عوامی خدمات کے دورے
اسکولوں اوراسپتالوں کے فیتے کاٹنے اورمیڈیا میں اس کا بھرپور پروپیگنڈا کرنا ہماری حکمران اشرافیہ کی مصروفیت بن جاتی ہے۔
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
جب بھی الیکشن قریب آتے ہیں تو حکمرانوں کو عوامی خدمات کے دورے پڑنے لگ جاتے ہیں۔اپنا سارا وقت بڑے بڑے منافع بخش پروجیکٹوں میں لگانے والی حکمران اشرافیہ اسکول اور اسپتال جیسے کم منافع بخش پروجیکٹوں پر صرف کرنا شروع کردیتی ہے۔ اسکولوں اور اسپتالوں کے فیتے کاٹنے اور میڈیا میں اس کا بھرپور پروپیگنڈا کرنا ہماری حکمران اشرافیہ کی مصروفیت بن جاتی ہے ۔
ہمارے تعلیمی نظام میں ایک کاٹج انڈسٹری بڑے زوروں سے فروغ پارہی ہے یہ کاٹج انڈسٹری ملک میں پرائیویٹ اسکولوں کے نام سے جانی جاتی ہے، یہ انڈسٹری اس قدر منافع بخش ہے کہ چھوٹے سرمایہ کاروں کا ایک طبقہ اس انڈسٹری میں کم سرمائے سے بے تحاشا منافع حاصل کر رہا ہے۔
مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے وہ لوگ جو اعلیٰ درسگاہوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی سکت نہیں رکھتے وہ اس کاٹج انڈسٹری کا رخ کرتے ہیں۔ اس انڈسٹری کے مالکان نے بچوں کی فیسوں میں ناقابل برداشت اضافہ کردیا ہے۔ نرسری کے بچوں سے چار پانچ ہزار فیس لی جا رہی ہے اور بچوں کے ماں باپ سر پکڑے بیٹھے ہیں ۔ حکومت کی طرف سے ان بھاری فیسوں کے خلاف کارروائی کی خبریں میڈیا میں آتی رہی ہیں لیکن یہ مافیا اس قدر مضبوط ہے کہ فیسوں میں ڈبل اضافے پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار نہیں بے شمار ماں باپ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کروا رہے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں ہی میں نہیں بلکہ پسماندہ ملکوں میں بھی تعلیم اور صحت کو انسان کی بنیادی ضرورت میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ دونوں سہولتیں عوام کو مفت فراہم کی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں یہ سہولتیں مفت تو کیا اس قدر مہنگی ہیں کہ عام آدمی کی ان سہولتوں تک رسائی ہی ممکن نہیں۔
ہمارے ملک میں تعلیم دو بلکہ تین حصوں میں تقسیم ہے، ایک بڑا حصہ سرکاری تعلیم پر مشتمل ہے، سرکاری اسکول اصل میں اس پروپیگنڈے کا حصہ ہیں کہ عوام کو مفت تعلیم فراہم کی جارہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری اسکول بچوں کی وقت گزاری کا ایسا حصہ ہیں جو بچوں کو کھیل کود، لڑائی جھگڑوں کی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ وہ غریب ماں باپ جو اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم نہیں دلواسکتے وہ بچوں کو بری صحبتوں سے بچانے کے لیے سرکاری اسکولوں میں داخل کرادیتے ہیں جہاں بچے لڑائی جھگڑوں اور مغلظات کے علاوہ کچھ نہیں سیکھ سکتے۔
سرکاری اسکولوں کی اس حالت زار کی وجہ یہ ہے کہ حکومتوں نے تعلیم کے لیے بجٹ میں اس قدرکم رقم رکھی ہیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ماہر اساتذہ اس فنڈ میں مہیا نہیں ہوسکتے۔ اس کے برخلاف کم تعلیم یافتہ خواتین وحضرات کو سرکاری اسکولوں میں ملازم رکھاجاتا ہے اور یہ اساتذہ عموماً اسکولوں میں اپنا ٹائم پاس کرنے کے لیے آتے ہیں۔ بچوں کی طرف عدم توجہی اور اساتذہ کی غیر تربیت یافتہ صورتحال کی وجہ سے سرکاری اسکولوں میں بچے عموماً وقت گزاری کے لیے آتے ہیں دیہی علاقوں میں یہ صورتحال کس قدر گمبھیر ہے اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ دیہی علاقوں کے بیشتر اسکول وڈیروں کے مویشی خانوں میں بدل دیے گئے ہیں، یہ کوئی اتفاقی بات نہیں بلکہ حکمران طبقات اور اشرافیہ کی گہری سازش کا نتیجہ ہے جس کا مقصد غریب عوام کے بچوں کو تعلیم سے محروم کرنا تھا۔
اس سازش کا مقصد یہ ہے کہ غریب عوام کے بچے بہتر تعلیم حاصل کرکے اشرافیہ کی اولاد کا مقابلہ کرنے کے اہل نہ ہوجائیں ۔ ہمارے سرکاری اسکولوں کی حالت زار کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین اساتذہ ڈیوٹی کے دوران سلائی کڑھائی میں مصروف رہتی ہیں اور مرد اساتذہ اپنا زیادہ وقت گپ بازی میں صرف کرتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ اساتذہ کی ایک بڑی تعداد گھوسٹ کہلاتی ہے یعنی یہ اساتذہ اسکول آتے ہی نہیں بلکہ گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں یا کوئی اور ملازمت اختیار کرلیتے ہیں ۔ میڈیا میں گھوسٹ اساتذہ کے بارے میں اکثر خبریں آتی رہتی ہیں لیکن ان کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا کیونکہ یہ اساتذہ اشرافیہ کے خدام ہوتے ہیں یا پھر اپنی تنخواہوں کا ایک معقول حصہ اوپر والوں کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
عوام کے خادم حکمرانوں کو یہ توفیق نہیں کہ اس بدترین صورتحال کا جائزہ لے کر اس میں اصلاح کی کوشش کریں اور غریبوں کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقعے فراہم کریں، الیکشن کے قریب آنے کی وجہ تعلیمی سہولتیں فراہم کرنے کا پروپیگنڈا شدت سے کیا جارہاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تعلیم کا شعبہ انتہائی پسماندہ ہے۔تعلیم کے بعد عوام کی بنیادی ضرورت علاج ہے اور اس شعبے کا عالم یہ ہے کہ سرکاری اسپتال یتیم خانے بنے ہوئے ہیں، ترقی یافتہ ہی نہیں بلکہ پسماندہ ملکوں میں بھی تعلیم کے ساتھ علاج کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔
کراچی جیسے ملک کے سب سے بڑے اور ترقی یافتہ شہرمیں جہاں دو کروڑ سے زیادہ انسان بستے ہیں صرف تین سرکاری اسپتال موجود ہیں جن سے ہمارے شعبہ صحت کی ترقی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ دیہی علاقوں کی اس حوالے سے ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ اسکولوں کی طرح وڈیروں نے اسپتالوں کو بھی مویشی خانوں میں بدل دیا ہے چھوٹے علاقوں کے عوام کو اپنے علاج کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے بعض وقت سانپ کے ڈسے لوگ مقامی سطح پر علاج کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے مریض کو بیل گاڑیوں میں بڑے شہر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور مریض راستے ہی میں دم توڑ دیتا ہے۔
شعبہ تعلیم میں پرائیویٹ اسکولوں کی جو انڈسٹری لگی ہوئی ہے، شعبہ صحت میں بھی پرائیویٹ اسپتالوں کی مافیا انتہائی طاقتور ہے ، غریب آدمی پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کا سوچ بھی نہیں سکتا، الیکشن کے قریب آنے کی وجہ سے اسپتالوں کے فیتے بھی کٹ رہے ہیں دل اور دماغ کے شعبوں کا افتتاح بھی ہو رہا ہے جب تک ملک میں اشرافیہ کا راج ہے تعلیم اور علاج جیسے اہم شعبے کسمپرسی کا شکار رہیںگے کیا عوام 2018 کے الیکشن میں کرپٹ اسٹیبلشمنٹ سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کریں گے؟
ہمارے تعلیمی نظام میں ایک کاٹج انڈسٹری بڑے زوروں سے فروغ پارہی ہے یہ کاٹج انڈسٹری ملک میں پرائیویٹ اسکولوں کے نام سے جانی جاتی ہے، یہ انڈسٹری اس قدر منافع بخش ہے کہ چھوٹے سرمایہ کاروں کا ایک طبقہ اس انڈسٹری میں کم سرمائے سے بے تحاشا منافع حاصل کر رہا ہے۔
مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے وہ لوگ جو اعلیٰ درسگاہوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی سکت نہیں رکھتے وہ اس کاٹج انڈسٹری کا رخ کرتے ہیں۔ اس انڈسٹری کے مالکان نے بچوں کی فیسوں میں ناقابل برداشت اضافہ کردیا ہے۔ نرسری کے بچوں سے چار پانچ ہزار فیس لی جا رہی ہے اور بچوں کے ماں باپ سر پکڑے بیٹھے ہیں ۔ حکومت کی طرف سے ان بھاری فیسوں کے خلاف کارروائی کی خبریں میڈیا میں آتی رہی ہیں لیکن یہ مافیا اس قدر مضبوط ہے کہ فیسوں میں ڈبل اضافے پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار نہیں بے شمار ماں باپ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کروا رہے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں ہی میں نہیں بلکہ پسماندہ ملکوں میں بھی تعلیم اور صحت کو انسان کی بنیادی ضرورت میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ دونوں سہولتیں عوام کو مفت فراہم کی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں یہ سہولتیں مفت تو کیا اس قدر مہنگی ہیں کہ عام آدمی کی ان سہولتوں تک رسائی ہی ممکن نہیں۔
ہمارے ملک میں تعلیم دو بلکہ تین حصوں میں تقسیم ہے، ایک بڑا حصہ سرکاری تعلیم پر مشتمل ہے، سرکاری اسکول اصل میں اس پروپیگنڈے کا حصہ ہیں کہ عوام کو مفت تعلیم فراہم کی جارہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری اسکول بچوں کی وقت گزاری کا ایسا حصہ ہیں جو بچوں کو کھیل کود، لڑائی جھگڑوں کی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ وہ غریب ماں باپ جو اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم نہیں دلواسکتے وہ بچوں کو بری صحبتوں سے بچانے کے لیے سرکاری اسکولوں میں داخل کرادیتے ہیں جہاں بچے لڑائی جھگڑوں اور مغلظات کے علاوہ کچھ نہیں سیکھ سکتے۔
سرکاری اسکولوں کی اس حالت زار کی وجہ یہ ہے کہ حکومتوں نے تعلیم کے لیے بجٹ میں اس قدرکم رقم رکھی ہیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ماہر اساتذہ اس فنڈ میں مہیا نہیں ہوسکتے۔ اس کے برخلاف کم تعلیم یافتہ خواتین وحضرات کو سرکاری اسکولوں میں ملازم رکھاجاتا ہے اور یہ اساتذہ عموماً اسکولوں میں اپنا ٹائم پاس کرنے کے لیے آتے ہیں۔ بچوں کی طرف عدم توجہی اور اساتذہ کی غیر تربیت یافتہ صورتحال کی وجہ سے سرکاری اسکولوں میں بچے عموماً وقت گزاری کے لیے آتے ہیں دیہی علاقوں میں یہ صورتحال کس قدر گمبھیر ہے اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ دیہی علاقوں کے بیشتر اسکول وڈیروں کے مویشی خانوں میں بدل دیے گئے ہیں، یہ کوئی اتفاقی بات نہیں بلکہ حکمران طبقات اور اشرافیہ کی گہری سازش کا نتیجہ ہے جس کا مقصد غریب عوام کے بچوں کو تعلیم سے محروم کرنا تھا۔
اس سازش کا مقصد یہ ہے کہ غریب عوام کے بچے بہتر تعلیم حاصل کرکے اشرافیہ کی اولاد کا مقابلہ کرنے کے اہل نہ ہوجائیں ۔ ہمارے سرکاری اسکولوں کی حالت زار کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین اساتذہ ڈیوٹی کے دوران سلائی کڑھائی میں مصروف رہتی ہیں اور مرد اساتذہ اپنا زیادہ وقت گپ بازی میں صرف کرتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ اساتذہ کی ایک بڑی تعداد گھوسٹ کہلاتی ہے یعنی یہ اساتذہ اسکول آتے ہی نہیں بلکہ گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں یا کوئی اور ملازمت اختیار کرلیتے ہیں ۔ میڈیا میں گھوسٹ اساتذہ کے بارے میں اکثر خبریں آتی رہتی ہیں لیکن ان کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا کیونکہ یہ اساتذہ اشرافیہ کے خدام ہوتے ہیں یا پھر اپنی تنخواہوں کا ایک معقول حصہ اوپر والوں کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
عوام کے خادم حکمرانوں کو یہ توفیق نہیں کہ اس بدترین صورتحال کا جائزہ لے کر اس میں اصلاح کی کوشش کریں اور غریبوں کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقعے فراہم کریں، الیکشن کے قریب آنے کی وجہ تعلیمی سہولتیں فراہم کرنے کا پروپیگنڈا شدت سے کیا جارہاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تعلیم کا شعبہ انتہائی پسماندہ ہے۔تعلیم کے بعد عوام کی بنیادی ضرورت علاج ہے اور اس شعبے کا عالم یہ ہے کہ سرکاری اسپتال یتیم خانے بنے ہوئے ہیں، ترقی یافتہ ہی نہیں بلکہ پسماندہ ملکوں میں بھی تعلیم کے ساتھ علاج کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔
کراچی جیسے ملک کے سب سے بڑے اور ترقی یافتہ شہرمیں جہاں دو کروڑ سے زیادہ انسان بستے ہیں صرف تین سرکاری اسپتال موجود ہیں جن سے ہمارے شعبہ صحت کی ترقی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ دیہی علاقوں کی اس حوالے سے ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ اسکولوں کی طرح وڈیروں نے اسپتالوں کو بھی مویشی خانوں میں بدل دیا ہے چھوٹے علاقوں کے عوام کو اپنے علاج کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے بعض وقت سانپ کے ڈسے لوگ مقامی سطح پر علاج کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے مریض کو بیل گاڑیوں میں بڑے شہر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور مریض راستے ہی میں دم توڑ دیتا ہے۔
شعبہ تعلیم میں پرائیویٹ اسکولوں کی جو انڈسٹری لگی ہوئی ہے، شعبہ صحت میں بھی پرائیویٹ اسپتالوں کی مافیا انتہائی طاقتور ہے ، غریب آدمی پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کا سوچ بھی نہیں سکتا، الیکشن کے قریب آنے کی وجہ سے اسپتالوں کے فیتے بھی کٹ رہے ہیں دل اور دماغ کے شعبوں کا افتتاح بھی ہو رہا ہے جب تک ملک میں اشرافیہ کا راج ہے تعلیم اور علاج جیسے اہم شعبے کسمپرسی کا شکار رہیںگے کیا عوام 2018 کے الیکشن میں کرپٹ اسٹیبلشمنٹ سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کریں گے؟