جمہوریت کا اصلی چہرہ

اربوں روپوں کے چند ہاتھوں میں جمع ہو جانے سے عام غریب انسان کو جس شرمناک غربت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

انتخابات میں حصہ لینے کے لیے جو کاغذات نامزدگی داخل کیے جا رہے تھے اس میں امیدوار کے اثاثوں کے حوالے سے بھی پوچھا گیا تھا۔ اس غیر جمہوری شق کے خلاف جمہوریت کے شیدائیوں نے ترکیبیں لڑا کر اس شق کو کاغذات نامزدگی سے نکلوا دیا، اس کامیابی پر جمہوریت پسند نازاں تھے کہ اوپر سے ایک اور ڈنڈا حلف نامے کی شکل میں چلا دیا گیا۔

اس حلف نامے میں امیدوار کے اثاثوں کی تفصیل پوچھی گئی، اس ڈنڈے نے جمہوریت پسندوں کے لیے دو راستے چھوڑے تھے ایک یہ کہ حلف نامے داخلہ کریں جس میں اثاثوں کی تفصیل ہو، دوسرا راستہ یہ تھا کہ الیکشن لڑنے کا خیال دل سے نکال دیں، دوسرا آپشن بہت مشکل اس لیے تھا کہ مچھلی پانی کے بغیر اور ہمارے سیاستدان جمہوریت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، سو حالات کی ستم ظریفی نے انھیں حلف نامے داخل کرنے پر مجبور کر دیا اور جیسے تیسے حلف نامے داخل کردیے۔

عام خیال یہ ہے کہ داخل شدہ حلف نامے درست نہیں اور عادت اور ضرورت کے مطابق اس مجبوری کو بھگتا دیا گیا ہے اور ان حلف ناموں کی تحقیق ہونی چاہیے۔ ہماری اشرافیہ ہی نہیں بلکہ عوامی رہنماؤں نے بھی حلف ناموں میں جو اثاثے ظاہر کیے ہیں، وہ عام مڈل کلاس کے نہیں بلکہ مالدار اپر مڈل کلاس کے لگتے ہیں، کروڑوں روپے نقد، کروڑوں کی جائیداد، اگر ایماندارانہ اثاثے ظاہر کیے جائیں تو عوام کی سانس رک جائیں گی، ہم ڈیکلیئرڈ اثاثوں کا جزوی ذکر بعد میں کریں گے، پہلے اس سسٹم پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو انسان کو حیوان بنا دیتا ہے۔

آج جب میں اخباروں میں ڈیکلیئرڈ اثاثوں کی تفصیل پڑھ رہا تھا تو دو سوال میرے ذہن میں کلبلا رہے تھے، ایک یہ کہ انسان دولت کا اس قدر لالچی کیوں ہے، دوسرا سوال یہ تھا کہ کروڑوں اربوں کی دولت اور اثاثے بنانے کی اجازت کیوں دی جاتی ہے۔ پہلے سوال کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ انسان کو دولت جمع کرنے پر راغب کرنے والا نظام سرمایہ دارانہ نظام ہے، جس میں انسان کو دولت کی دوڑ میں اس طرح پھنسایا جاتا ہے کہ وہ قانون اخلاق وغیرہ کو روندتے ہوئے صرف ایک بات پر نظر رکھتا ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت کس طرح جمع کرے۔

چونکہ ملک کی اور دنیا کی 90 فیصد آبادی کو دولت جمع کرنے کے سرے سے مواقع ہی حاصل نہیں، اس لیے وہ اپنی جائز ضرورتوں کے مطابق بھی دولت حاصل نہیں کر سکتے، اس کے برخلاف ہر ملک کی اشرافیہ کو یہ کھلے مواقع حاصل ہوتے ہیں کہ وہ دولت کے انبار لگا لے، کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں اشرافیہ کو قانوناً دولت کے لامحدود ذخائر جمع کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے لہٰذا اشرافیہ دھڑلے سے دولت کے انبار اکٹھے کر لیتی ہے۔


پاکستان ایک انتہائی پسماندہ اور غریب ملک ہے لیکن اس کے باشندے کس قدر امیر ہیں اس کا اندازہ اس اعداد و شمار سے ہو سکتا ہے جو حلف ناموں میں بتائے گئے ہیں۔ میں یہاں ایک مستند غریب اور عوامی رہنما کے اثاثوں کا ذکر ضرور کروں گا جو اخبارات کی زینت بنے ہیں اس غریب اور عوامی رہنما کے اثاثوں میں 76 لاکھ روپے نقد، سوا کروڑ بینک میں اس کے علاوہ متفرق اثاثے دو کروڑ 90 لاکھ کے ہیں۔ یہ تفصیلی نہیں غالباً ضروری اعداد و شمار ہیں، اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے انسان کو کیا بناکر رکھ دیا ہے کہ دولت کی ہوس میں وہ اندھا ہو جاتا ہے۔

ہمارے ایک سابق صدر مملکت کے حلف نامے کے مطابق حضرت کے پاس چھ بلٹ پروف لگژری گاڑیاں ہیں، ہزاروں ایکڑ اراضی، دبئی میں جائیداد، گھوڑے اور اسلحہ ہے، آگے اللہ اللہ۔ حضرت کے صاحبزادے کے پاس ڈیڑھ ارب کے اثاثے ہیں، کراچی میں ایک مشہور محل جس کی مالیت 30 لاکھ بتائی گئی ہے، کراچی میں دو کمروں کا فلیٹ اس سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے، ایک معروف و مشہور شہزادی 1506 کنال زرعی اراضی اور درجنوں کمپنیوں میں شیئر ہولڈر ہیں۔

یہ مختصر سے اعداد و شمار اخبارات کی سرخیوں سے لیے گئے ہیں، تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان کے عوام تفصیل سے واقف ہیں، کیونکہ تفصیل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر دیکھی جا رہی ہے۔ میں شیخ رشید کو غریب سیاستدان سمجھتا تھا لیکن ان کے اثاثوں میں 76 لاکھ نقد سوا کروڑ بینک بیلنس اور متفرق اثاثے 90 لاکھ۔ یہ مختصر اعداد و شمار دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ غریب سیاستدان کا حال یہ ہے تو امیر سیاستدانوں کا کیا ہو گا؟

اخباروں میں شایع شدہ اثاثوں کے درست ہونے پر عوام کو شک ہے، اگرچہ یہ اثاثے اربوں پر مشتمل ہیں لیکن شک ہے کہ حقیقت میں اثاثے بہت زیادہ ہیں، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ حلف ناموں میں دیے گئے اثاثوں کی تحقیق کی جائے۔ ہماری عدلیہ ملک سے کرپشن ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن یہ کام اس قدر آسان نہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں سرمائے کو چھپانے اور بچانے کے پچاس طریقے متعارف ہیں۔

میڈیا میں آنے والی تفصیلات سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ اثاثے جائز طریقوں سے بنائے گئے ہیں۔ بدبختی یہ ہے کہ اس عوام دشمن سرمایہ دارانہ نظام میں صرف حرام کی دولت جمع کرنے کے ہی اشرافیہ کو مواقع حاصل نہیں ہوتے بلکہ اس کے تحفظ کے بھی انتظامات ہوتے ہیں اشرافیہ کو یہ قانونی اور آئینی حق ہے کہ وہ جتنی چاہے دولت جمع کرے اس پر کوئی پابندی نہیں رہا جائز اور ناجائز کا مسئلہ سو اس نظام میں اس کی تفریق ممکن نہیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ اربوں روپوں کے چند ہاتھوں میں جمع ہو جانے سے عام غریب انسان کو جس شرمناک غربت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا کوئی سدباب ممکن ہے؟ یہ سوال نیا نہیں بلکہ ڈھائی سو سال پرانا ہے جب سرمایہ دارانہ نظام دنیا میں متعارف کرایا گیا اور اس کی اندھی لوٹ مار پر پردہ ڈالنے کے لیے جمہوریت کا بھونڈا نقاب اس کرپٹ نظام کے کریہہ چہرے پر ڈال دیا گیا۔
Load Next Story