منشی پریم چند کا ’ہنس‘
منشی جی اگر آج ہمارے درمیان موجود ہوتے تو وہ اپنے قلم کو تلوار کی...
zahedahina@gmail.com
نویں اورمیٹرک میں منشی پریم چند کی کہانیاں ''شطرنج کی بازی'' اور ''حج اکبر'' ہمارے نصاب میں تھیں۔ ان کہانیوں کو پڑھ کر پریم چند کی سادگی سے بات کہنے کی شان، ان کی انسان دوستی اور رواداری دل پر نقش ہوگئی تھی۔ اس کے بعد انٹرمیڈیٹ میں ان کی مشہور کہانی ''کفن'' پڑھتے ہوئے اور پھر ان کی بہت سے کہانیاں اور ناول پڑھتے ہوئے کبھی خیال بھی نہیں آیا تھا کہ 31 جولائی 2012 کے دن میں دلی میں منشی جی کی 132 ویں سالگرہ کے موقعے پر اردو کے عظیم شاعر غالب کے نام سے منسوب شاندار آڈیٹویم میں ہندی اور اردو کے بڑے ادیبوں اور شاعروں کے سامنے منشی جی کو ہدیہ عقیدت پیش کر رہی ہوں گی۔ انھوں نے جس شاندار ادبی رسالے ''ہنس'' کو 1930 میں اپنی موت سے 6 برس پہلے شروع کیا تھا اور روپے نہ ہونے کی وجہ سے بند کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ 1931 سے دوبارہ چھاپنا شروع کیا لیکن روپے نہ ہونے کی وجہ سے ایک بار پھر 1935 میں ہنس بند ہوا جس کا دکھ منشی جی کو آخری سانس تک رہا۔ یوں بھی اس کے بعد وہ مشکل سے ایک برس جیے۔ ہنس کی کہانی برصغیر کے اکثر اعلیٰ ادبی رسالوں کی کہانی ہے۔
یہ ایک ناقابل یقین سی بات ہے کہ وہ 'ہنس' جو منشی پریم چند رقم نہ ہونے کہ وجہ سے بند کرنے پر مجبور ہوئے تھے، اسے ہندی کے ایک جانے مانے ادیب راجندر یادو جی نے اب سے 26 برس پہلے ایک بار پھر شروع کیا اور اب وہ 27 ویں برس میں قدم رکھ رہا ہے۔ دلی میں ہونیو الی یہ شاندار ادبی تقریب یادو جی کے حوصلے اور شیبا اسلم فہمی کی رات دن کی محنت کا نتیجہ تھی۔ راجندر یادو 84 برس کے ہو چکے لیکن ادب سے ان کی وابستگی اور منشی پریم چند سے ان کا تعلق ایسا نہیں کہ وہ دھوم دھڑکے سے اس کا اظہار نہ کریں۔ وہ ہر برس 'ہنس' کا ایک خاص شمارہ نکالتے ہیں اور ایک کانفرنس بھی کرتے ہیں۔ اس بار انھوں نے 'دین کی بیٹیاں'' کے عنوان سے ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔ جس میں 'آج کی دنیا میں مسلمان عورت کا وجود' (Muslim Women & Her Existence in Today`s World) پر بات چیت ہوئی۔
اس میں مشہور شاعر غلام ربانی تابان کی پرجوش سول رائٹس ایکٹی ویسٹ بیٹی صہبا فاروقی، رمینکا گپتا، چھتیس گڑھ بھوپال سے آئی ہوئی زلیخا جبیں، 'انڈیا ٹوڈے' کی منیشا پانڈے، ڈاکٹر شبنم خان اور کشور ناہید نے باتیں کیں۔
اس موضوع پر اپنا پرچا پیش کرنے سے پہلے میں نے منشی پریم چند کو ہدیۂ عقیدت پیش کیا۔ میرا کہنا تھا کہ منشی پریم چند جنہوں نے اردو کہانی کی بنیاد رکھی'نمک کا داروغہ' 'بڑے گھر کے بیٹی' 'خون سفید' اور 'قذاقی' جیسی یادگار کہانیاں لکھیں وہ قلم کے ایک سچے سپاہی تھے۔ انھوں نے غلام ہندوستان کے پچھڑے ہوئے لوگوں اور خاص طور سے یہاں کی عورت کے حق اور اس کی آزادی کی لڑائی اپنے قلم سے لڑی۔
منشی پریم چند اور علامہ راشد الخیری اس وقت کی درماندہ اور رسم و رواج کی چکی میں پستی ہوئی عورت کا احوال نہایت دردمندی سے لکھ رہے تھے۔ علامہ راشد الخیری کو اسی حوالے سے ''مصورِ غم'' کا خطاب ملا لیکن ہندو سماج اپنے اہم لوگوں کو خطابات سے کم ہی نوازتا ہے۔ اس کے باوجود جب منشی جی نے نومبر 1925 میں ایک ناول ''نرملا'' رسالہ ''چاند'' کے لیے قسط وار لکھنا شروع کیا تو اس کی ہندو سماج بہ طور خاص ہندو عورتوں میں اس کی دھوم مچ گئی۔ کتابی شکل میں یہ ناول شایع ہوا تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اس بارے میں ان کے بیٹے امرت رائے نے لکھا ہے کہ ''عورت کی زندگی کا درد جس طرح اس ناول میں سمٹ گیا ہے، ویسا منشی جی کے کسی اور ناول میں ممکن نہ ہوا۔ سماج کے ظالم ڈھکوسلے، شادی بیاہ میں لین دین کی نحوستیں، بیوہ کی بے چارگی اور بالکل اکیلا پن، بے جوڑ شادیوں کی پیچیدگیاں۔ اس ناول میں سب کچھ جیسے جاگ گیا اور بول پڑا۔''
دھان پان سے منشی جی کے بارے میں امرت رائے نے درست لکھا ہے کہ وہ قلم کے سپاہی تھے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں اور اپنے ناولوں کے ذریعے اس وقت کے ٹھہرے ہوئے سماج میں ہلچل پیدا کی۔ عورتوں کا پچھڑا پن اور ان کی دکھ سے بھری ہوئی زندگی، پریم چند کے دل میں کانٹے کی طرح چبھتی تھی۔ عورتوں کے بارے میں انھوں نے 'مادھوری' میں کئی کہانیاں لکھیں لیکن رسالہ 'چاند' میں جو عورتوں کے لیے ہی نکلتا تھا، اس میں ہمیں منشی جی کی متعدد کہانیاں ملتی ہیں جن میں انھوں نے ظلم سہتی ہوئی عورت کے مختلف پہلو ہمیں دکھائے۔ ان کی کاٹ دار تحریر نے بہت سے لوگوں کو ان کا دشمن بنا دیا لیکن وہ کبھی بھی ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے۔ انھوں نے 'ہنس' کو ایک ادبی مورچے کے طور پر مارچ 1930 میں شروع کیا۔ اس وقت انھوں نے لکھا تھا:
''جب شری رام چندر جی، سمندر پر پل باندھ رہے تھے، اس وقت چھوٹے چھوٹے جانوروں اور پرندوں نے مٹی لا لا کر سمندر پاٹنے میں مدد کی تھی۔ اس وقت ملک میں آزادی کی بہت مشکل لڑائی چھڑی ہوئی ہے۔' ہنس' بھی اپنی ننھی چونچ سے چٹکی بھر مٹی لیے ہوئے آزادی کی جنگ میں سمندر پاٹنے چلا ہے۔''
'ہنس' کی اشاعت کے 26 سال مکمل ہونے پر 'ہنس' کا یہ کرم مجھے ہمیشہ یاد رہے گا کہ جب افغانستان اور طالبان کے بارے میں میری ایک کہانی ''رقصِ مقابر'' کو چھاپنے سے کراچی اور دلی کے دو پرچوں نے انکار کر دیا تھا تو یہ 'ہنس' تھا جس میں میری یہ کہانی چھپی جس کا ہندی ترجمہ کان پور کے جانے مانے ادیب حیدر جعفری سید نے کیا تھا۔ اور یوں اردو میں لکھی جانے والی کہانی پہلے ہندی اور اس کے کئی برس بعد اردو میں شایع ہوئی۔
اس روز میں نے کہا کہ اس سے زیادہ مناسب بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ منشی پریم چند کی یاد مناتے ہوئے برصغیر کی مسلمان عورتوں کی صورتحال پر بات کی جائے۔ منشی جی اگر آج ہمارے درمیان موجود ہوتے تو وہ اپنے قلم کو تلوار کی طرح سونت کر مسلمان عورتوں کی آزادی کے لیے لکھتے اور لڑتے۔ 22 جنوری 1930 میںایک نوجوان ادیب کو خط میں انھوں نے لکھا تھا: 'نوجوانوں کو امیدوں سے بھرے دل سے لکھنا چاہیے۔ ایسی سچی اور پرزور تحریریں جس سے وہ دوسروں میں اس جذبے کو جگا سکیں۔ میرے خیال میں ادب کا سب سے بلند مقصد دوسروں کی دست گیری کرنا اور انھیں ترقی دینا ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ آپ انسانوں کی تخلیق کریں۔ نڈر، سچے، آزاد انسان، حوصلہ مند، جری انسان، اونچے آدرشوں والے انسان۔ اس وقت ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے۔
دلی میں جو ادبی گہما گہمی ہے، فنون لطیفہ کے جتنے پروگرام ہوتے ہیں، وہاں جائو تو جی چاہتا ہے ان سب میں شریک ہوا جائے لیکن وہ ممکن نہیں ہوتا اور اس مرتبہ ایک چھوٹے سے حادثے نے اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ میں جا کر اپنے دوستوں سے مل سکوں، کتابیں خرید سکوں۔ پانچ روز تک میں انڈیا انٹرنیشنل سینٹر کے کمرہ نمبر 19 میں اسیر رہی لیکن 'ذہن جدید' کے مدیر اور معروف شاعر زبیر رضوی، اروشی بوٹالیا، پروفیسر اوما چکرورتی، پرویز احمد جو ہندوستان میں پاکستانی ٹیلی ویژن چینل اے آر وائی کے نمایندے ہیں اور اچھے ڈرامے لکھتے ہیں، جمشید جہاں رضوی ، انیس امروہوی اور کئی دوسرے دوستوں نے میرا جس طرح اور جس قدر خیال رکھا اس نے مجھے محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ میں گھر سے دوری پر ہوں۔
شاد نوید اٹھارہویں صدی سے اب تک کی اردو شاعرات پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ وہ پروفیسر اوما چکرورتی کے ساتھ آئے اور بہت دیر تک آج کی شاعرات کے بارے میں سوالات کرتے رہے۔ شیبا فہمی جو 'ہنس' کے اس پروگرام کی کوآرڈینیٹر تھیں اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ااسکول آف سوشل سائنسز سے وابستہ ہیں، انھوں نے حق میزبانی ادا کر دیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سارہ رائے سے ملاقات ہوئی جو عزیز دوست ہیں۔ مجھے یہ معلوم ہوا تھا کہ وہ دو مہینے سے پیرس میں ہیں لیکن وہ چند دنوں پہلے الہ آباد پہنچ گئی تھیں۔ انھیں معلوم ہوا کہ میں 'ہنس' کے سیمینار میں شرکت کے لیے دلی آ رہی ہوں تو وہ الہ آباد سے دلی آ گئیں۔ وہ ہندی کی معروف ادیبہ ہیں۔ ان کا ناول ''چیل والی کوٹھی'' بہت مشہور ہوا۔ میں 2011 میں ان کا یہ ناول ساتھ لائی تھی۔ زیبا علوی سے اصرار اور فرمائش کر کے میں نے اس کا اردو ترجمہ کروایا جو کچھ دنوں بعد شایع ہوگا۔
وہ پریم چند کے بیٹے شپت رائے اور زہرا رائے کی بیٹی ہیں۔ پریم چند اگر آج زندہ ہوتے تو کس قدرخوش ہوتے کہ کہانی لکھنے کی روایت ان کے خاندان میں شان سے زندہ ہے۔
یہ ایک ناقابل یقین سی بات ہے کہ وہ 'ہنس' جو منشی پریم چند رقم نہ ہونے کہ وجہ سے بند کرنے پر مجبور ہوئے تھے، اسے ہندی کے ایک جانے مانے ادیب راجندر یادو جی نے اب سے 26 برس پہلے ایک بار پھر شروع کیا اور اب وہ 27 ویں برس میں قدم رکھ رہا ہے۔ دلی میں ہونیو الی یہ شاندار ادبی تقریب یادو جی کے حوصلے اور شیبا اسلم فہمی کی رات دن کی محنت کا نتیجہ تھی۔ راجندر یادو 84 برس کے ہو چکے لیکن ادب سے ان کی وابستگی اور منشی پریم چند سے ان کا تعلق ایسا نہیں کہ وہ دھوم دھڑکے سے اس کا اظہار نہ کریں۔ وہ ہر برس 'ہنس' کا ایک خاص شمارہ نکالتے ہیں اور ایک کانفرنس بھی کرتے ہیں۔ اس بار انھوں نے 'دین کی بیٹیاں'' کے عنوان سے ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔ جس میں 'آج کی دنیا میں مسلمان عورت کا وجود' (Muslim Women & Her Existence in Today`s World) پر بات چیت ہوئی۔
اس میں مشہور شاعر غلام ربانی تابان کی پرجوش سول رائٹس ایکٹی ویسٹ بیٹی صہبا فاروقی، رمینکا گپتا، چھتیس گڑھ بھوپال سے آئی ہوئی زلیخا جبیں، 'انڈیا ٹوڈے' کی منیشا پانڈے، ڈاکٹر شبنم خان اور کشور ناہید نے باتیں کیں۔
اس موضوع پر اپنا پرچا پیش کرنے سے پہلے میں نے منشی پریم چند کو ہدیۂ عقیدت پیش کیا۔ میرا کہنا تھا کہ منشی پریم چند جنہوں نے اردو کہانی کی بنیاد رکھی'نمک کا داروغہ' 'بڑے گھر کے بیٹی' 'خون سفید' اور 'قذاقی' جیسی یادگار کہانیاں لکھیں وہ قلم کے ایک سچے سپاہی تھے۔ انھوں نے غلام ہندوستان کے پچھڑے ہوئے لوگوں اور خاص طور سے یہاں کی عورت کے حق اور اس کی آزادی کی لڑائی اپنے قلم سے لڑی۔
منشی پریم چند اور علامہ راشد الخیری اس وقت کی درماندہ اور رسم و رواج کی چکی میں پستی ہوئی عورت کا احوال نہایت دردمندی سے لکھ رہے تھے۔ علامہ راشد الخیری کو اسی حوالے سے ''مصورِ غم'' کا خطاب ملا لیکن ہندو سماج اپنے اہم لوگوں کو خطابات سے کم ہی نوازتا ہے۔ اس کے باوجود جب منشی جی نے نومبر 1925 میں ایک ناول ''نرملا'' رسالہ ''چاند'' کے لیے قسط وار لکھنا شروع کیا تو اس کی ہندو سماج بہ طور خاص ہندو عورتوں میں اس کی دھوم مچ گئی۔ کتابی شکل میں یہ ناول شایع ہوا تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ اس بارے میں ان کے بیٹے امرت رائے نے لکھا ہے کہ ''عورت کی زندگی کا درد جس طرح اس ناول میں سمٹ گیا ہے، ویسا منشی جی کے کسی اور ناول میں ممکن نہ ہوا۔ سماج کے ظالم ڈھکوسلے، شادی بیاہ میں لین دین کی نحوستیں، بیوہ کی بے چارگی اور بالکل اکیلا پن، بے جوڑ شادیوں کی پیچیدگیاں۔ اس ناول میں سب کچھ جیسے جاگ گیا اور بول پڑا۔''
دھان پان سے منشی جی کے بارے میں امرت رائے نے درست لکھا ہے کہ وہ قلم کے سپاہی تھے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں اور اپنے ناولوں کے ذریعے اس وقت کے ٹھہرے ہوئے سماج میں ہلچل پیدا کی۔ عورتوں کا پچھڑا پن اور ان کی دکھ سے بھری ہوئی زندگی، پریم چند کے دل میں کانٹے کی طرح چبھتی تھی۔ عورتوں کے بارے میں انھوں نے 'مادھوری' میں کئی کہانیاں لکھیں لیکن رسالہ 'چاند' میں جو عورتوں کے لیے ہی نکلتا تھا، اس میں ہمیں منشی جی کی متعدد کہانیاں ملتی ہیں جن میں انھوں نے ظلم سہتی ہوئی عورت کے مختلف پہلو ہمیں دکھائے۔ ان کی کاٹ دار تحریر نے بہت سے لوگوں کو ان کا دشمن بنا دیا لیکن وہ کبھی بھی ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے۔ انھوں نے 'ہنس' کو ایک ادبی مورچے کے طور پر مارچ 1930 میں شروع کیا۔ اس وقت انھوں نے لکھا تھا:
''جب شری رام چندر جی، سمندر پر پل باندھ رہے تھے، اس وقت چھوٹے چھوٹے جانوروں اور پرندوں نے مٹی لا لا کر سمندر پاٹنے میں مدد کی تھی۔ اس وقت ملک میں آزادی کی بہت مشکل لڑائی چھڑی ہوئی ہے۔' ہنس' بھی اپنی ننھی چونچ سے چٹکی بھر مٹی لیے ہوئے آزادی کی جنگ میں سمندر پاٹنے چلا ہے۔''
'ہنس' کی اشاعت کے 26 سال مکمل ہونے پر 'ہنس' کا یہ کرم مجھے ہمیشہ یاد رہے گا کہ جب افغانستان اور طالبان کے بارے میں میری ایک کہانی ''رقصِ مقابر'' کو چھاپنے سے کراچی اور دلی کے دو پرچوں نے انکار کر دیا تھا تو یہ 'ہنس' تھا جس میں میری یہ کہانی چھپی جس کا ہندی ترجمہ کان پور کے جانے مانے ادیب حیدر جعفری سید نے کیا تھا۔ اور یوں اردو میں لکھی جانے والی کہانی پہلے ہندی اور اس کے کئی برس بعد اردو میں شایع ہوئی۔
اس روز میں نے کہا کہ اس سے زیادہ مناسب بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ منشی پریم چند کی یاد مناتے ہوئے برصغیر کی مسلمان عورتوں کی صورتحال پر بات کی جائے۔ منشی جی اگر آج ہمارے درمیان موجود ہوتے تو وہ اپنے قلم کو تلوار کی طرح سونت کر مسلمان عورتوں کی آزادی کے لیے لکھتے اور لڑتے۔ 22 جنوری 1930 میںایک نوجوان ادیب کو خط میں انھوں نے لکھا تھا: 'نوجوانوں کو امیدوں سے بھرے دل سے لکھنا چاہیے۔ ایسی سچی اور پرزور تحریریں جس سے وہ دوسروں میں اس جذبے کو جگا سکیں۔ میرے خیال میں ادب کا سب سے بلند مقصد دوسروں کی دست گیری کرنا اور انھیں ترقی دینا ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ آپ انسانوں کی تخلیق کریں۔ نڈر، سچے، آزاد انسان، حوصلہ مند، جری انسان، اونچے آدرشوں والے انسان۔ اس وقت ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے۔
دلی میں جو ادبی گہما گہمی ہے، فنون لطیفہ کے جتنے پروگرام ہوتے ہیں، وہاں جائو تو جی چاہتا ہے ان سب میں شریک ہوا جائے لیکن وہ ممکن نہیں ہوتا اور اس مرتبہ ایک چھوٹے سے حادثے نے اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ میں جا کر اپنے دوستوں سے مل سکوں، کتابیں خرید سکوں۔ پانچ روز تک میں انڈیا انٹرنیشنل سینٹر کے کمرہ نمبر 19 میں اسیر رہی لیکن 'ذہن جدید' کے مدیر اور معروف شاعر زبیر رضوی، اروشی بوٹالیا، پروفیسر اوما چکرورتی، پرویز احمد جو ہندوستان میں پاکستانی ٹیلی ویژن چینل اے آر وائی کے نمایندے ہیں اور اچھے ڈرامے لکھتے ہیں، جمشید جہاں رضوی ، انیس امروہوی اور کئی دوسرے دوستوں نے میرا جس طرح اور جس قدر خیال رکھا اس نے مجھے محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ میں گھر سے دوری پر ہوں۔
شاد نوید اٹھارہویں صدی سے اب تک کی اردو شاعرات پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ وہ پروفیسر اوما چکرورتی کے ساتھ آئے اور بہت دیر تک آج کی شاعرات کے بارے میں سوالات کرتے رہے۔ شیبا فہمی جو 'ہنس' کے اس پروگرام کی کوآرڈینیٹر تھیں اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ااسکول آف سوشل سائنسز سے وابستہ ہیں، انھوں نے حق میزبانی ادا کر دیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سارہ رائے سے ملاقات ہوئی جو عزیز دوست ہیں۔ مجھے یہ معلوم ہوا تھا کہ وہ دو مہینے سے پیرس میں ہیں لیکن وہ چند دنوں پہلے الہ آباد پہنچ گئی تھیں۔ انھیں معلوم ہوا کہ میں 'ہنس' کے سیمینار میں شرکت کے لیے دلی آ رہی ہوں تو وہ الہ آباد سے دلی آ گئیں۔ وہ ہندی کی معروف ادیبہ ہیں۔ ان کا ناول ''چیل والی کوٹھی'' بہت مشہور ہوا۔ میں 2011 میں ان کا یہ ناول ساتھ لائی تھی۔ زیبا علوی سے اصرار اور فرمائش کر کے میں نے اس کا اردو ترجمہ کروایا جو کچھ دنوں بعد شایع ہوگا۔
وہ پریم چند کے بیٹے شپت رائے اور زہرا رائے کی بیٹی ہیں۔ پریم چند اگر آج زندہ ہوتے تو کس قدرخوش ہوتے کہ کہانی لکھنے کی روایت ان کے خاندان میں شان سے زندہ ہے۔