کسان اور ہاری یاد آئے

حیرت ہے کہ اس اہم اور بنیادی مسئلے کو کسی ایسی جماعت نے اپنے منشور میں شامل نہیں کیا۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

آج کل ہمارے سیاست دانوں کے پیٹ میں غریب عوام مزدوروں، کسانوں کا درد اس شدت سے اٹھ رہا ہے کہ اس پر درد زہ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ عوام کے مسئلوں کا حل جنگی بنیادوں پرکرنے کی عیارانہ کوششیں ہورہی ہیں اور ان کوششوں، ان عیاریوں کی وجہ یہ ہے کہ 2018ء کا الیکشن سر پر کھڑا ہے اور اس بار مقابلہ سخت ہے ہمیشہ اشرافیہ مل بانٹ کر کام چلالیتی تھی جس کے لیے انھیں باری باری کا کھیل ایجاد کرلیا تھا کیونکہ اس کھیل کے عموماً دو ہی کھلاڑی ہوتے تھے۔

اب مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ ایک تیسرا طاقتورکھلاڑی بھی میدان انتخاب میں آن دھمکا ہے اور بڑی طاقت اور جوش سے ڈنڈ بیٹھک مار رہا ہے حالات پر نظر رکھنے والے فصلی بٹیرے تیزی سے گھونسلے بدل رہے ہیں اور اس نئے گھونسلے کی طرف پرواز کررہے ہیں جو تنکہ تنکہ جوڑکر بنایا گیا ہے ،اس نئے گھونسلے کے مالک کو نئے پرندوں کی آمد سے بڑا حوصلہ مل رہا ہے لیکن یہ فصلی بٹیرے جن مقاصد کے لیے گھونسلے بدلی کا کھیل کھیل رہے ہیں، اگر وہ مقاصد پورے نہ ہوئے تو یہ بٹیرے ایسا کمند ڈالیںگے کہ ناک کے کیڑے رہ جائیںگے۔

آج کے ہمارے کالم کا اصل موضوع مزدورکسان ہے ، ہمارے سیاسی وڈیروں کی نگاہ ہاری کسانوں کے ووٹوں پر ہوتی ہے کیونکہ ہاری کسان دیہی آبادی کا 60 فی صد سے زیادہ ہیں، انتخابات کے موقعے پر عموماً کھاد، بیج سستے کرنے کا دانہ ڈالا جاتا تھا اب حالات بدل رہے ہیں اس دانے سے شکار دام میں شاید نہ آسکے۔ گنے کے کاشتکار چیخ رہے ہیں کہ انھیں گنے کی مناسب قیمت نہیں مل رہی ہے اور گنا خراب ہو رہا ہے، شوگر ملز سیاسی اشرافیہ کچھ ملز بند کردیتی ہے کبھی گنے کی قیمت کم کردیتی ہے یہ آنکھ مچولی کا کھیل جاری رہتا ہے۔

اصل میں ہمیں اس حوالے سے کالم لکھنے کا خیال اس لیے آیا کہ ایک نوجوان سیاسی شہزادے نے کسانوں کے مسائل کے حوالے سے دانستہ یا نادانستہ ایک ایسی بات کہہ دی ہے جو اپنے اندر بہت گہرائی رکھتی ہے شہزادے نے کہا ہے کہ جب تک کسان معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوگا اس کے مسائل حل نہیں ہوںگے۔ اس میں ذرا برابر شک نہیں کہ جب تک کسان معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہوگا، اس کے مسائل حل نہیں ہوںگے، بد قمستی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہاریوں اور کسانوں کی حالت زرعی غلاموں کی سی ہے اور زرعی غلام بھلا معاشی طور پر اپنے پیروں پر کیسے کھڑا ہوسکتا ہے۔ ایک غلامی روایتی ہے۔

ایک تین کالمی خبر لگی ہے جس کی سرخی ہے زمیندار کی نجی جیل پر چھاپہ 60 ہاری بازیاب۔ اس خبر کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ سیشن جج ٹنڈو محمد خان کے حکم پر پولیس نے مقامی زمیندار کی نجی جیل پر چھاپہ مارا اور بچوں اور خواتین سمیت 60 سے زیادہ ہاریوں کو بازیاب کرالیا، عدالت نے انھیں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت دیتے ہوئے آزاد کردیا۔ اس قسم کی خبریں آئے دن چھپتی رہتی ہیں لیکن کسی خبر میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ نجی جیل کے مالک کے ساتھ کیا قانونی کارروائی کی گئی ہے؟


کوئی سیاست دان خواہ اس کا تعلق اشرافیہ سے ہو اگر غریب عوام کے حق میں کوئی بنیادی بات کرتا ہے تو اس کی تعریف کی جانی چاہیے، کسان اور ہاری کے مسائل حل ہونے میں ان کا معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ضروری ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسان معاشی طور پر اپنے پیروں پر کیسے کھڑے ہوگا جب کہ اصل صورتحال یہ ہے کہ وڈیروں کے حکم کلی ذرا سی خلاف ورزی پر کسان اور ہاری کا حال یہ کردیا جاتا ہے کہ وہ مہینوں تک اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکتا۔

معاشی طور پر کسان اس وقت تک اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکتا جب تک وہ زمین کا مالک نہیں بن جاتا۔ اس کے لیے ایک سخت زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیرداروں اور وڈیریوں سے لاکھوں ایکڑ زرعی زمین چھین کر کسانوں اور ہاریوں میں نہیں بانٹ دی جاتی، کیا کسانوں کو معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا مشورہ دینے والے ایسی سخت زرعی اصلاحات پر تیار ہیں؟

پاکستان میں تین بار زرعی اصلاحات ہوچکی ہیں لیکن نہ ہاری کسان زمین کا مالک بنا نہ وڈیروں جاگیرداروں سے ان کی لاکھوں ایکڑ زمین لی گئی۔ زرعی اصلاحات کو ناکام بنانے والے کون ہیں؟ جی ایم سید کا شمار پاکستان کے سینئر سیاست دانوں میں ہوتا ہے وہ جب اسپتال میں بیڈ پر تھے تو ہماری ان سے پاکستانی سیاست پر طویل بات ہوئی حیرت ہوئی جب جی ایم سید نے کہاکہ پاکستان میں جاگیردارانہ نظام ختم ہوچکا ہے؟

قیام پاکستان کے بعد ہی سے ملک میں زرعی اصلاحات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے بلاشبہ ملک میں تین بار زرعی اصلاحات کی گئیں لیکن وڈیرہ شاہی نے تینوں زرعی اصلاحات کو ناکام بنادیا۔ آج بھی وڈیروں کے پاس لاکھوں ایکڑ زرعی زمین موجود ہے اگر شک ہے تو مفصل سروے کرالیا جائے، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ سندھ میں حیدر بخش کی ہاری تحریک ان کی زندگی تک چلتی رہی، پنجاب میں چوہدری فتح محمد زرعی اصلاحات کی حوالے سے تحریک چلاتے رہے، لیکن پاکستان میں وڈیرہ شاہی اس قدر مضبوط ہے کہ زرعی اصلاحات کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیتی۔ زرعی اصلاحات ملک کا ایک اہم مسئلہ ہے جب تک سخت اور مکمل زرعی اصلاحات نہ ہوں ہمارا ملک ترقی کی سمت پیش قدمی نہیں کرسکتا۔

حیرت ہے کہ اس اہم اور بنیادی مسئلے کو کسی ایسی جماعت نے اپنے منشور میں شامل نہیں کیا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاست پر ابھی تک وڈیرہ شاہی کا قبضہ ہے اور انتخابات میں ہاریوں اورکسانوں کے ووٹ وڈیروں کی کامیابی کی ضمانت بنے ہوئے ہیں وہ رہنما، وہ جماعتیں جو اس ملک میں واقعی مزدور کسان راج قائم کرنا چاہتی ہیں۔ ان کی ذمے داری ہے کہ وہ زرعی اصلاحات کے لیے کسانوں، ہاریوں میں تحریکیں چلائیں اور اس مسئلے کو قومی مسئلہ تسلیم کروائیں۔
Load Next Story