انتباہ

ہمارے ملک کے امراچھانگامانگا میں عوامی نمایندوں کو خریدتے رہے ہیں اورفرانس کے امرا ججوں کے عہدے تک بیچ کرکھا جاتے تھے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

پاکستان 70 سال سے جس اقتداری سیٹ اپ کا شکار ہے، اس سیٹ اپ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی اس سیٹ اپ یعنی اشرافیائی اقتدار کی مخالفت کرتا ہے تو وہ نہ محض فرد کی مخالفت ہوتی ہے، نہ افراد کی، نہ خاندان کی، ہمارا شمار بھی ان قلمکاروں میں ہوتا ہے جو لگ بھگ پچاس سال سے پاکستان کے اقتداری سیٹ اپ یا نظام کی مخالفت کررہے ہیں اور یہ مخالفت غیر جمہوری حکومتوں کے دوران بھی جاری رہی۔

ہمارے ملک کی یہ بدقسمتی ہے کہ اس پورے جمہوری نظام کو سمجھے بغیر اس کی حمایت کی جاتی ہے، اس جمہوری نظام کے حامی کیا اس سوال کا جواب دیںگے کہ جمہوریت کے تعارف کنندگان نے جمہوریت کی جو تعریف کی ہے ''عوام کی حکومت عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے'' کیا ہماری 70 سالہ جمہوریت اس تعریف پر پوری اترتی ہے؟

اس کا جواب یقیناً نفی ہی میں آئے گا، کیونکہ نہ ہماری جمہوریت میں حکومت عوام کی ہوتی ہے، نہ عوام کے لیے ہوتی ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہمارے ملک میں 70 سال سے جو جمہوریت وقفوں وقفوں کے ساتھ جاری ہے، وہ سرے سے جمہوریت ہی نہیں ہے بلکہ اشرافیائی آمریت ہے اور پاکستان کا ہر عوام دوست انسان اس ملکوتی جمہوریت کی حمایت نہیں کرسکتا۔ 70 سال سے اس اشرافیائی جمہوریت کے قیام کی وجہ بھی یہی ہے کہ عوام بے چاروں کا کیا ذکر تعلیم یافتہ خواص بھی اس اشرافیائی آمریت کو جمہوریت سمجھ کر اس کی حمایت کررہے ہیں۔ جب تک یہ غلط فہمی دور نہیں ہوگی اسی جمہوریت کی گاڑی چلتی رہے گی اور بے چارے عوام اندھے ووٹ ڈالتے رہیںگے۔

ہمارے ملک کے اعلیٰ عہدے پر فائز پنجاب کے وزیراعلیٰ بار بار یہ بات کہتے آرہے ہیں کہ ''اگر عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے تو پھر ملک میں خونیں انقلاب آجائے گا''۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے ملک کے عوام کے مسائل حل ہوگئے ہیں؟ اس کا جواب اشرافیہ کا کوئی بڑے سے بڑا حامی بھی ''ہاں'' میں نہیں دے سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام اس ظالمانہ نظام سے سخت متنفر ہیں اور اس نظام کو بدلنا چاہتے ہیں، لیکن یہ ہمارے عوام کی بدقسمتی ہے کہ انھیں وہ قیادت میسر نہیں جو عوام کی رہبری کرسکے۔ کیونکہ ہماری سیاست کا ''ہمہ خاندان آفتاب''والا معاملہ ہے۔ یہ ایک گمبھیر صورتحال ہے، ایسے میں کوشش یہ کی جاتی ہے کہ پورا نظام اگر نہیں بدلا جاسکتا تو کم از کم اس میں کچھ بنیادی تبدیلیاں تو لائی جائیں۔


اس فکر کے لوگ ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں کہ انقلاب دور کی بات ہے، کم از کم اس 70 سالہ نظام کے پلر ہی چینج کردیے جائیں، اس حوالے سے پہلے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ملک میں اشرافیہ اس قدر مضبوط ہے کہ اسے نکال باہر کرنا آسان نہیں۔ اشرافیہ کا مزاج اس قدر شاہانہ ہوتا ہے کہ اس کے پیر فرش مخمل پر چلنے سے بھی چھلے جاتے ہیں، اس کے برعکس مزدور، کسان ہوتے ہیں جو روز سڑکوں پر صبح سے شام تک دھوپ سردی بارش میں کام کرتے ہیں، اف نہیں کرتے، یہ ان کی قسمت کا قصور نہیں بلکہ اس اشرافیائی آمریت کی مہربانی ہے۔

بھارت ہمارے ساتھ ہی نو آبادیاتی نظام سے آزاد ہوا، بھارت میں ہزار برائیاں ہوسکتی ہیں لیکن اس کی ایک خوبی سے انکار ممکن نہیں کہ وہاں کی جمہوریت میں ایک ادنیٰ انسان ملک کے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچ سکتا ہے، ویسے تو بھارت کے وزرائے اعظم عموماً نچلے یا درمیانے طبقات ہی سے منتخب ہوتے رہے ہیں، اس حوالے سے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی ہی کو دیکھ لیں، موصوف ایک ڈھابے پر باہر والے کی خدمات انجام دیتے تھے ایک ڈھابے پر کام کرنے والا آج دنیا کے دوسرے بڑے ملک کا وزیراعظم ہے۔

کیا پاکستان میں ایسی مثالیں مل سکتی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارتی جمہوریت نچلے طبقات کو اوپر آنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور وہاں کی سیاسی قیادت دیہی علاقوں کی پنچایتوں میں بیٹھی ہے اور علاقائی مسائل حل کرنے میں شامل ہوتی ہے، وہاں عشروں تک ملک کی بنی ہوئی کاروں ہی میں حکمران طبقات سفر کرتے رہے اور آج بھی وہ ملکی بنی ہوئی معمولی نوعیت کی کاروں ہی میں سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے، بھارت کا وزیراعظم اپنی گھریلو زندگی میں بھی سادگی پسند ہی ہوتا ہے جب کہ ہمارا حکمران طبقہ اس وقت تک اپنے شیش محل سے باہر نہیں نکلتا جب تک باڈی گارڈ کے لمبے چوڑے دستے کے علاوہ 70،60 قیمتی گاڑیاں سرکار کے پیچھے نہ چلتی ہوں۔ کیا یہ جمہوریت ہے، کیا اس جمہوریت کی حمایت کی جانی چاہیے؟

ہماری جمہوریت کا مزاج آج کا شاہانہ نہیں بلکہ قیام پاکستان کے بعد جب جناح کا انتقال ہوا تو لیاقت علی خان وہ وزیراعظم تھے جو نواب ہونے کے باوجود نوابی ٹھاٹھ باٹ کے تکلفات سے بڑی حد تک دور تھے اور سادہ زندگی گزارتے تھے۔ ہماری اس اشرافیہ کو یہ بندہ پسند نہیں آیا اور اس نے انھیں مروا دیا، اس کے بعد زمینی اشرافیہ کے لیے اقتدار کے دروازے کھل گئے۔ پھر جمہوریت اشرافیائی ہوتی چلی گئی اور اب یہ حال ہے کہ ہماری جمہوریت اشرافیائی آمریت میں بدل گئی ہے، چونکہ اس اشرافیائی آمریت نے عوام سے اپنا رشتہ توڑ لیا ہے سوائے سیاسی ضرورتوں کو عوام اسے بالکل یاد نہیں رہتے۔

فرانس میں بھی اشرافیائی آمریت یعنی امرا کی حکومت تھی اور فرانس کے امراء نے فرانس کا وہی حال کردیا جو حال پاکستانی امرا نے پاکستان کا کردیا ہے، ہمارے ملک کے امرا چھانگا مانگا میں عوامی نمایندوں کو خریدتے رہے ہیں اور فرانس کے امرا ججوں کے عہدے تک بیچ کر کھا جاتے تھے۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام چھریاں چاقو لے کر نکلے اور اشرافیہ کو کاٹ کر پھینک دیا۔ ہمارے پنجاب کے وزیراعلیٰ دور اندیش ہیں، اسی لیے حکمرانوں کو بتارہے ہیں کہ اگر عوام کے مسائل حل نہ ہوئے تو پاکستان میں بھی خونیں انقلاب آجائے گا۔ کاش ہماری اشرافیہ شہباز شریف کے انتباہ پر غور کرے۔
Load Next Story