ریٹائرڈ ملازمین اور چیف جسٹس

اپنی جائز پنشن اور واجبات کے حصول کے انتظار میں کئی ضعیف ملازمین جان سے جا چکے ہیں کئی معذور ہوگئے ہیں۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

ہماری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ غیر متعلقہ امور میں دلچسپی لیتے ہیں ، مثلاً اعتراض کیا جاتا ہے کہ چیف جسٹس دودھ کی چیکنگ کرتے پھرتے ہیں کہ دودھ خالص ہے یا پانی ملا ہوا ہے۔ اسی طرح کئی عوامی مسائل میں دلچسپی لیتے نظر آتے ہیں جن سے بہ ظاہر ان کا کوئی تعلق نہیں بنتا لیکن وہ ان مسائل کا جائزہ لیتے رہتے ہیں اور انھیں حل کرنے کے لیے متعلقہ حکام کو تلقین بھی کرتے ہیں اور حکم بھی دیتے ہیں۔

یہ بالکل بجا ہے کہ دودھ میں ملاوٹ پانی کی کمی کا مسئلہ سبزی گوشت کی قیمتوں کا مسئلہ کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ کا مسئلہ ان تمام مسئلوں سے چیف جسٹس کا براہ راست کوئی تعلق نہیں کیونکہ ان مسائل کے حل کی ذمے داری صوبائی حکومت کی ہوتی ہے اور صوبائی حکومت کو ان مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں اور دلچسپی اس لیے نہیں کہ صوبائی حکومت ''دوسرے بڑے بڑے'' کاموں میں مصروف رہتی ہے ان چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے نہ اس کے پاس وقت ہوتا ہے نہ دلچسپی ۔

ایسا ہی ایک چھوٹا کام ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن اورگریجویٹی کا ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین اپنی عمر کا تین چوتھائی حصہ سرکاری ملازمت میں گزار نے کے بعد جب وہ ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں تو اچانک ان کی آمدن کا ذریعہ ختم ہوجاتا ہے اور ان کے سامنے فاقے منہ کھولے کھڑے ہوتے ہیں کیونکہ ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ ان کی تنخواہ بند ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ ریٹائرڈ ملازمین اپنے واجبات کے حصول کے بعد بچوں کی شادی کرنا چاہتے ہیں ،کوئی ایک پلاٹ خریدکر چھوٹا سا گھر بنانے کی منصوبہ بندی کرتا ہے تو کوئی عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کا پروگرام بناتا ہے لیکن جب انھیں پنشن ملتی ہے نہ واجبات تو وہ نیم پاگل ہوجاتے ہیں۔

اس مسئلے کا درست حل یہ ہوتا ہے کہ ملازم کے ریٹائر ہونے سے قبل ہی تمام کاغذی کارروائی مکمل کرلی جائے اور جیسے ہی سرکاری ملازم ریٹائر ہوتا ہے اس کی پنشن جاری کردی جاتی ہے اور واجبات ادا کردیے جاتے ہیں۔ ملک کے دوسرے صوبوں میں تو بڑی حد تک اس پر عمل ہو رہا ہے لیکن صوبہ سندھ خصوصاً کراچی میں صورتحال یہ ہے کہ ملازمین کو ریٹائر ہوئے تین تین سال ہوجاتے ہیں لیکن نہ ان کی پنشن جاری ہوتی ہے نہ واجبات ادا کیے جاتے ہیں۔ ڈی ایم سیز والے زردار لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں سندھ حکومت کی طرف سے فنڈ ہی نہیں ملا ہے ، ہم کیا کریں؟ کے ایم سی ڈی ایم سیزکو اس حوالے سے بلاتاخیر فنڈ فراہم کرنا چاہیے لیکن بات ہے کسی مسئلے کی اہمیت کی۔

جب حکومتیں اپنی یہ قانونی اور اخلاقی ذمے داری پوری نہیں کرسکتیں تو پھر کسی نہ کسی کو تو آگے بڑھ کر یہ ذمے داری اور پریشان حال ریٹائرڈ ملازمین کی تکالیف اور مشکلات کا ازالہ تو کرنا پڑتا ہے۔ کراچی کے سیکڑوں ریٹائر ملازمین چیف جسٹس کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ اس بے حد سنگین مسئلے پر توجہ دے کر حکومت سندھ کو ہدایت کریں گے کہ وہ تین تین سال سے پنشن اور واجبات سے محروم ریٹائرڈ ملازمین کو ان کی پنشن جاری کرنے اور واجبات ادا کرنے کی ہدایت کرکے سیکڑوں ضعیف اور معذور ریٹائرڈ ملازمین کی داد رسی فرمائیں گے۔ واضح رہے کہ اپنی جائز پنشن اور واجبات کے حصول کے انتظار میں کئی ضعیف ملازمین جان سے جا چکے ہیں کئی معذور ہوگئے ہیں۔


فارغ ہونے والی حکومت کے دور میں مسائل کے انبار لگ گئے تھے، انتظامیہ کی کارکردگی قابل افسوس ہی نہیں قابل شرم تھی خاص طور پر مختلف محکموں کے ملازمین کی تنخواہیں مہینوں نہیں دی جاتی تھیں اور تنخواہ سے محروم ملازمین خصوصاً اساتذہ اپنی رکی ہوئی تنخواہوں کے لیے احتجاج کرتے نظر آتے۔ احتجاجی ملازمین پر پولیس کا لاٹھی چارج ، آنسو گیس کا استعمال اور ہوائی فائرنگ سے استقبال کیا جاتا تھا یہ طریقہ کار انتہائی ظالمانہ تھا۔ یہ کس قدر شرمناک بات ہے کہ مہینہ بھر کام کرنے والوں کو تنخواہ کے بجائے لاٹھی، گولی دی جاتی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر محکمے کے ملازمین کی تنخواہوں کا بجٹ ہوتا ہے پھر تنخواہیں مہینوں تک روکنا کہاں کا انصاف ہے۔

اسٹیل ملزکے ملازمین کا مسئلہ برسوں سے لٹکا ہوا ہے، اسٹیل ملز بند ہے ملازمین بے کار بیٹھے ہیں اور چار چار پانچ پانچ ماہ تنخواہوں سے محروم رہتے ہیں چار پانچ ماہ کے بعد انھیں ایک ماہ کی تنخواہ دی جاتی ہے یہ سارے کارنامے میڈیا میں رپورٹ ہوتے ہیں اور حکام بالا کی نظروں سے گزرتے ہیں ۔کیا حکام بالا کی اہلیت یہی ہے کہ ملازمین کو مہینوں تک تنخواہوں سے محروم رکھا جائے کیا اسٹیل ملز کا مسئلہ یوں ہی لٹکا رہے گا ؟

ایک عام آدمی کی سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ اسٹیل ملز اگر بند ہے تو بند ہونے کی وجوہات تلاش کی جائیں اور اگر ملزکو دوبارہ چلانا ممکن ہے تو پورے وسائل کے ساتھ ملز کو چلانے کی کوشش کی جائے اور اگر خدانخواستہ ملز کا چلانا ناممکن ہے تو پھر اس کو فروخت کردیا جائے کوئی تو حل نکالا جانا چاہیے محض اس مسئلے کو عشروں سے لٹکائے رکھنا تو اس مسئلے کا حل نہیں ۔ کیا مرکزی حکومت اس سنگین مسئلے سے ناواقف ہے؟

اسٹیل ملز کے ملازمین ابھی کام کرنے کے قابل ہیں اگر انھیں کوئی متبادل ملازمت مل جائے تو یقینا ہزاروں ملازمین اپنی روٹی کمانے کے قابل ہوسکتے ہیں اس اہم ترین مسئلے پر حکومت ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی رہتی ہے تو پھر کیا چیف جسٹس کا اس قسم کے سنگین مسائل میں دخل دینا دائرہ کار سے تجاوز کہلا سکتا ہے؟

ہم نے بلدیہ ڈی ایم سی کے ریٹائرڈ ملازمین کی تین چار سال سے پنشن اور واجبات کے حوالے سے بات شروع کی تھی۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ چلنے پھرنے تک سے مجبور ضعیف ریٹائرڈ ملازمین کو برسوں سے رلایا جا رہا ہے، جانے والی حکومت کے ایجنڈے میں اس قسم کے مسائل شامل ہی نہیں تھے۔ ریٹائرڈ ضعیف ملازمین مجبور ہوکر سڑکوں پر بھی آتے رہے لیکن ان کی شنوائی نہیں ہوئی۔ اب سندھ کو سائیوں کی حکومت سے چھٹکارا مل چکا ہے اور نئی عبوری حکومت نے اقتدار سنبھال لیا ہے بلاشبہ حکومت کے سامنے مسائل کا انبار لگا ہوا ہوگا لیکن عبوری حکومت کو ترجیحات کا تعین کرنا چاہیے۔

ریٹائرڈ ضعیف ملازمین تین سالوں سے اپنی پنشن اور گریجویٹی سے محروم ہیں، بلدیہ کے حکام کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ نے اس مد میں فنڈ ہی جاری نہیں کر رہی ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین ہر طرف سے مایوس ہوکر چیف جسٹس کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ عبوری حکومت کو ہدایت کریں کہ ڈی ایم سیز کے تین سال سے پنشن اور واجبات سے محروم ہزاروں ضعیف ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن جاری کروائیں اور واجبات کی ادائیگی کی عبوری حکومت کو ہدایت کریں۔
Load Next Story