عوام اس موقعے سے فائدہ اٹھائیں
ہماری سیاست، ہماری معیشت، ہماری جمہوریت، ہمارے اقتدار پر عشروں سے چند خاندانوں کا قبضہ ہے
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com
پاکستان اپنے قیام سے جس اشرافیائی دلدل میں پھنسا ہوا ہے ، انتخابات کی شکل میں عوام کو اس دلدل سے پاکستان کو نکالنے کے مواقعے ملتے رہے لیکن اشرافیائی سیٹ اپ میں ایک بہتر متبادل کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی جاتی، لہٰذا انتخابات میں عوام کے لیے صرف یہ چوائس رہتی ہے کہ وہ دس برائیوں میں سے کونسی برائی کو پسند کرتے ہیں اس بد ترین صورتحال کی وجہ سے پاکستان کو اس سے نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہیں ملتا۔ سیاست اور اقتدار اشرافیہ کی ایسی میراث بنا ہوا ہے جس کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھنے کی بھی کسی میں جرأت نہیں ہوسکتی تھی یہ کیسی عجیب بات ہے کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں جمہوری نظام موجود ہے، ملک کے ہر طبقے کو انتخابات میں حصہ لینے کا حق حاصل ہوتا ہے لیکن پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں صرف اشرافیہ کو انتخابات میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے باقی کسی طبقے کے لیے انتخابات میں حصہ لینے کا حق نہیں۔
اس فنکاری کی تعریف کی جانی چاہیے کہ قانوناً کسی شخص کو خواہ اس کا تعلق کسی طبقے سے ہو انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روکا جاتا لیکن انتخابی نظام کی شکل میں عوام کے پیروں میں ایسی بیڑیاں ڈال دی گئی ہیں کہ ملک کے غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے خواہ وہ کتنے ہی ایماندار عوام دوست مخلص اور اہلیت کے حامل ہوں انتخابات میں حصہ اس لیے نہیں لے سکتے کہ انتخابی اخراجات کے لیے ان کے پاس کروڑوں روپے نہیں یہ ہے وہ تکنیک جو پاکستانی اشرافیہ نے رائج کی ہے۔
ہمارے ملک میں عام غریب طبقات کے علاوہ ایک مڈل کلاس موجود ہے جس کا ایک حصہ اشرافیہ کی غلامی میں چلاگیا ہے اور ایک حصہ اساتذہ، صحافیوں، ادیبوں، شاعروں، فنکاروں، وکیلوں، ڈاکٹروں، انجینئروں، دانشوروں، مفکروں، اہل علم پر مشتمل ہے جن میں ایسے ایسے قابل اہل ایماندار اور قوم و ملک سے مخلص لوگ شامل ہیں جن کے ہاتھوں میں اقتدار آجائے تو وہ ملک و قوم کو ترقی کی بلندیوں پر پہنچادیں لیکن معاشرے کی یہ کریم معاشی طور پر اس قابل نہیں یا انھیں معاشی طور پر اس قابل نہیں چھوڑا گیا کہ وہ انتخابات میں حصہ لے سکیں ۔اس خاموش بندوبست کی وجہ ملک کا اہل اور قابل طبقہ بے دست و پا ہوکر انتخابی پروسس سے باہر کھڑا ہوا ملک کو تباہ ہوتے دیکھ رہا ہے۔
ملک میں پہلی بار ایک مڈل کلاس سیاسی میدان میں دھڑلے سے کودا ہے چونکہ ملک کے عوام اولین دن سے اشرافیائی فنکاروں کو بھگت رہے ہیں اور کسی طرح ان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں سو وہ اس مڈل کلاس کے گرد لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوگئے ہیں اس کا مقصد یہ نہیں کہ یہ مڈل کلاس فرشتہ ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام اشرافیائی آمریت سے ہر قیمت پر چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں اس بدلتی ہوئی صورتحال نے اشرافیہ کی نیندیں اڑادی ہیں اور وہ اپنا پورا زور اور پروپیگنڈ کے ہر چینل کو اس مڈل کلاس کے خلاف لگارہے ہیں کہ کسی طرح عوام کو کنفیوز کیا جائے۔
اسے ہم اس ملک کی خوش قسمتی کہیں یا بد قسمتی کہ ہمارے ملک کی آبادی کا توازن اس قدر بگڑا ہوا ہے کہ صرف ایک صوبے کی آبادی ملک کی کل آبادی کا لگ بھگ 63 فی صد حصے پر مبنی ہے اور عملاً ملک کی سیاسی طاقت ایک صوبے کے ہاتھوں میں مرکوز ہوکر رہ گئی ہے اس صورتحال کا ادراک اقتداری اشرافیہ کو کلی طور پر ہے وہ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ پنجاب پر کنٹرول کا مطلب اقتدار پر کنٹرول ہے۔ اس حقیقت کی پیش نظر اقتداری اشرافیہ اپنی پوری توانائیاں اس صوبے کے عوام کو اپنے دام میں پھنسانے پر لگارہی ہے، ترقی کی پر فریب دعوؤں کا پروپیگنڈا اس شدت سے کیا جا رہا ہے کہ عام آدمی اس فریب میں آجائے۔
عام سادہ لوح آدمی اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوسکتا ہے لیکن عام آدمی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ لمبی لمبی سڑکیں اوور ہیڈ، انڈر پاس اور نام نہاد ترقیاتی پروگراموں کے فتے کاٹنے سے ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ ہمارے عوام کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ حقیقی ترقی کا مطلب عوام کے معیار زندگی میں ترقی عوام کی آمدنی میں اضافہ آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی میں کمی روزگار کے مواقعوں میں اضافہ ہے ۔کیا اس حوالے سے ملک میں کوئی ترقی ہوئی ہے؟ اس سوال پر پنجاب کے غریب عوام کو جذباتی فضا اور متاثر کن نعروں اور پر فریب وعدوں کی فضا سے نکل کر ٹھنڈے دل ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیے اور اس بد ترین حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ ستر سال سے انھیں پر فریب نعروں سے بہلایا جارہاہے حقیقت میں وہ وہیں کھڑے ہیں جہاں ستر سال پہلے کھڑے تھے۔
قومی لیڈر ملک کے تمام علاقوں میں یکساں طور پر مقبول ہوتا ہے رنگ نسل زبان اور قومیت کی سیاست کرنے والے ایک ''مخصوص'' علاقے میں تو مقبول ہوسکتے ہیں ملک کے سارے علاقوں میں مقبول نہیں ہوسکتے جب تک ملک میں قومی سطح کے سیاست دان فعال تھے علاقائی سیاست گوشۂ گمنامی میں پڑی ہوئی تھی لیکن ہمارے نا اہل اور متعصب سیاست دانوں کی وجہ سے قومی سیاست کودیس نکالا ملا ہے ۔ فقط زبان اور قومیت کی سیاست کا بول بالا جو رہنما اس قسم کی سیاست کررہے ہیں یہ سیاست ذاتی اور قومی مفادات کی سیاست ہرگز نہیں ہوسکتی۔
ہماری سیاست، ہماری معیشت، ہماری جمہوریت، ہمارے اقتدار پر عشروں سے چند خاندانوں کا قبضہ ہے اور قبضے کے اس کلچر میں اتنا پھیلاؤ آگیا ہے کہ اب جمہوریت ولی عہدی نظام میں بدل گئی ہے اسے اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کے اقتداری اشرافیہ آج کل احتساب کی زد میں ہے اور حالات بتارہے ہیں کہ اس بار اشرافیہ کو اپنے کیے کرائے کا حساب دینا ہے اس خوف نے اشرافیہ کو اور جارح بنادیا ہے اس جارح سیاست سے اشرافیہ عوام کو یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ اس پر ظلم ہو رہا ہے۔ سیاست کے اس سناریو کے باوجود عوام کو عقل و دانش اور سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے 25 جولائی 2018ء کے الیکشن میں صرف ایک بات پر اپنی ساری توجہ مرکوز رکھنا ہے کہ وہ اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مڈل کلاس کے ایک بہتر متبادل کو اقتدار میں آنے کا موقع دینا ہے۔
اس فنکاری کی تعریف کی جانی چاہیے کہ قانوناً کسی شخص کو خواہ اس کا تعلق کسی طبقے سے ہو انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روکا جاتا لیکن انتخابی نظام کی شکل میں عوام کے پیروں میں ایسی بیڑیاں ڈال دی گئی ہیں کہ ملک کے غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے خواہ وہ کتنے ہی ایماندار عوام دوست مخلص اور اہلیت کے حامل ہوں انتخابات میں حصہ اس لیے نہیں لے سکتے کہ انتخابی اخراجات کے لیے ان کے پاس کروڑوں روپے نہیں یہ ہے وہ تکنیک جو پاکستانی اشرافیہ نے رائج کی ہے۔
ہمارے ملک میں عام غریب طبقات کے علاوہ ایک مڈل کلاس موجود ہے جس کا ایک حصہ اشرافیہ کی غلامی میں چلاگیا ہے اور ایک حصہ اساتذہ، صحافیوں، ادیبوں، شاعروں، فنکاروں، وکیلوں، ڈاکٹروں، انجینئروں، دانشوروں، مفکروں، اہل علم پر مشتمل ہے جن میں ایسے ایسے قابل اہل ایماندار اور قوم و ملک سے مخلص لوگ شامل ہیں جن کے ہاتھوں میں اقتدار آجائے تو وہ ملک و قوم کو ترقی کی بلندیوں پر پہنچادیں لیکن معاشرے کی یہ کریم معاشی طور پر اس قابل نہیں یا انھیں معاشی طور پر اس قابل نہیں چھوڑا گیا کہ وہ انتخابات میں حصہ لے سکیں ۔اس خاموش بندوبست کی وجہ ملک کا اہل اور قابل طبقہ بے دست و پا ہوکر انتخابی پروسس سے باہر کھڑا ہوا ملک کو تباہ ہوتے دیکھ رہا ہے۔
ملک میں پہلی بار ایک مڈل کلاس سیاسی میدان میں دھڑلے سے کودا ہے چونکہ ملک کے عوام اولین دن سے اشرافیائی فنکاروں کو بھگت رہے ہیں اور کسی طرح ان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں سو وہ اس مڈل کلاس کے گرد لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوگئے ہیں اس کا مقصد یہ نہیں کہ یہ مڈل کلاس فرشتہ ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام اشرافیائی آمریت سے ہر قیمت پر چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں اس بدلتی ہوئی صورتحال نے اشرافیہ کی نیندیں اڑادی ہیں اور وہ اپنا پورا زور اور پروپیگنڈ کے ہر چینل کو اس مڈل کلاس کے خلاف لگارہے ہیں کہ کسی طرح عوام کو کنفیوز کیا جائے۔
اسے ہم اس ملک کی خوش قسمتی کہیں یا بد قسمتی کہ ہمارے ملک کی آبادی کا توازن اس قدر بگڑا ہوا ہے کہ صرف ایک صوبے کی آبادی ملک کی کل آبادی کا لگ بھگ 63 فی صد حصے پر مبنی ہے اور عملاً ملک کی سیاسی طاقت ایک صوبے کے ہاتھوں میں مرکوز ہوکر رہ گئی ہے اس صورتحال کا ادراک اقتداری اشرافیہ کو کلی طور پر ہے وہ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ پنجاب پر کنٹرول کا مطلب اقتدار پر کنٹرول ہے۔ اس حقیقت کی پیش نظر اقتداری اشرافیہ اپنی پوری توانائیاں اس صوبے کے عوام کو اپنے دام میں پھنسانے پر لگارہی ہے، ترقی کی پر فریب دعوؤں کا پروپیگنڈا اس شدت سے کیا جا رہا ہے کہ عام آدمی اس فریب میں آجائے۔
عام سادہ لوح آدمی اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوسکتا ہے لیکن عام آدمی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ لمبی لمبی سڑکیں اوور ہیڈ، انڈر پاس اور نام نہاد ترقیاتی پروگراموں کے فتے کاٹنے سے ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ ہمارے عوام کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ حقیقی ترقی کا مطلب عوام کے معیار زندگی میں ترقی عوام کی آمدنی میں اضافہ آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی میں کمی روزگار کے مواقعوں میں اضافہ ہے ۔کیا اس حوالے سے ملک میں کوئی ترقی ہوئی ہے؟ اس سوال پر پنجاب کے غریب عوام کو جذباتی فضا اور متاثر کن نعروں اور پر فریب وعدوں کی فضا سے نکل کر ٹھنڈے دل ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیے اور اس بد ترین حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ ستر سال سے انھیں پر فریب نعروں سے بہلایا جارہاہے حقیقت میں وہ وہیں کھڑے ہیں جہاں ستر سال پہلے کھڑے تھے۔
قومی لیڈر ملک کے تمام علاقوں میں یکساں طور پر مقبول ہوتا ہے رنگ نسل زبان اور قومیت کی سیاست کرنے والے ایک ''مخصوص'' علاقے میں تو مقبول ہوسکتے ہیں ملک کے سارے علاقوں میں مقبول نہیں ہوسکتے جب تک ملک میں قومی سطح کے سیاست دان فعال تھے علاقائی سیاست گوشۂ گمنامی میں پڑی ہوئی تھی لیکن ہمارے نا اہل اور متعصب سیاست دانوں کی وجہ سے قومی سیاست کودیس نکالا ملا ہے ۔ فقط زبان اور قومیت کی سیاست کا بول بالا جو رہنما اس قسم کی سیاست کررہے ہیں یہ سیاست ذاتی اور قومی مفادات کی سیاست ہرگز نہیں ہوسکتی۔
ہماری سیاست، ہماری معیشت، ہماری جمہوریت، ہمارے اقتدار پر عشروں سے چند خاندانوں کا قبضہ ہے اور قبضے کے اس کلچر میں اتنا پھیلاؤ آگیا ہے کہ اب جمہوریت ولی عہدی نظام میں بدل گئی ہے اسے اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کے اقتداری اشرافیہ آج کل احتساب کی زد میں ہے اور حالات بتارہے ہیں کہ اس بار اشرافیہ کو اپنے کیے کرائے کا حساب دینا ہے اس خوف نے اشرافیہ کو اور جارح بنادیا ہے اس جارح سیاست سے اشرافیہ عوام کو یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ اس پر ظلم ہو رہا ہے۔ سیاست کے اس سناریو کے باوجود عوام کو عقل و دانش اور سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے 25 جولائی 2018ء کے الیکشن میں صرف ایک بات پر اپنی ساری توجہ مرکوز رکھنا ہے کہ وہ اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مڈل کلاس کے ایک بہتر متبادل کو اقتدار میں آنے کا موقع دینا ہے۔