فتح جنگ NA57 NA58 طاہر صادق نے آزاد گروپ تشکیل دیدیا
اگر ووٹر کسی پارٹی کے حق میں اپنی رائے نہیں دیتا تو پھر اس کے ووٹر سے منتخب ہونے والے نمائندہ کو کسی پارٹی کو جائن۔۔۔
اگر ووٹر کسی پارٹی کے حق میں اپنی رائے نہیں دیتا تو پھر اس کے ووٹر سے منتخب ہونے والے نمائندہ کو کسی پارٹی کو جائن کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔ فوٹو: فائل
الیکشن 2013 میں ضلع اٹک کے حلقہ این اے57 پر تحریک انصاف کے ملک امین اسلم اور ن لیگ کے شیخ آفتا ب احمد میں زبردست مقابلہ متوقع ہے جبکہ دیگر گروپ اور پارٹیاں پیچھے نظر آرہی ہیں۔
دوسری طرف جنڈ، پنڈی گھیب تحصیلوںپر مشتمل این اے 58کے میں مقابلہ تحریک انصاف کے ملک سہیل خان اور میجر طاہر گروپ کے امیدوار میں ہوگا۔ یہاں پیپلزپارٹی اور ن لیگ پیچھے نظر آرہی ہیں۔ ان دونوں حلقوں میں تحریک انصاف کی برتری کی وجہ مضبوط پینل کے علاوہ عمران خان کا ویژن ہے۔قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے سے قبل ہی ضلع اٹک میں سیاسی جوڑ توڑ شروع ہوچکا تھا۔ مختلف جماعتوں میں ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے قطاروں میں کھڑے امیدواروں کو مقصد میں کامیابی نظر نہ آنے کی وجہ سے اپنی اپنی پارٹیوں اور گروپوں سے دیگر منزل کی طرف یا تو اڑان کر چکے ہیں یا پر تول رہے ہیں۔
قومی اسمبلی کی تین اور صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر 2008ء کے انتخاب میں پیپلزپارٹی کے سردار سلیم حیدر نے قومی اسمبلی جبکہ ملک شاہان حاکمین اور ملک خرم خان نے صوبائی سیٹوں پر (ق لیگ) کے چوہدری پرویز الٰہی نے قومی اسمبلی جبکہ ملک اعتبار خان اور چوہدری شیر علی خان نے صوبائی سیٹوں ،مسلم لیگ ن کے شیخ آفتاب احمد نے قومی اورآزاد امیدوار کرنل شجاع خانزادہ نے صوبائی سیٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔
11 مئی 2013 کے آمدہ انتخابات میں ق لیگ اورپیپلزپارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہوا ہے مگر ضلع اٹک میں ق لیگ کے سرکردہ لیڈر جو چوہدری برادران کے بہنوئی ہیں انہوں نے جماعتی فیصلے سے بغاوت کرتے ہوئے بطور آزادگروپ الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے حالانکہ حکومت کے آخری روز یعنی 16مارچ 2013ء تک تو میجر طاہر صادق چودھری پرویز الٰہی سے اپنی رشتہ داری کی بنا پر ان کی وزارت کے اختیارات استعمال کرکے مزے لوٹتے رہے مگر اس الیکشن میں ضلع کی تمام نشستوں پر کامیابی کی خوش فہمی میں ق لیگ سے بغاوت کرکے بطور آزاد گروپ پنچہ آزمائی کا قصد کر چکے ہیں۔ اصل سیاسی میدان فتح جنگ ، حسن ابدال تحصیلوںپر مشتمل تین لاکھ سات ہزار سے زائد رجسٹرڈ ووٹوں کے حلقہ این اے 59اور پی پی17کی نشستوں پر ہے۔
جہاں پیپلزپارٹی کے آصف علی ق لیگ (میجر گروپ) کے سردار زین الٰہی اور جماعت اسلامی کے سردار امجد علی خان اور جمعیت العلماء فضل الرحمن کے امیدوار کے درمیان مقابلہ ہورہا ہے۔ پی پی17 کی نشست پر پیپلزپارٹی نے ریاض خان بالڑہ کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیاہے جو سیاسی بادشاہ گر کے طور پر جانے جاتے ہیں اور علاقے کے غریبوں اور مزارعین کے مدد گارکے طورپرمشہور شخصیت ہیں۔وہ نواز خان بالڑہ(مرحوم)کے فرزند ہیں جنہوں نے ابھی تک اپنے باپ کے مداحوں سے رشتہ بدستور جوڑا ہوا ہے۔
حلقے میں کوئی گاؤں یا شہر کا کوئی محلہ ایسانہیں جہاں ریاض خان بالڑہ موجود نہ ہو۔ یہ اپنا خاص ووٹ بینک رکھتے ہیں ۔ اس میں ایک خاص بات یہ ہے کہ الیکشن میں اٹھنے والے اخراجات ان کی اپنی جیب کی بجائے اس کے مداح ہی برداشت کرتے ہیں۔چند ماہ قبل تک سردار سلیم حیدر خان کی کامیابی بڑی واضح نظر آ رہی تھی مگر یکے بعد دیگرے حاجی اشتیاق احمد خان ، سردار افتخار احمد خان، سردار ممتاز خان ماجھیا ، سردار احسن خان، ڈاکٹر زبیر یوسف ، قاضی گلزار حسین، حاجی شفیق ، سابق ناظم غفور مغل اور دیگر درجنوں کارکن اور قابل ذکر دھڑوں کے چھوڑ جانے سے ان کی پوزیشن کمزورہوگئی تھی مگر ریاض خان بالڑہ کی حمایت سے اب نہ صرف وہ مقابلے کی پوزیشن میں آگئے ہیں بلکہ کامیابی حاصل کرنے کے قابل ہوچکے ہیں۔
ن لیگ اگر پارٹی ٹکٹ چوہدری شیر علی خان کودیتی تووہ پیپلز پارٹی کے امیدوار سے مقابلہ کی پوزیشن میں آجاتے ۔ میجر طاہر صادق خان نے اس حلقہ میں اپنے بیٹے زین الٰہی کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے جو ابھی نا تجربہ کار ہیں۔ عوامی رائے جاننے کے لیے جب حلقے کا سروے کیا گیا تو یہ بات عام طور پر سننے میں آئی کہ آزاد امیدوار کو ووٹ دینا ووٹروں کے مینڈیٹ کی خلاف ورزی ہوگی کیونکہ اگر ایک ووٹر کسی ایک پارٹی کے منشور سے اتفاق کرتا ہے تو اسے اس پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینا چاہیے۔
اگر ووٹر کسی پارٹی کے حق میں اپنی رائے نہیں دیتا تو پھر اس کے ووٹر سے منتخب ہونے والے نمائندہ کو کسی پارٹی کو جائن کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔ اگر اس عوامی رائے کو ذہن میں رکھا جائے تو حلقہ این اے 59میں سردار سلیم حیدر خان اور سردار محمد علی خان کے درمیان مقابلہ نظر آتاہے۔ اس حلقہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ صوبائی وزیر سردار سکندر حیات خان بطور آزاد امیدوار انتخاب لڑنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں جن کی وجہ سے میجر طاہر خود کو کافی نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ سردار سکندرحیات خان کا تعلق بھی کھٹڑ قبیلے سے ہے۔
صوبائی نشست پی پی17پر اس وقت پیپلزپارٹی کے ریاض خان بالڑہ آزاد گروپ کے ملک جمشید الطاف جماعت اسلامی کے اقبال خان ، مسلم لیگ ن کے امیدواروں سردار ممتازخان ماجھیا، شاہ ویز خان میں سے کسی ایک اور تحریک انصاف کے محمد اکبرخان تنولی میں مقابلہ ہوگا۔مسلم لیگ ن کے شاہ ویز خان کے کاغذات نامزدگی مستردہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آزاد میجر طاہر گروپ کے ایک بہت ہی اہم دھڑے کا سربراہ پس پردہ مسلم لیگ ن کے صوبائی ٹکٹ کے لیے کوشاں ہے۔ اگر شاہ ویز خان کے کاغذاتِ نامزدگی ٹریبونل نے بھی بحال نہ کیے تو قوی امکان ہے کہ مسلم لیگ ن کا ٹکٹ اسے مل جائے۔ موجودہ صورتحال میں ریاض خان بالڑہ کا پلڑہ بھاری نظر آرہا ہے۔
ریاض خان بالڑہ کا مقابلہ صرف تحریک انصاف کے صوبائی امیدوار محمد اکبر خان تنولی سے ہونے کی توقع ہے کیونکہ اس امیدوار کا تعلق تحصیل حسن ابدال سے ہے اور شا ہ ویز خان کے کاغذات منظور نہ ہونے کی صورت میں تحصیل حسن ابدال کے رائے دہندہ گان اپنی تحصیل کے باسی کے حق میں رائے دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ۔ سر دست ضلع بھر میں پاکستان تحریک انصاف کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے جبکہ این اے 56 اور پی پی17 میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن بہتر نظر آرہی ہے۔ ضلع اٹک کے عوام کس کے سر پر تاج سجاتے ہیں اس کیلئے 11مئی 2013ء کے دن کا انتظار کرنے پڑے گا۔
دوسری طرف جنڈ، پنڈی گھیب تحصیلوںپر مشتمل این اے 58کے میں مقابلہ تحریک انصاف کے ملک سہیل خان اور میجر طاہر گروپ کے امیدوار میں ہوگا۔ یہاں پیپلزپارٹی اور ن لیگ پیچھے نظر آرہی ہیں۔ ان دونوں حلقوں میں تحریک انصاف کی برتری کی وجہ مضبوط پینل کے علاوہ عمران خان کا ویژن ہے۔قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے سے قبل ہی ضلع اٹک میں سیاسی جوڑ توڑ شروع ہوچکا تھا۔ مختلف جماعتوں میں ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے قطاروں میں کھڑے امیدواروں کو مقصد میں کامیابی نظر نہ آنے کی وجہ سے اپنی اپنی پارٹیوں اور گروپوں سے دیگر منزل کی طرف یا تو اڑان کر چکے ہیں یا پر تول رہے ہیں۔
قومی اسمبلی کی تین اور صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر 2008ء کے انتخاب میں پیپلزپارٹی کے سردار سلیم حیدر نے قومی اسمبلی جبکہ ملک شاہان حاکمین اور ملک خرم خان نے صوبائی سیٹوں پر (ق لیگ) کے چوہدری پرویز الٰہی نے قومی اسمبلی جبکہ ملک اعتبار خان اور چوہدری شیر علی خان نے صوبائی سیٹوں ،مسلم لیگ ن کے شیخ آفتاب احمد نے قومی اورآزاد امیدوار کرنل شجاع خانزادہ نے صوبائی سیٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔
11 مئی 2013 کے آمدہ انتخابات میں ق لیگ اورپیپلزپارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہوا ہے مگر ضلع اٹک میں ق لیگ کے سرکردہ لیڈر جو چوہدری برادران کے بہنوئی ہیں انہوں نے جماعتی فیصلے سے بغاوت کرتے ہوئے بطور آزادگروپ الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے حالانکہ حکومت کے آخری روز یعنی 16مارچ 2013ء تک تو میجر طاہر صادق چودھری پرویز الٰہی سے اپنی رشتہ داری کی بنا پر ان کی وزارت کے اختیارات استعمال کرکے مزے لوٹتے رہے مگر اس الیکشن میں ضلع کی تمام نشستوں پر کامیابی کی خوش فہمی میں ق لیگ سے بغاوت کرکے بطور آزاد گروپ پنچہ آزمائی کا قصد کر چکے ہیں۔ اصل سیاسی میدان فتح جنگ ، حسن ابدال تحصیلوںپر مشتمل تین لاکھ سات ہزار سے زائد رجسٹرڈ ووٹوں کے حلقہ این اے 59اور پی پی17کی نشستوں پر ہے۔
جہاں پیپلزپارٹی کے آصف علی ق لیگ (میجر گروپ) کے سردار زین الٰہی اور جماعت اسلامی کے سردار امجد علی خان اور جمعیت العلماء فضل الرحمن کے امیدوار کے درمیان مقابلہ ہورہا ہے۔ پی پی17 کی نشست پر پیپلزپارٹی نے ریاض خان بالڑہ کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیاہے جو سیاسی بادشاہ گر کے طور پر جانے جاتے ہیں اور علاقے کے غریبوں اور مزارعین کے مدد گارکے طورپرمشہور شخصیت ہیں۔وہ نواز خان بالڑہ(مرحوم)کے فرزند ہیں جنہوں نے ابھی تک اپنے باپ کے مداحوں سے رشتہ بدستور جوڑا ہوا ہے۔
حلقے میں کوئی گاؤں یا شہر کا کوئی محلہ ایسانہیں جہاں ریاض خان بالڑہ موجود نہ ہو۔ یہ اپنا خاص ووٹ بینک رکھتے ہیں ۔ اس میں ایک خاص بات یہ ہے کہ الیکشن میں اٹھنے والے اخراجات ان کی اپنی جیب کی بجائے اس کے مداح ہی برداشت کرتے ہیں۔چند ماہ قبل تک سردار سلیم حیدر خان کی کامیابی بڑی واضح نظر آ رہی تھی مگر یکے بعد دیگرے حاجی اشتیاق احمد خان ، سردار افتخار احمد خان، سردار ممتاز خان ماجھیا ، سردار احسن خان، ڈاکٹر زبیر یوسف ، قاضی گلزار حسین، حاجی شفیق ، سابق ناظم غفور مغل اور دیگر درجنوں کارکن اور قابل ذکر دھڑوں کے چھوڑ جانے سے ان کی پوزیشن کمزورہوگئی تھی مگر ریاض خان بالڑہ کی حمایت سے اب نہ صرف وہ مقابلے کی پوزیشن میں آگئے ہیں بلکہ کامیابی حاصل کرنے کے قابل ہوچکے ہیں۔
ن لیگ اگر پارٹی ٹکٹ چوہدری شیر علی خان کودیتی تووہ پیپلز پارٹی کے امیدوار سے مقابلہ کی پوزیشن میں آجاتے ۔ میجر طاہر صادق خان نے اس حلقہ میں اپنے بیٹے زین الٰہی کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے جو ابھی نا تجربہ کار ہیں۔ عوامی رائے جاننے کے لیے جب حلقے کا سروے کیا گیا تو یہ بات عام طور پر سننے میں آئی کہ آزاد امیدوار کو ووٹ دینا ووٹروں کے مینڈیٹ کی خلاف ورزی ہوگی کیونکہ اگر ایک ووٹر کسی ایک پارٹی کے منشور سے اتفاق کرتا ہے تو اسے اس پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینا چاہیے۔
اگر ووٹر کسی پارٹی کے حق میں اپنی رائے نہیں دیتا تو پھر اس کے ووٹر سے منتخب ہونے والے نمائندہ کو کسی پارٹی کو جائن کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔ اگر اس عوامی رائے کو ذہن میں رکھا جائے تو حلقہ این اے 59میں سردار سلیم حیدر خان اور سردار محمد علی خان کے درمیان مقابلہ نظر آتاہے۔ اس حلقہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ صوبائی وزیر سردار سکندر حیات خان بطور آزاد امیدوار انتخاب لڑنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں جن کی وجہ سے میجر طاہر خود کو کافی نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ سردار سکندرحیات خان کا تعلق بھی کھٹڑ قبیلے سے ہے۔
صوبائی نشست پی پی17پر اس وقت پیپلزپارٹی کے ریاض خان بالڑہ آزاد گروپ کے ملک جمشید الطاف جماعت اسلامی کے اقبال خان ، مسلم لیگ ن کے امیدواروں سردار ممتازخان ماجھیا، شاہ ویز خان میں سے کسی ایک اور تحریک انصاف کے محمد اکبرخان تنولی میں مقابلہ ہوگا۔مسلم لیگ ن کے شاہ ویز خان کے کاغذات نامزدگی مستردہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آزاد میجر طاہر گروپ کے ایک بہت ہی اہم دھڑے کا سربراہ پس پردہ مسلم لیگ ن کے صوبائی ٹکٹ کے لیے کوشاں ہے۔ اگر شاہ ویز خان کے کاغذاتِ نامزدگی ٹریبونل نے بھی بحال نہ کیے تو قوی امکان ہے کہ مسلم لیگ ن کا ٹکٹ اسے مل جائے۔ موجودہ صورتحال میں ریاض خان بالڑہ کا پلڑہ بھاری نظر آرہا ہے۔
ریاض خان بالڑہ کا مقابلہ صرف تحریک انصاف کے صوبائی امیدوار محمد اکبر خان تنولی سے ہونے کی توقع ہے کیونکہ اس امیدوار کا تعلق تحصیل حسن ابدال سے ہے اور شا ہ ویز خان کے کاغذات منظور نہ ہونے کی صورت میں تحصیل حسن ابدال کے رائے دہندہ گان اپنی تحصیل کے باسی کے حق میں رائے دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ۔ سر دست ضلع بھر میں پاکستان تحریک انصاف کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے جبکہ این اے 56 اور پی پی17 میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن بہتر نظر آرہی ہے۔ ضلع اٹک کے عوام کس کے سر پر تاج سجاتے ہیں اس کیلئے 11مئی 2013ء کے دن کا انتظار کرنے پڑے گا۔