مقبوضہ کشمیر میں مقتول صحافی سپرد خاک بارش کے باوجود نماز جنازہ میں ہزاروں شریک
پولیس نے قتل کا الزام کشمیری عسکریت پسندوں پر عائد کردیا، لشکر طیبہ کی تردید، 12 عسکری تنظیموں کے اتحاد کا اظہارمذمت
بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا اظہار مذمت، پاکستان کا شجاعت بخاری کے قتل پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار۔ فوٹو: سوشل میڈیا
مقبوضہ کشمیر میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے قتل ہونے والے صحافی شجاعت بخاری کوضلع بارہ مولامیں آبائی گائوں کریری میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
شجاعت بخاری کو جمعرات کی شام سری نگر میں ان کے دفتر کے قریب نشانہ بنایا گیا تھا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مسلح افراد نے شجاعت بخاری پر اس وقت فائرنگ کی جب وہ اپنے اخبار کے دفتر ڈیلی رائزنگ کشمیر سے اپنے2محافظوں کے ہمراہ نکلے تھے۔
سری نگر پولیس کے سربراہ نے بتایاکہ مسلح افراد کے حملے میں شجاعت اور ان کا ایک محافظ موقع پر ہی ہلاک جبکہ دوسرا محافظ زخمی ہوا جوبعد میں دم توڑگیا۔ جمعے کی صبح شدید بارش کے باوجود ہزاروں افراد نے شجاعت بخاری کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ ان کے مطابق جنازے میں حکام اور علیحدگی پسند رہنمائوں کے علاوہ عوام کی بہت بڑی تعداد بھی شریک تھی۔ بعد نمازجمعہ سری نگر کی جامع مسجد میں بھی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔
پولیس نے شجاعت بخاری پر حملہ کرنے والے2افرادکے خاکے جاری کیے ہیں جو سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے تیار کیے گئے ہیں۔ تاحال کسی تنظیم یا گروپ نے حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی تاہم پولیس نے قتل کا الزام کشمیری عسکریت پسندوں پر عائد کیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق لشکر طیبہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کوئی بھی عسکریت پسند گروپ اس کارروائی میں ملوث نہیں۔ کشمیر میں سرگرم12عسکری تنظیموں کے اتحاد جہادکونسل کے سربراہ صلاح الدین نے بھی شجاعت بخاری کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے قتل کی عالمی سطح پرتحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
شجاعت بخاری کے قتل کی کشمیر میں حکومت اور حکومت مخالف تمام حلقوں کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ہے۔ انڈیا کے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے شجاعت بخاری کے قتل کو ایک بزدلانہ فعل قرار دیا ہے۔ اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں انھوں نے کہاکہ یہ کشمیر میں دانشمندانہ بات کرنے والوں کو خاموش کرنے کی کوشش ہے۔ شجاعت بخاری نے2008میںاخبار ڈیلی رائزنگ کشمیر شروع کیا تھا۔
شجاعت بخاری اپنا اخبار شروع کرنے سے قبل انڈیا کے اخبار دا ہندوکے نامہ نگار تھے۔ شجاعت بخاری نے دنیا کے کئی ممالک میں امن اور سیکیورٹی کی کانفرنسوں میں حصہ لیا۔50 سالہ شجاعت نے سوگواران میں والدین، اہلیہ اور 2 بچے سوگوارچھوڑے ہیں۔
واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں90کی دہائی سے شروع ہونے والی شورش میں کئی صحافی ہلاک ہوچکے ہیں اور پولیس ان کی ہلاکت کا ذمے دار جنگجوئوں کو قراردیتی رہی ہے۔
کشمیر کی صورتحال پر نگاہ رکھنے والے کئی افراد نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹوں اور تحریروں کے ذریعے کشمیری صحافی شجاعت بخاری کے قتل کے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے ہیں اور اس واقعے کا ماسٹر مائنڈ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کو قرار دیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق شجاعت بخاری پر حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب محض چند گھنٹے قبل جنیوا میںقائم اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے دفتر سے مقبوضہ کشمیر میںانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں ایک جامع رپورٹ جاری کی گئی اور ان خلاف ورزیوں کی عالمی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔
شجاعت بخاری نے قتل سے پہلے یہ رپورٹ سوشل میڈیا پر مشتہر کی تھی۔ نیٹ نیوز کے مطابق یاد رہے کہ شجاعت بخاری گزشتہ برس کشمیر کے معاملے پر پاکستانی نمائندوں کے ساتھ ہونے والے امن مذاکرات میں بھی رسمی طور پر شریک تھے جبکہ انھوں نے اپنے قتل سے چند گھنٹوں قبل ایک ٹویٹ بھی کیا تھا۔
پاکستان نے شجاعت بخاری کے قتل پرگہرے دکھ اورافسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے وحشیانہ اقدام کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔
ادھر حریت فورم کے چیئرمین میر واعظ عمرفاروق نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے مقبوضہ علاقے کی زمینی صورتحال کا عکاس قرار دیاہے۔
ایک بیان میں میر واعظ نے کہاکہ انسانی حقوق کی پامالیوںکی تحقیقات کیلیے ایک بااختیار کمیشن کے قیام کی ضرورت ہے۔ میر واعظ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو عید الفطر کی مبارکباد دی ہے۔
شجاعت بخاری کو جمعرات کی شام سری نگر میں ان کے دفتر کے قریب نشانہ بنایا گیا تھا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مسلح افراد نے شجاعت بخاری پر اس وقت فائرنگ کی جب وہ اپنے اخبار کے دفتر ڈیلی رائزنگ کشمیر سے اپنے2محافظوں کے ہمراہ نکلے تھے۔
سری نگر پولیس کے سربراہ نے بتایاکہ مسلح افراد کے حملے میں شجاعت اور ان کا ایک محافظ موقع پر ہی ہلاک جبکہ دوسرا محافظ زخمی ہوا جوبعد میں دم توڑگیا۔ جمعے کی صبح شدید بارش کے باوجود ہزاروں افراد نے شجاعت بخاری کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ ان کے مطابق جنازے میں حکام اور علیحدگی پسند رہنمائوں کے علاوہ عوام کی بہت بڑی تعداد بھی شریک تھی۔ بعد نمازجمعہ سری نگر کی جامع مسجد میں بھی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔
پولیس نے شجاعت بخاری پر حملہ کرنے والے2افرادکے خاکے جاری کیے ہیں جو سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے تیار کیے گئے ہیں۔ تاحال کسی تنظیم یا گروپ نے حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی تاہم پولیس نے قتل کا الزام کشمیری عسکریت پسندوں پر عائد کیا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق لشکر طیبہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کوئی بھی عسکریت پسند گروپ اس کارروائی میں ملوث نہیں۔ کشمیر میں سرگرم12عسکری تنظیموں کے اتحاد جہادکونسل کے سربراہ صلاح الدین نے بھی شجاعت بخاری کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے قتل کی عالمی سطح پرتحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
شجاعت بخاری کے قتل کی کشمیر میں حکومت اور حکومت مخالف تمام حلقوں کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ہے۔ انڈیا کے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے شجاعت بخاری کے قتل کو ایک بزدلانہ فعل قرار دیا ہے۔ اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں انھوں نے کہاکہ یہ کشمیر میں دانشمندانہ بات کرنے والوں کو خاموش کرنے کی کوشش ہے۔ شجاعت بخاری نے2008میںاخبار ڈیلی رائزنگ کشمیر شروع کیا تھا۔
شجاعت بخاری اپنا اخبار شروع کرنے سے قبل انڈیا کے اخبار دا ہندوکے نامہ نگار تھے۔ شجاعت بخاری نے دنیا کے کئی ممالک میں امن اور سیکیورٹی کی کانفرنسوں میں حصہ لیا۔50 سالہ شجاعت نے سوگواران میں والدین، اہلیہ اور 2 بچے سوگوارچھوڑے ہیں۔
واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں90کی دہائی سے شروع ہونے والی شورش میں کئی صحافی ہلاک ہوچکے ہیں اور پولیس ان کی ہلاکت کا ذمے دار جنگجوئوں کو قراردیتی رہی ہے۔
کشمیر کی صورتحال پر نگاہ رکھنے والے کئی افراد نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹوں اور تحریروں کے ذریعے کشمیری صحافی شجاعت بخاری کے قتل کے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے ہیں اور اس واقعے کا ماسٹر مائنڈ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کو قرار دیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق شجاعت بخاری پر حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب محض چند گھنٹے قبل جنیوا میںقائم اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے دفتر سے مقبوضہ کشمیر میںانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں ایک جامع رپورٹ جاری کی گئی اور ان خلاف ورزیوں کی عالمی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔
شجاعت بخاری نے قتل سے پہلے یہ رپورٹ سوشل میڈیا پر مشتہر کی تھی۔ نیٹ نیوز کے مطابق یاد رہے کہ شجاعت بخاری گزشتہ برس کشمیر کے معاملے پر پاکستانی نمائندوں کے ساتھ ہونے والے امن مذاکرات میں بھی رسمی طور پر شریک تھے جبکہ انھوں نے اپنے قتل سے چند گھنٹوں قبل ایک ٹویٹ بھی کیا تھا۔
پاکستان نے شجاعت بخاری کے قتل پرگہرے دکھ اورافسوس کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے وحشیانہ اقدام کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔
ادھر حریت فورم کے چیئرمین میر واعظ عمرفاروق نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے مقبوضہ علاقے کی زمینی صورتحال کا عکاس قرار دیاہے۔
ایک بیان میں میر واعظ نے کہاکہ انسانی حقوق کی پامالیوںکی تحقیقات کیلیے ایک بااختیار کمیشن کے قیام کی ضرورت ہے۔ میر واعظ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو عید الفطر کی مبارکباد دی ہے۔