فاٹا بل کی خیبرپختونخوا اسمبلی سے بھی منظوری
قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھ کر 55 اور آیندہ سال صوبائی اسمبلی کی نشستیں فاٹا سے 21 نشستوں کے اضافے سے 145 ہوجائیں گی۔
قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھ کر 55 اور آیندہ سال صوبائی اسمبلی کی نشستیں فاٹا سے 21 نشستوں کے اضافے سے 145 ہوجائیں گی۔ فوٹو: فائل
KARACHI:
قومی اسمبلی اور سینیٹ کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی نے بھی فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کا بل دو تہائی سے زائد اکثریت سے منظور کرلیا ہے۔ اب واضح ہونے لگا ہے کہ فاٹا کے عوام بھی قومی دھارے میں شامل ہوکر ملکی قوانین سے یکساں بہرہ ور ہوسکیں گے۔
خیبرپختونخوا اسمبلی میں صوبائی وزیر قانون امتیاز شاہد قریشی نے ترمیمی بل پیش کیا جس کے تحت فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے علاوہ پاٹا کا اسپیشل اسٹیٹس بھی ختم ہوجائے گا، خیبرپختونخوا سے قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھ کر 55 اور آیندہ سال صوبائی اسمبلی کی نشستیں فاٹا سے 21 نشستوں کے اضافے سے 145 ہوجائیں گی۔ بل کے حق میں 92 اور مخالفت میں صرف 7 ووٹ پڑے۔ بلاشبہ یہ ایک تاریخی اقدام ہے، اب فاٹا کی ترقی کے لیے بھی سب کو مل جل کر کام کرنا چاہیے۔ فاٹا کے عوام نے بڑا مشکل وقت دیکھا ہے، اس لیے یہ اقدام ان کے مستقبل کے حوالے سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
تاہم اس موقع پر فاٹا انضمام بل کی منظوری کے خلاف کچھ مخالفین کا خیبرپختونخوا اسمبلی کے سامنے پرتشدد احتجاجی مظاہرہ قابل مذمت ہے۔ اگر کسی بھی قسم کے تحفظات ہیں تو انھیں مل بیٹھ کر حل کیا جائے۔ فاٹا کے عوام ایک عرصہ سے احساس محروم کا شکار ہیں، کالے قوانین کے خاتمے اور پاکستانی قانون کے نفاذ کے بعد لازم ہوگا کہ اس علاقے میں جدید ترین سہولتیں، بلدیاتی، تعلیمی، سماجی اور مضبوط انفرااسٹرکچر کا جال بچھایا جائے، فاٹا کے علاقوں کو بھی ترقی یافتہ شہروں کی طرز پر استوار کیا جائے تاکہ فاٹا عوام کی محرومیوں کا ازالہ ہوسکے۔
اس کے علاوہ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ایک عرصہ سے پسماندگی اور بند ذہنی کے شکار معاشرے میں موافق ذہنی و فکری فضا کی تیار کی جائے۔ دوسری جانب گلگت بلتستان آرڈر 2018 کا نفاذ بھی خوش آیند ہے، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے مطابق گلگت بلتستان آرڈر کے نفاذ کے بعد سے جی بی کو بھی اب دیگر صوبوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے، گلگت بلتستان کی اپنی سول سروس تو ہوگی مگر اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سول سروس میں بھی اس کو کوٹہ دیا جائے گا، سی پیک کی بنیاد گلگت بلتستان ہے اور اس کا فائدہ بھی جی بی کو ہی ملے گا۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ محروم صوبوں اور عوام کو پاکستان کے دیگر حصوں کی طرح یکساں حقوق دینے کے لیے قابل قدر اقدامات کیے جارہے ہیں جس سے محروم طبقات کی شکایتوں کا ازالہ ہوگا۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ کے بعد خیبرپختونخوا اسمبلی نے بھی فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کا بل دو تہائی سے زائد اکثریت سے منظور کرلیا ہے۔ اب واضح ہونے لگا ہے کہ فاٹا کے عوام بھی قومی دھارے میں شامل ہوکر ملکی قوانین سے یکساں بہرہ ور ہوسکیں گے۔
خیبرپختونخوا اسمبلی میں صوبائی وزیر قانون امتیاز شاہد قریشی نے ترمیمی بل پیش کیا جس کے تحت فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے علاوہ پاٹا کا اسپیشل اسٹیٹس بھی ختم ہوجائے گا، خیبرپختونخوا سے قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھ کر 55 اور آیندہ سال صوبائی اسمبلی کی نشستیں فاٹا سے 21 نشستوں کے اضافے سے 145 ہوجائیں گی۔ بل کے حق میں 92 اور مخالفت میں صرف 7 ووٹ پڑے۔ بلاشبہ یہ ایک تاریخی اقدام ہے، اب فاٹا کی ترقی کے لیے بھی سب کو مل جل کر کام کرنا چاہیے۔ فاٹا کے عوام نے بڑا مشکل وقت دیکھا ہے، اس لیے یہ اقدام ان کے مستقبل کے حوالے سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
تاہم اس موقع پر فاٹا انضمام بل کی منظوری کے خلاف کچھ مخالفین کا خیبرپختونخوا اسمبلی کے سامنے پرتشدد احتجاجی مظاہرہ قابل مذمت ہے۔ اگر کسی بھی قسم کے تحفظات ہیں تو انھیں مل بیٹھ کر حل کیا جائے۔ فاٹا کے عوام ایک عرصہ سے احساس محروم کا شکار ہیں، کالے قوانین کے خاتمے اور پاکستانی قانون کے نفاذ کے بعد لازم ہوگا کہ اس علاقے میں جدید ترین سہولتیں، بلدیاتی، تعلیمی، سماجی اور مضبوط انفرااسٹرکچر کا جال بچھایا جائے، فاٹا کے علاقوں کو بھی ترقی یافتہ شہروں کی طرز پر استوار کیا جائے تاکہ فاٹا عوام کی محرومیوں کا ازالہ ہوسکے۔
اس کے علاوہ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ایک عرصہ سے پسماندگی اور بند ذہنی کے شکار معاشرے میں موافق ذہنی و فکری فضا کی تیار کی جائے۔ دوسری جانب گلگت بلتستان آرڈر 2018 کا نفاذ بھی خوش آیند ہے، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے مطابق گلگت بلتستان آرڈر کے نفاذ کے بعد سے جی بی کو بھی اب دیگر صوبوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے، گلگت بلتستان کی اپنی سول سروس تو ہوگی مگر اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سول سروس میں بھی اس کو کوٹہ دیا جائے گا، سی پیک کی بنیاد گلگت بلتستان ہے اور اس کا فائدہ بھی جی بی کو ہی ملے گا۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ محروم صوبوں اور عوام کو پاکستان کے دیگر حصوں کی طرح یکساں حقوق دینے کے لیے قابل قدر اقدامات کیے جارہے ہیں جس سے محروم طبقات کی شکایتوں کا ازالہ ہوگا۔