاسی جماعتیں اور عوام کا تعاون شامل حال رہے تو متعلقہ اداروں کی کارکردگی میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ خیبر پختونخوا میں حالیہ دہشت گردی کو معمول کی کارروائی نہ سمجھا جائے' عام انتخابات کے دنوں میں ایسی وارداتیں ہونا' ملک میں انتخابی ماحول کو متاثر کر سکتی ہیں۔ بلوچستان اور کراچی کی صورت حال سب کے سامنے ہے'یہاں آئے روز تخریب کاری اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں ہوتی رہتی ہے۔
پنجاب میں اور اندرون سندھ صورت حال قدرے بہتر ہے' اگر پنجاب اور اندرون سندھ میں بھی دہشت گرد کوئی واردات کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو صورت حال خراب ہو سکتی ہے' ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو اس صورتحال میں خود کو محض اپنی انتخابی مہم چلانے تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی جلسوں کی حفاظت کا انتظام بھی خود کریں اور سکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کریں' اس طریقے سے حالات کو کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے۔نگراں حکومت کو بھی اس حوالے سے اپنا لائحہ عمل طے کرنا چاہیے اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو سیکیورٹی کے حوالے سے اعتماد میں لینا چاہیے تاکہ عام انتخابات پرامن ماحول میں ہوسکیں۔
اے این پی کے لیڈروں اور کارکنوں پر پہلے بھی قاتلانہ حملے ہوتے رہے ہیں، موجودہ حالات میں اس جماعت کے کارکنوں اور اسمبلی کے امیدواروں پر مزید حملے ہوسکتے ہیں۔سوات میں دہشت گردی کی واردات سے ایک دن پہلے پشاور کے نواحی علاقے متنی میں مسافر کوچ میں دھماکے سے نو افراد جاں بحق دس شدید زخمی ہوگئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔دہشت گردی کی یہ واردات بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ادھر اسی روز تھانہ بڈھ بیر کے مال خانے میں چار سے پانچ من بارود دھماکوں کی صورت میں پھٹ گیا جس سے تھانے کی عمارت اور پانچ قریبی مکانات تباہ ہوگئے۔اسے کوئی حادثہ بھی قراردیا جاسکتا ہے، اس کی تفصیلات تو تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئیں گی۔
پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں مختلف جہتوں میں ہوتی ہیں۔ پشاور میں مسافر بس کو نشانہ بنانے کی یہ کوئی پہلی واردات نہیں تھی، اس طرح کی وارداتیں چلتی بس میں بھی ہوئی ہیں اور ٹرانسپورٹ کے اڈوں میں کھڑی بسوں میں دھماکا کرکے بھی بے گناہ شہریوں کے خون سے ہاتھ رنگے گئے ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے یا متعلقہ اداروں کی تغافل شعاری کہ ہر افسوسناک واقعے خصوصاً دھماکے کے بعد تفتیشی ٹیمیں موقع پر پہنچ کر یہ انکشاف کردیتی ہیں کہ دھماکے میں اتنا بارود استعمال ہوا یا زیادہ سے زیادہ یہ بتاکر قوم کو مطمئن کردیا جاتا ہے کہ خودکش حملہ آور کا سر مل گیا ہے۔
آج تک جتنے بھی خود کش حملہ آوروں کے اعضاء ملے ہیں ان میں سے کتنوں کے ڈی این اے ٹیسٹ ہوئے ہیں، کتنے ٹیسٹوں کا نتیجہ کیا برآمد ہوا ہے اور اس قسم کے واقعات کی تفتیش میں مزید کیا کیا انکشافات ہوئے ہیں؟ قوم کو اس حوالے سے تفصیلات اور حقائق کا انتظار ہی رہے گا۔ فاٹا اور خیبرپختونخوا میں اکثر امن لشکروں سے وابستہ افراد یا کسی خاص مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، ایسے افراد کو کسی مسافر گاڑی، کسی ٹرانسپورٹ کے اڈے میں بھی معاف نہیں کیا جاتا مگر اس قسم کے افسوسناک واقعات کے بعد بھی متعلقہ اداروں نے مسافر گاڑیوں کی چیکنگ کا کوئی مناسب انتظام وضع کیا ہے اور نہ ٹرانسپورٹ کے اڈوں میں سکیورٹی کا معقول انتظام ہے۔
وی آئی پی مقامات پر جس طرح سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ہیں اور سکیورٹی کے غیرمعمولی انتظامات دیکھنے کو ملتے ہیں، بازاروں میں تاجر تنظیموں نے اپنے طور پر سکیورٹی کے انتظامات کررکھے ہیں، پولیس اور دیگر ادارے بھی خاص مقامات پر چوکس نظر آتے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ متعدد وارداتوں کے باوجود ٹرانسپورٹ اڈے سکیورٹی اداروں کی نظروں سے اوجھل ہیں اور یہاں آنے اور جانے والوں کو انسانی جان کا درجہ نہیں دیا جارہا؟
خیبرپختونخوا میں انتخابی سرگرمیاں امن و امان کی غیرتسلی بخش صورتحال کی وجہ سے پوری شدت کے ساتھ شروع نہیں کی جاسکیں، سوات اور پشاور کے افسوسناک واقعے نے ایک بار پھر قوم کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے اس سے قبل پشاور میں شیخ محمدی گرڈ اسٹیشن پر ہونے والے افسوسناک حملے اور پشاور، بنوں اور دیگر علاقوں میں اے این پی اور آزاد امیدواروں پر ہونے والے قاتلانہ حملوں کے بعد لگتا تھا کہ ایک بار پھر فاٹا اور خیبرپختونخوا کے عوام پر کڑا وقت آنے والا ہے اور اب سوات میں اے این پی کے رہنما کا دھماکے میں جاں بحق ہونا ثابت کرتا ہے کہ ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والے عناصر پوری طرح سرگرم ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان لوگوں کو پی پی پی، اے این پی اور ایم کیو ایم کے جلسوں سے دور رہنے کی تنبیہہ کرچکے ہیں، دیکھنا اب یہ ہے کہ فاٹا اور خیبرپختونخوا کے عوام ماضی کی طرح کس عزم اور حوصلے سے موجودہ اور آنے والے حالات کا مقابلہ کرتے ہیں اور قوم کو الیکشن کی صورت میں تبدیلی کا جو موقع ملا ہے اس سے کس طریقے سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ امن و امان کی اسی قسم کی صورتحال کی وجہ سے فاٹا اور خیبرپختونخوا میں ایک عجیب قسم کی غیریقینی کی صورتحال پائی جاتی ہے، امیدوار اپنی اپنی انتخابی مہم کے لیے پریشان ہیں تو سیاسی جماعتوں کو بھی فکر ہے کہ وہ گیارہ مئی تک کا سفر کیسے طے کریں گی۔ انھی حالات کی وجہ سے متعدد امیدواروں نے ابھی تک ایک بھی جلسہ نہیں کیا، سارا زور کارنر میٹنگز اور ڈور ٹو ڈور کمپین پر دیا جارہا ہے۔
ان حالات میں متعلقہ اداروں پر بھاری ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ معمول کی سرگرمیوں سے ہٹ کر بھی کچھ کردکھائیں، سیاسی جماعتوں پر اداروں سے بھی زیادہ ذمے داریاں ہیں، سیاسی جماعتیں اور عوام کا تعاون شامل حال رہے تو متعلقہ اداروں کی کارکردگی میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ خیبر پختونخوا میں حالیہ دہشت گردی کو معمول کی کارروائی نہ سمجھا جائے' عام انتخابات کے دنوں میں ایسی وارداتیں ہونا' ملک میں انتخابی ماحول کو متاثر کر سکتی ہیں۔ بلوچستان اور کراچی کی صورت حال سب کے سامنے ہے'یہاں آئے روز تخریب کاری اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں ہوتی رہتی ہے۔
پنجاب میں اور اندرون سندھ صورت حال قدرے بہتر ہے' اگر پنجاب اور اندرون سندھ میں بھی دہشت گرد کوئی واردات کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو صورت حال خراب ہو سکتی ہے' ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو اس صورتحال میں خود کو محض اپنی انتخابی مہم چلانے تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی جلسوں کی حفاظت کا انتظام بھی خود کریں اور سکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کریں' اس طریقے سے حالات کو کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے۔نگراں حکومت کو بھی اس حوالے سے اپنا لائحہ عمل طے کرنا چاہیے اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو سیکیورٹی کے حوالے سے اعتماد میں لینا چاہیے تاکہ عام انتخابات پرامن ماحول میں ہوسکیں۔