کرپشن کا آسان علاج
ہم نے ابتدا میں وضاحت کردی تھی کہ اشرافیہ کو کرپشن کے کھلے مواقعے حاصل ہیں۔
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
ملکوں کی معیشت اور عوامی مفادات کو سخت نقصان پہنچانے والے بعض محرک ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر مختلف زاویوں سے بار بار لکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، ایسا ہی ایک محرک یا موضوع کرپشن ہے جو قومی وجود سے لے کر بین الاقوامی حدود تک ایک کینسر کی بیماری کی طرح پھیلا ہوا ہے۔
اس کا حال ایسا ہے مدت بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی دنیا میں بڑے بڑے فلسفی بڑے بڑے مفکر بڑے بڑے معاشی ماہرین موجود ہیں اورکرپشن کی مہلک بیماری سے سب واقف ہیں لیکن یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج تک اس مہلک بیماری کا مکمل علاج دریافت نہیں کیا جا سکا ۔ ویسے بڑی سنجیدگی سے بھی بعض ملکوں میں اس عالمی بیماری کا علاج کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے لیکن یہ علاج ٹونے ٹونکوں سے زیادہ کار آمد ثابت نہ ہوسکے۔
آج کل پاکستان میں بھی عدلیہ اس مہلک بیماری کا مختلف طریقوں سے علاج کرنے کی کوشش کررہی ہے لیکن یہ بیماری کاکروچ کی طرح ہے جہاں چھوٹی سی جگہ ملتی ہے گھس جاتی ہے اور کاکروچ ہی کی طرح اس تیزی سے پھیلتی ہے کہ علاج کرنے والے سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اچھے معالج جب کسی بیماری کا علاج شروع کرتے ہیں تو پہلے اس کے محرکات کا پتا چلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس بیماری کے محرک کا مختصر انداز میں ذکر کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ خوب سے خوب تر زندگی کے لیے زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کا جنون اس بیماری کی جڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں بلا تخصیص عوام کو ایک آسودہ زندگی گزارنے کے مواقعے حاصل نہیں جیسا کہ ہم نے نشان دہی کی ہے خوب سے خوب تر زندگی کی تلاش میں نکلنے والا گھوم پھر کر کرپشن کی وادیوں ہی میں پہنچ جاتا ہے اگر با اختیار لوگ چاہیں تو اس بیماری کی روک تھام اس طرح کی جاسکتی ہے کہ ہر شخص کو حصول دولت کے جائز مواقعے دستیاب ہوں اور معیار زندگی کا ایک منصفانہ تعین ہو، جن معاشروں میں اشرافیہ کو جائز وناجائز طریقوں سے دولت حاصل کرنے کے مواقعے حاصل ہوتے ہیں ۔ ان معاشروں میں ارتکاز دولت لازمی ہوتا ہے۔
اس کے برخلاف عام آدمی کو جسے دو وقت کی روٹی مشکل سے حاصل ہوتی ہے ، حصول دولت کے مواقعے دستیاب نہیں ہوتے جب یہ طبقات جائز طریقے سے اپنی ضروریات پوری نہیں کرسکتے تو ناجائز طریقے استعمال کرنے پر اتر آتے ہیں لیکن چونکہ اشرافیہ کی طرح انھیں دولت کے انبار جمع کرنے کے مواقعے حاصل نہیں ہوتے اس لیے وہ حصہ بقدر جثہ پر عمل پیرا ہوتے ہیں طبقاتی سماج میں ہر طبقہ کرپٹ ہوتا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ اشرافیہ اربوں کھربوں کی کرپشن کا ارتکاب کرتی ہے اور عام آدمی دستیاب مواقعوں کے مطابق کرپشن کا ارتکاب کرتا ہے یہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے ایسے ناگزیر اصول ہیں جن پر ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق عمل کرتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام معیشت کا مسخرہ پن یہ ہے کہ کرپشن کے محافظ ایسے قانون موجود ہیں جو سامنے نظر آنے والے بڑے بڑے اربوں کی کرپشن کرنے والوں کو مکھن سے بال کی طرح نکال لیتے ہیں۔ پاناما لیکس کی دنیا بھر میں شہرت ہے کہ اس لیکس نے دنیا کے کرپٹ افراد کی فہرست مہیا کردی ہے، پاناما لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد دنیا کو معلوم ہوا کہ کرپشن کا ذریعہ بننے والے آف شور کمپنیاں موجود ہیںجو کرپشن کے نئے نئے راستے دکھاتی ہیں ۔ ہمارے ملک کے کئی نامور لوگوں کی آف شور کمپنیاں ہیں اور کھلے عام اربوں کی کرپشن کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔
بعض اداروں کے سربراہ اور اعلیٰ سطح کے سرکاری ملازمین کے گھروں سے کروڑوں مالیت کی کرنسی بازیاب ہورہی ہیں اور ان کے خلاف قانونی کارروائیاں بھی ہورہی ہیں لیکن قانون ہی کے ذریعے اس ہیوی ویٹ کرپشن کا دفاع کیا جا رہا ہے بلکہ مقامِ شرم ہے کہ اپنی پیشانیوں پر اربوں کی کرپشن کے ملزمین سینہ تان کر کہہ رہے ہیں کہ ہے کوئی مائی کا لعل جو ہم پر ایک دھیلے کی کرپشن ثابت کردے۔!! یہ ہے وہ نظام معیشت جہاں جرم اس دھڑلے سے کیے جاتے ہیں کہ دیکھنے اور سننے والوں کو سکتہ ہوجاتا ہے یہی اس نظام کا جادو ہے کہ جرم کرواتا ہے اور مجرموں کو صاف بچا بھی لیتا ہے۔
ہم نے ابتدا میں وضاحت کردی تھی کہ اشرافیہ کو کرپشن کے کھلے مواقعے حاصل ہیں، اس حوالے سے یہ مثال دی جاسکتی ہے کہ سرکاری سطح پر اس بات کا اقرارکیا جا رہا ہے کہ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200 ارب روپے موجود ہیں۔ لیکن کوئی مائی کا لال ایسا نہیں کہ یہ 200 ارب روپے واپس لائے ، اسی طرح میڈیا میں اس بات کا خوب چرچا ہوتا رہا کہ اشرافیہ نے بینکوں سے ڈھائی کھرب روپوں کا قرض لے کر معاف کرالیا، یہ کیس اعلیٰ عدلیہ کی میز تک گیا لیکن نتیجہ کیا نکلا ''ٹائیں ٹائیں فش!!''
کرپشن بلاشبہ کینسر سے زیادہ خطرناک بیماری ہے لیکن ایسا نہیں کہ اس کا علاج ہی نہیں ہوسکتا، بس ایک معمولی سا چٹکلہ ہے کہ نجی ملکیت کے حق کو آسودہ زندگی تک محدود کردیاجائے، آسودہ زندگی کا مطلب ہے لگام زندگی نہیں بلکہ ایسی زندگی جس میں جائز اور اعتدال پسند خواہشات پوری ہوسکیں۔ ارتکاز زر کا موقع حاصل نہ ہو، یہ ایک عام سا علاج ہے لیکن ارتکاز زر کا مبلغ سرمایہ دارانہ نظام کسی قیمت یہ اس علاج کو تسلیم نہیں کرتا جس کا منطقی نتیجہ انقلاب فرانس ہے جس میں دولت اور وسائل پر عوام نے گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا، ہمارے ایک وزیراعلیٰ بار بار کہہ رہے ہیں کہ عوام کے حقوق نہ دیے گئے تو ملک کو خونی انقلاب سے کوئی نہیں بچاسکتا۔
اس کا حال ایسا ہے مدت بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی دنیا میں بڑے بڑے فلسفی بڑے بڑے مفکر بڑے بڑے معاشی ماہرین موجود ہیں اورکرپشن کی مہلک بیماری سے سب واقف ہیں لیکن یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج تک اس مہلک بیماری کا مکمل علاج دریافت نہیں کیا جا سکا ۔ ویسے بڑی سنجیدگی سے بھی بعض ملکوں میں اس عالمی بیماری کا علاج کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے لیکن یہ علاج ٹونے ٹونکوں سے زیادہ کار آمد ثابت نہ ہوسکے۔
آج کل پاکستان میں بھی عدلیہ اس مہلک بیماری کا مختلف طریقوں سے علاج کرنے کی کوشش کررہی ہے لیکن یہ بیماری کاکروچ کی طرح ہے جہاں چھوٹی سی جگہ ملتی ہے گھس جاتی ہے اور کاکروچ ہی کی طرح اس تیزی سے پھیلتی ہے کہ علاج کرنے والے سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اچھے معالج جب کسی بیماری کا علاج شروع کرتے ہیں تو پہلے اس کے محرکات کا پتا چلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس بیماری کے محرک کا مختصر انداز میں ذکر کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ خوب سے خوب تر زندگی کے لیے زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کا جنون اس بیماری کی جڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں بلا تخصیص عوام کو ایک آسودہ زندگی گزارنے کے مواقعے حاصل نہیں جیسا کہ ہم نے نشان دہی کی ہے خوب سے خوب تر زندگی کی تلاش میں نکلنے والا گھوم پھر کر کرپشن کی وادیوں ہی میں پہنچ جاتا ہے اگر با اختیار لوگ چاہیں تو اس بیماری کی روک تھام اس طرح کی جاسکتی ہے کہ ہر شخص کو حصول دولت کے جائز مواقعے دستیاب ہوں اور معیار زندگی کا ایک منصفانہ تعین ہو، جن معاشروں میں اشرافیہ کو جائز وناجائز طریقوں سے دولت حاصل کرنے کے مواقعے حاصل ہوتے ہیں ۔ ان معاشروں میں ارتکاز دولت لازمی ہوتا ہے۔
اس کے برخلاف عام آدمی کو جسے دو وقت کی روٹی مشکل سے حاصل ہوتی ہے ، حصول دولت کے مواقعے دستیاب نہیں ہوتے جب یہ طبقات جائز طریقے سے اپنی ضروریات پوری نہیں کرسکتے تو ناجائز طریقے استعمال کرنے پر اتر آتے ہیں لیکن چونکہ اشرافیہ کی طرح انھیں دولت کے انبار جمع کرنے کے مواقعے حاصل نہیں ہوتے اس لیے وہ حصہ بقدر جثہ پر عمل پیرا ہوتے ہیں طبقاتی سماج میں ہر طبقہ کرپٹ ہوتا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ اشرافیہ اربوں کھربوں کی کرپشن کا ارتکاب کرتی ہے اور عام آدمی دستیاب مواقعوں کے مطابق کرپشن کا ارتکاب کرتا ہے یہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے ایسے ناگزیر اصول ہیں جن پر ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق عمل کرتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام معیشت کا مسخرہ پن یہ ہے کہ کرپشن کے محافظ ایسے قانون موجود ہیں جو سامنے نظر آنے والے بڑے بڑے اربوں کی کرپشن کرنے والوں کو مکھن سے بال کی طرح نکال لیتے ہیں۔ پاناما لیکس کی دنیا بھر میں شہرت ہے کہ اس لیکس نے دنیا کے کرپٹ افراد کی فہرست مہیا کردی ہے، پاناما لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد دنیا کو معلوم ہوا کہ کرپشن کا ذریعہ بننے والے آف شور کمپنیاں موجود ہیںجو کرپشن کے نئے نئے راستے دکھاتی ہیں ۔ ہمارے ملک کے کئی نامور لوگوں کی آف شور کمپنیاں ہیں اور کھلے عام اربوں کی کرپشن کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔
بعض اداروں کے سربراہ اور اعلیٰ سطح کے سرکاری ملازمین کے گھروں سے کروڑوں مالیت کی کرنسی بازیاب ہورہی ہیں اور ان کے خلاف قانونی کارروائیاں بھی ہورہی ہیں لیکن قانون ہی کے ذریعے اس ہیوی ویٹ کرپشن کا دفاع کیا جا رہا ہے بلکہ مقامِ شرم ہے کہ اپنی پیشانیوں پر اربوں کی کرپشن کے ملزمین سینہ تان کر کہہ رہے ہیں کہ ہے کوئی مائی کا لعل جو ہم پر ایک دھیلے کی کرپشن ثابت کردے۔!! یہ ہے وہ نظام معیشت جہاں جرم اس دھڑلے سے کیے جاتے ہیں کہ دیکھنے اور سننے والوں کو سکتہ ہوجاتا ہے یہی اس نظام کا جادو ہے کہ جرم کرواتا ہے اور مجرموں کو صاف بچا بھی لیتا ہے۔
ہم نے ابتدا میں وضاحت کردی تھی کہ اشرافیہ کو کرپشن کے کھلے مواقعے حاصل ہیں، اس حوالے سے یہ مثال دی جاسکتی ہے کہ سرکاری سطح پر اس بات کا اقرارکیا جا رہا ہے کہ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200 ارب روپے موجود ہیں۔ لیکن کوئی مائی کا لال ایسا نہیں کہ یہ 200 ارب روپے واپس لائے ، اسی طرح میڈیا میں اس بات کا خوب چرچا ہوتا رہا کہ اشرافیہ نے بینکوں سے ڈھائی کھرب روپوں کا قرض لے کر معاف کرالیا، یہ کیس اعلیٰ عدلیہ کی میز تک گیا لیکن نتیجہ کیا نکلا ''ٹائیں ٹائیں فش!!''
کرپشن بلاشبہ کینسر سے زیادہ خطرناک بیماری ہے لیکن ایسا نہیں کہ اس کا علاج ہی نہیں ہوسکتا، بس ایک معمولی سا چٹکلہ ہے کہ نجی ملکیت کے حق کو آسودہ زندگی تک محدود کردیاجائے، آسودہ زندگی کا مطلب ہے لگام زندگی نہیں بلکہ ایسی زندگی جس میں جائز اور اعتدال پسند خواہشات پوری ہوسکیں۔ ارتکاز زر کا موقع حاصل نہ ہو، یہ ایک عام سا علاج ہے لیکن ارتکاز زر کا مبلغ سرمایہ دارانہ نظام کسی قیمت یہ اس علاج کو تسلیم نہیں کرتا جس کا منطقی نتیجہ انقلاب فرانس ہے جس میں دولت اور وسائل پر عوام نے گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا، ہمارے ایک وزیراعلیٰ بار بار کہہ رہے ہیں کہ عوام کے حقوق نہ دیے گئے تو ملک کو خونی انقلاب سے کوئی نہیں بچاسکتا۔