ایٹمی ہتھیاروں کا مقابلہ
امریکا اور روس کے درمیان ایٹمی مسابقت کے نتیجے میں جو ایک سے بڑھ کر ایک طاقتور ایٹمی ہتھیار بنائے جا رہے ہیں۔
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
ISLAMABAD:
روس نے ایک نئے میزائل کا تجربہ کیا ہے، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ایٹمی میزائل اب تک متعارف کیے جانے والے ایٹمی میزائلوں سے زیادہ طاقتور اور زیادہ دور تک مار کرنے والا میزائل ہے۔ امریکا اور روس کے درمیان ایٹمی مسابقت کے نتیجے میں جو ایک سے بڑھ کر ایک طاقتور ایٹمی ہتھیار بنائے جا رہے ہیں۔
کیا ان کا استعمال ممکن ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب میں ہمارے سامنے 1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے دوران استعمال ہونے والے دو ایٹم بم آجاتے ہیں جو آج کے جدید اور طاقتور ترین ایٹمی ہتھیاروں کے مقابلے میں کمزور ترین ہتھیار کہلائے جاسکتے ہیں لیکن ان کمزور ترین ایٹم بموں کی تباہ کاریوں کا عالم یہ تھا کہ جاپان کے دو شہر ہیروشیما اور ناگاساکی ان ایٹم بموں کی آگ سے اس طرح جھلس گئے تھے کہ انھیں پہچاننا ممکن نہ رہا تھا اور لاکھوں انسان بھی آبادیوں اور پہاڑوں کی طرح جھلس کر کوئلہ بن گئے تھے۔
آج کا معصوم انسان ہیروشیما اور ناگاساکی کے المیے کی یاد میں ہر سال موم بتیاں تو جلاتا ہے لیکن اس کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ آج 1945ء سے سیکڑوں گنا زیادہ طاقتور ایٹمی ہتھیار بنائے جا رہے ہیں اگر خدانخواستہ یہ ہتھیار استعمال ہوجائیں تو پورا کرہ ارض ہی جل کر ایک ملبے میں بدل سکتا ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادی دنیا کے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے آئے دن کسی نہ کسی حوالے سے دن مناتے ہیں۔ان میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کی تباہیوں کا دن بھی شامل ہے، ان دنوں میں ناگاساکی اور ہیروشیما کے مرحومین کی یاد کا دن بھی شامل ہے اس دن ہیروشیما اور ناگاساکی کے ایٹم بموں سے جل کر مرنے والوں کی یاد منائی جاتی ہے اور بس!
1945ء میں یہ شیطانی کام انسانوں نے ہی انجام دیا تھا اور آج ہیروشیما اور ناگاساکی سے ہزاروں گنا زیادہ طاقتور ایٹمی ہتھیار انسان ہی بنا رہا ہے کیا 1945ء کے المیے کی ہر سال یاد منانے اور آنسو بہانے سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری رک جائے گی؟ ہرگز نہیں، جب تک دنیا پر انسان اور انسانیت دشمن طاقتیں موجود ہیں جنھیں ہم سیاستدانوں کے نام سے پہچانتے ہیں،اس وقت تک دنیا کے سر پر ایٹمی تلوار لٹکتی رہے گی اور جب کوئی ٹرومن برسر اقتدار آئے گا تو پھر ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو کون روک سکے گا؟
یہ بات ہر ملک کے سیاستدان حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کرہ ارض اور اس پر بسنے والے انسانوں کی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں پھر بھی ہر بڑا ملک دوسرے بڑے ملک سے زیادہ طاقتور ایٹمی ہتھیار بنانے میں مصروف ہے اور اس کی وجہ قومی دفاع بتائی جاتی ہے۔ کیا ان احمقوں اور پاگلوں کو یہ احساس نہیں کہ 1945ء میں آج کے ایٹمی ہتھیاروں سے سیکڑوں گنا کم طاقتور ایٹمی ہتھیار نے ہیروشیما اور ناگاساکی کو جلاکر رکھ دیا تھا اور انسان جل کر کوئلہ بن گئے تھے۔
اس سے قبل کہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور تجربوں کے بھیانک نتائج کا جائزہ لیا جائے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ اسی کرہ ارض کا امن اور ترقی پسند انسان انسانوں کی بھلائی کے لیے کیا کچھ کر رہا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی تحقیق اور انکشافات نے ماضی کی دنیا کا چہرہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے، انسانیت کی بھلائی کا کام کرنے والے عظیم انسان زندگی کے ہر شعبے میں ایسے ترقیاتی کام انجام دے رہے ہیں جس کی وجہ زندگی جنت میں بدل گئی ہے۔ طب کے شعبے میں دل دماغ گردوں اور جگر کی پیوندکاری کی وجہ انسان موت سے دور اور زندگی سے نزدیک ہوتا جا رہا ہے۔
ہم نے انسانی ترقی کے نتیجے میں دنیا کے جنت میں بدلنے کی بات کی تھی تو ہمارے ذہن میں یہ خیال کوندے کی طرح لپکا کہ کیا دنیا کے 7 ارب انسانوں کی زندگی بھی جنت بن گئی ہے؟ اس سوال کا جواب بڑا مایوس کن ہے کیونکہ دنیا کے 7 ارب انسان جہنم کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن ان ساری وجوہات کی ماں سرمایہ دارانہ نظام ہے اس طبقاتی نظام نے 90 فیصد انسانوں کو دو وقت کی روٹی سے محروم کردیا ہے اور 2 فیصد اشرافیہ دنیا میں جنت کے مزے لوٹ رہی ہے اس 90 فیصد اکثریت کا مسئلہ ایٹم بم نہیں ایک آسودہ زندگی ہے اور اس آسودہ زندگی کو دنیا کے شاطر سیاستدانوں نے قومی مفاد کے نام پر تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔
قومی مفادات کے نام پر ہی اربوں کے ہتھیار خریدے جاتے ہیں قومی مفادات کے نام پر ہی لاکھوں غریب انسانوں پر مشتمل فوج رکھی جاتی ہے، علاقائی تنازعات پیدا کیے جاتے ہیں اور ان تنازعات کو بنیاد بناکر اربوں روپوں کا اسلحہ خریدا جاتا ہے اور مغرب کی اسلحے کی صنعت ہتھیاروں کی تجارت سے اربوں ڈالرکماتی ہے۔
اقوام عالم کے تنازعات کے حل کے لیے ایک ادارہ اقوام متحدہ کے نام سے بنایا گیا لیکن یہ ادارہ دنیا کے تنازعات حل کرنے سے اس لیے قاصر ہے کہ یہ مقدس ادارہ بڑی طاقتوں خصوصاً امریکا کی رکھیل بن کر رہ گیا ہے۔ اگر دنیا کو جنگوں اور ہتھیاروں کی بھرمار سے بچانا ہو تو اس ادارے کو بڑی طاقتوں کی غلامی سے آزاد کرانا ہوگا۔ ورنہ یہ ادارہ دنیا پر ایک بوجھ بنا رہے گا اور اس کا کام قراردادیں پاس کرنا ہی رہ جائے گا قراردادوں پر عمل کرانا اس کے بس سے باہر ہوگا۔
اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہتھیاروں کی تیاری اور جنگوں کی وجہ کیا ہے؟ یہ کوئی ریاضی یا الجبرا کا پیچیدہ سوال نہیں بلکہ آسان ترین سوالوں میں سے بھی آسان ترین سوال ہے اور اس کا جواب سوال سے زیادہ آسان ترین ہے۔
اس آسان ترین سوال کا آسان ترین جواب یہ ہے کہ دنیا کے انسانوں کو رنگ نسل زبان قومیت ملک و ملت کے نام پر تقسیم کردیا گیا ہے۔ زبان انسان کی اختیار کردہ ہے رنگ نسل کی تقسیم فطری تو ہے لیکن انسان ہی نے اسے نزاع کا باعث بنادیا۔ ملک خدا نے نہیں بلکہ انسانوں نے ہی بنائے خدا کی زمین پر جغرافیائی لکیریں کھینچ کر اسے ملکوں کے نام دیے جب ملک بنائے تو اس کی حفاظت کی ضرورت بھی پیش آئی سو اس کے لیے ہر ملک نے ایک محکمہ دفاع کے نام پر قائم کیا جس پر بجٹ کا ایک بڑا حصہ خرچ کیا جاتا ہے۔
اربوں کے ہتھیار خریدے جاتے ہیں فوجوں پر اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ انسان کو مختلف حوالوں سے تقسیم کر دیا گیا ہے اور اس تقسیم کو محبت، بھائی بندی اور یکجہتی پر استوار کرنے کے بجائے مخاصمت، تعصب، دشمنی اور نفرتوں پر استوارکیا گیا اور اس کے سات ایسے دائمی اختلافات بھی پیدا کردیے گئے کہ انسانوں کے درمیان محبت پیدا کرنا ناممکن بنادیا گیا۔
ہمارے مذہب میں رب العالمین کا ذکر ہے، رب المسلمین کا ذکر نہیں کیا ہم رب العالمین کی رسی پکڑکر دنیا کے انسانوں کے درمیان صدیوں سے موجود نفرتوں عداوتوں کو ختم نہیں کرسکتے؟ کیا ہم انسانوں کے درمیان محبت بھائی چارہ قائم نہیں کرسکتے؟ کہ نہ روایتی ہتھیاروں کی ضرورت رہے نہ ایٹمی ہتھیاروں کی؟
روس نے ایک نئے میزائل کا تجربہ کیا ہے، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ایٹمی میزائل اب تک متعارف کیے جانے والے ایٹمی میزائلوں سے زیادہ طاقتور اور زیادہ دور تک مار کرنے والا میزائل ہے۔ امریکا اور روس کے درمیان ایٹمی مسابقت کے نتیجے میں جو ایک سے بڑھ کر ایک طاقتور ایٹمی ہتھیار بنائے جا رہے ہیں۔
کیا ان کا استعمال ممکن ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب میں ہمارے سامنے 1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے دوران استعمال ہونے والے دو ایٹم بم آجاتے ہیں جو آج کے جدید اور طاقتور ترین ایٹمی ہتھیاروں کے مقابلے میں کمزور ترین ہتھیار کہلائے جاسکتے ہیں لیکن ان کمزور ترین ایٹم بموں کی تباہ کاریوں کا عالم یہ تھا کہ جاپان کے دو شہر ہیروشیما اور ناگاساکی ان ایٹم بموں کی آگ سے اس طرح جھلس گئے تھے کہ انھیں پہچاننا ممکن نہ رہا تھا اور لاکھوں انسان بھی آبادیوں اور پہاڑوں کی طرح جھلس کر کوئلہ بن گئے تھے۔
آج کا معصوم انسان ہیروشیما اور ناگاساکی کے المیے کی یاد میں ہر سال موم بتیاں تو جلاتا ہے لیکن اس کے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ آج 1945ء سے سیکڑوں گنا زیادہ طاقتور ایٹمی ہتھیار بنائے جا رہے ہیں اگر خدانخواستہ یہ ہتھیار استعمال ہوجائیں تو پورا کرہ ارض ہی جل کر ایک ملبے میں بدل سکتا ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادی دنیا کے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے آئے دن کسی نہ کسی حوالے سے دن مناتے ہیں۔ان میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کی تباہیوں کا دن بھی شامل ہے، ان دنوں میں ناگاساکی اور ہیروشیما کے مرحومین کی یاد کا دن بھی شامل ہے اس دن ہیروشیما اور ناگاساکی کے ایٹم بموں سے جل کر مرنے والوں کی یاد منائی جاتی ہے اور بس!
1945ء میں یہ شیطانی کام انسانوں نے ہی انجام دیا تھا اور آج ہیروشیما اور ناگاساکی سے ہزاروں گنا زیادہ طاقتور ایٹمی ہتھیار انسان ہی بنا رہا ہے کیا 1945ء کے المیے کی ہر سال یاد منانے اور آنسو بہانے سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری رک جائے گی؟ ہرگز نہیں، جب تک دنیا پر انسان اور انسانیت دشمن طاقتیں موجود ہیں جنھیں ہم سیاستدانوں کے نام سے پہچانتے ہیں،اس وقت تک دنیا کے سر پر ایٹمی تلوار لٹکتی رہے گی اور جب کوئی ٹرومن برسر اقتدار آئے گا تو پھر ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو کون روک سکے گا؟
یہ بات ہر ملک کے سیاستدان حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کرہ ارض اور اس پر بسنے والے انسانوں کی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں پھر بھی ہر بڑا ملک دوسرے بڑے ملک سے زیادہ طاقتور ایٹمی ہتھیار بنانے میں مصروف ہے اور اس کی وجہ قومی دفاع بتائی جاتی ہے۔ کیا ان احمقوں اور پاگلوں کو یہ احساس نہیں کہ 1945ء میں آج کے ایٹمی ہتھیاروں سے سیکڑوں گنا کم طاقتور ایٹمی ہتھیار نے ہیروشیما اور ناگاساکی کو جلاکر رکھ دیا تھا اور انسان جل کر کوئلہ بن گئے تھے۔
اس سے قبل کہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور تجربوں کے بھیانک نتائج کا جائزہ لیا جائے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ اسی کرہ ارض کا امن اور ترقی پسند انسان انسانوں کی بھلائی کے لیے کیا کچھ کر رہا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی تحقیق اور انکشافات نے ماضی کی دنیا کا چہرہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے، انسانیت کی بھلائی کا کام کرنے والے عظیم انسان زندگی کے ہر شعبے میں ایسے ترقیاتی کام انجام دے رہے ہیں جس کی وجہ زندگی جنت میں بدل گئی ہے۔ طب کے شعبے میں دل دماغ گردوں اور جگر کی پیوندکاری کی وجہ انسان موت سے دور اور زندگی سے نزدیک ہوتا جا رہا ہے۔
ہم نے انسانی ترقی کے نتیجے میں دنیا کے جنت میں بدلنے کی بات کی تھی تو ہمارے ذہن میں یہ خیال کوندے کی طرح لپکا کہ کیا دنیا کے 7 ارب انسانوں کی زندگی بھی جنت بن گئی ہے؟ اس سوال کا جواب بڑا مایوس کن ہے کیونکہ دنیا کے 7 ارب انسان جہنم کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن ان ساری وجوہات کی ماں سرمایہ دارانہ نظام ہے اس طبقاتی نظام نے 90 فیصد انسانوں کو دو وقت کی روٹی سے محروم کردیا ہے اور 2 فیصد اشرافیہ دنیا میں جنت کے مزے لوٹ رہی ہے اس 90 فیصد اکثریت کا مسئلہ ایٹم بم نہیں ایک آسودہ زندگی ہے اور اس آسودہ زندگی کو دنیا کے شاطر سیاستدانوں نے قومی مفاد کے نام پر تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔
قومی مفادات کے نام پر ہی اربوں کے ہتھیار خریدے جاتے ہیں قومی مفادات کے نام پر ہی لاکھوں غریب انسانوں پر مشتمل فوج رکھی جاتی ہے، علاقائی تنازعات پیدا کیے جاتے ہیں اور ان تنازعات کو بنیاد بناکر اربوں روپوں کا اسلحہ خریدا جاتا ہے اور مغرب کی اسلحے کی صنعت ہتھیاروں کی تجارت سے اربوں ڈالرکماتی ہے۔
اقوام عالم کے تنازعات کے حل کے لیے ایک ادارہ اقوام متحدہ کے نام سے بنایا گیا لیکن یہ ادارہ دنیا کے تنازعات حل کرنے سے اس لیے قاصر ہے کہ یہ مقدس ادارہ بڑی طاقتوں خصوصاً امریکا کی رکھیل بن کر رہ گیا ہے۔ اگر دنیا کو جنگوں اور ہتھیاروں کی بھرمار سے بچانا ہو تو اس ادارے کو بڑی طاقتوں کی غلامی سے آزاد کرانا ہوگا۔ ورنہ یہ ادارہ دنیا پر ایک بوجھ بنا رہے گا اور اس کا کام قراردادیں پاس کرنا ہی رہ جائے گا قراردادوں پر عمل کرانا اس کے بس سے باہر ہوگا۔
اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہتھیاروں کی تیاری اور جنگوں کی وجہ کیا ہے؟ یہ کوئی ریاضی یا الجبرا کا پیچیدہ سوال نہیں بلکہ آسان ترین سوالوں میں سے بھی آسان ترین سوال ہے اور اس کا جواب سوال سے زیادہ آسان ترین ہے۔
اس آسان ترین سوال کا آسان ترین جواب یہ ہے کہ دنیا کے انسانوں کو رنگ نسل زبان قومیت ملک و ملت کے نام پر تقسیم کردیا گیا ہے۔ زبان انسان کی اختیار کردہ ہے رنگ نسل کی تقسیم فطری تو ہے لیکن انسان ہی نے اسے نزاع کا باعث بنادیا۔ ملک خدا نے نہیں بلکہ انسانوں نے ہی بنائے خدا کی زمین پر جغرافیائی لکیریں کھینچ کر اسے ملکوں کے نام دیے جب ملک بنائے تو اس کی حفاظت کی ضرورت بھی پیش آئی سو اس کے لیے ہر ملک نے ایک محکمہ دفاع کے نام پر قائم کیا جس پر بجٹ کا ایک بڑا حصہ خرچ کیا جاتا ہے۔
اربوں کے ہتھیار خریدے جاتے ہیں فوجوں پر اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ انسان کو مختلف حوالوں سے تقسیم کر دیا گیا ہے اور اس تقسیم کو محبت، بھائی بندی اور یکجہتی پر استوار کرنے کے بجائے مخاصمت، تعصب، دشمنی اور نفرتوں پر استوارکیا گیا اور اس کے سات ایسے دائمی اختلافات بھی پیدا کردیے گئے کہ انسانوں کے درمیان محبت پیدا کرنا ناممکن بنادیا گیا۔
ہمارے مذہب میں رب العالمین کا ذکر ہے، رب المسلمین کا ذکر نہیں کیا ہم رب العالمین کی رسی پکڑکر دنیا کے انسانوں کے درمیان صدیوں سے موجود نفرتوں عداوتوں کو ختم نہیں کرسکتے؟ کیا ہم انسانوں کے درمیان محبت بھائی چارہ قائم نہیں کرسکتے؟ کہ نہ روایتی ہتھیاروں کی ضرورت رہے نہ ایٹمی ہتھیاروں کی؟