کنٹینراسکینڈل ٹرانسپورٹرز کو بھی شامل تفتیش کرلیا گیا

افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ کے90 فیصد کنٹینرز طورخم سرحد جبکہ 10 فیصد چمن سرحد سے غائب ہوئے،ذرائع

غیرمتعلقہ اہلکارمعطل کیے گئے،طورخم وچمن میں تعینات افسران سے انکوائری نہیں ہوئی،ذرائع۔ فوٹو: فائل

ڈائریکٹریٹ کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کراچی کی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کنٹینراسکینڈل کی تحقیقاتی عمل کے دوران مزید انکشافات ہوئے ہیں۔

ذرائع نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ ڈائریکٹریٹ کے اعلیٰ افسر نے اے ٹی ٹی اسکینڈل کے حوالے سے ہونے والی سابقہ تحقیقات کے دوران نظر انداز کیے جانے والے بعض زاویوں اوراہم معاملات کی چھان بین بھی شروع کردی ہے اور سال2010 کے دوران غائب ہونے والے نشاندہی شدہ ان 1700 کنٹینرزکی ترسیل کرنے والے ٹرانسپورٹرز سے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے، ابتدائی طور پر کی جانے والی تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں مختلف مصنوعات کے اسمگلروں کی اکثریت ٹرانسپورٹرز کو صرف بندرگاہ سے کراچی شہر کے مختلف حصوں میں قائم گوداموں میں مال اتراتی تھی۔

ٹرانسپورٹرز کا کہنا تھا کہ انہیں قطعاً یہ معلوم نہیں تھا کہ جو کنٹینرز وہ بندرگاہ سے اٹھارہے ہیں ان کی منزل مقصودافغانستان ہے۔ ٹرانسپورٹرز کا موقف ہے کہ انکی وہیکلز کی اتنی استعداد ہی نہیں تھی کہ وہ کراچی بندرگاہ سے مال بردار کنٹینرکوبراہ راست پشاور، امان گڑھ یا افغانستان کے شہرتک پہنچا سکیں بلکہ انہوں نے اپنی گاڑیوں کی محدود صلاحیت واستعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف اندرون شہر ہی بندرگاہوں سے مال بردار کنٹینرز ترسیل تک محدود کیا ہوا تھا، یہی وجہ ہے کہ اے ٹی ٹی کنسائنمنٹس کے مالکان نے انتہائی کم معاوضے پرصرف کراچی شہر میں ترسیل کے لیے ان سے زیرتبصرہ مدت کے دوران مذکورہ اے ٹی ٹی کنٹینرز بندرگاہ سے اٹھوائے تھے جو انہوں نے کراچی ہی کے مختلف علاقوں میں قائم گوداموں میں اتاردیے تھے اور بعد ازاں کچھ ایام کے بعد خالی کنٹینرزواپس اسی بندرگاہ پر پہنچا دیے گئے۔




ذرائع نے بتایا کہ اسکینڈل سے متعلق ایف بی آر کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں ایف بی آر میں داخلی سطح پر گروپ بندی اور اختلافات کے تحت محکمہ کسٹمز کراچی کے ان کسٹمز افسران کو بلاجواز معطل کیا گیا جو اصولی طور پربندرگاہ سے کلیئر ہونے کے بعد شاہراہوں سے غائب ہونے اوربعد ازاں ناقابل فہم کم مدت میں بندرگاہ پر واپس پہنچنے والے کنٹینرز کی بے قاعدگیوں کے ذمے دار ٹھہرائے گئے تھے، درحقیقت کراچی محکمہ کسٹمز کے افسران کی ذمے داری ان اے ٹی ٹی کنٹینرز کی صرف ایگزامنیشن وکلیئرنس تک محدود تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسکینڈل کی تحقیقات کے دوران حکومت کو طورخم اور چمن میں تعینات ان کسٹمز افسران کی جانچ پڑتال کرنا چاہیے تھی جنہوں نے مذکورہ کنٹینرز کی ڈی سیلنگ کی اور کراس بارڈسرٹیفکیٹ جاری کیے تھے جو تاحال کسی تحقیقاتی عمل کے دوران نہیں کی گئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اے ٹی ٹی کنٹینر غائب ہونے کی پہلی نشاندہی سال2007 کے دوران لاہور میں ہوئی اور یہ بھی نشاندہی ہوئی تھی کہ اے ٹی ٹی کنٹینر ریلیز ہوتے ہی پرال سسٹم میں اس کے بل آف انٹری اور کنٹینر نمبر ڈیلیٹ ہوجاتے تھے جس سے پتا چلتا ہے کہ بعض پرال حکام کا بھی کنٹینرز غائب کرانے میں اہم کردار رہا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ کنٹینر اسکینڈل کی تحقیقات اگر شفاف انداز میں کرنا مقصود ہے تو طورخم، چمن سرحدوں پر تعینات کسٹمز افسران سے ازسر نوجانچ پڑتال کرنا ہوگی۔ ذرائع نے بتایا کہ اے ٹی ٹی کے90 فیصد کنٹینرز طورخم سرحد جبکہ 10 فیصد چمن سرحد سے غائب ہوئے، دلچسپ امر یہ ہے کہ ڈائریکٹریٹ کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کراچی کو اسکینڈل کی تحقیقات میں پرال، کسٹمز کوئٹہ کلکٹریٹ اور پشاور کسٹمز کلکٹریٹس کی جانب سے مستقل عدم تعان کا سامنا ہے جو بارہا یاددہانی کے باوجو دپرانا ڈیٹا فراہم کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
Load Next Story