لاپتہ افراد کا کیس تعاون نہ کرنے پر وزارت دفاع اور داخلہ پر عدالت کی برہمی

آئندہ سماعت تک فہرست پیش نہ کی گئی توحساس اداروں کے سربراہوں کے قابل ضمانت وارنٹ جاری کیے جاسکتے ہیں

فوٹو: فائل

سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیر عالم نے لاپتا افراد کے مقدمات میں تعاون نہ کرنے پروزارت دفاع اور وزارت داخلہ پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے قراردیا ہے کہ آئندہ سماعت تک فوجی کیمپوں میں زیر حراست لاپتا افراد کی فہرست پیش نہ کی گئی تو سیکریٹری دفاع، سیکریٹری داخلہ اور حساس اداروں کے سربراہوں کے قابل ضمانت وارنٹ جاری کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں برتی جائے گی۔

عدالت نے آبزرویشن دی کہ یہ ادارے شہریوں کی زندگی اور آزادی کے تحفظ کیلیے کوئی کردار ادا نہیں کررہے بلکہ عدالتی کارروائی میں بھی رکاوٹ کا سبب بن رہے ہیں، عدالت نے سیکریٹری داخلہ سندھ اور کے پی کے کی کارکردگی پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انھیں آئندہ سماعت پر طلب کرلیا،چیف جسٹس مشیر عالم اور جسٹس ندیم اختر پرمشتمل بنچ نے جمعرات کو متعددلاپتا افراد کے مقدمات کی سماعت کی۔

عدالت نے وزارت داخلہ سندھ اور خیبر پختونخواہ کے ہوم سیکریٹریزکی جانب سے تعاون نہ کرنے پر شدید برہمی کااظہار کیا، فاروق مہتاب ایڈووکیٹ کے بھائی علی رحمن کی گمشدگی سے متعلق درخواست کی سماعت پر عدالت نے آبزروکیا کہ عدالت نے علی رحمن کی گمشدگی سے متعلق معلومات حاصل کرنے کیلیے محکمہ داخلہ کو 11اپریل کو2 ہفتوں کی مہلت دی تھی مگر عدالتی حکم پر عمل درآمد نہیں ہوا،عدالت نے آبزروکیا کہ محکمہ داخلہ لاپتا افراد کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں دیکھ رہا۔




متعدد نوٹسز کے باوجود کے پی کے کے سیکریٹری داخلہ سے رابطہ کرکے فوجی تفتیشی کیمپوں میں زیر حراست لاپتا افراد کی فہرست تیار کی گئی اور نہ ہی کوئی رپورٹ پیش کی گئی، عدالت نے سیکریٹری داخلہ سندھ کو آئندہ سماعت پر پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے تنبیہ کی ہے کہ کسی ماتحت افسر کی پیشی قبول نہیں کی جائے گی،عدالت کو بتایاگیاکہ 11اپریل کو جو ہدایات جاری کی گئی تھیں وہ متعلقہ حکام کو فیکس کردی گئی ہیں، لئیق خان کی گمشدگی سے متعلق اس کے بھائی وہاب خان کی درخواست کی سماعت کے موقع پر عدالت کو بتایا گیا ہے کہ سیکریٹری داخلہ کے پی کے کی جانب سے کوئی رپورٹ موصول نہیں۔

عدالت نے سیکریٹری داخلہ کے پی کے کو براہ راست اور محکمہ داخلہ سندھ کے زریعے دوبارہ نوٹس بھیجنے کی ہدایت کی، عدالت نے آبزروکیا کہ سرکاری افسران ایک دوسرے پر ذمے داریاں ڈال رہے ہیں، عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اور سیکریٹری داخلہ کے پی کے کو آئندہ سماعت پر فوجی تفتیشی کیمپوں میں زیر حراست لاپتا افراد کی فہرست سمیت پیش ہونے کی ہدایت کی، محکمہ داخلہ سندھ کے افسر صادق علی نے عدالت کو بتایا کہ سیکریٹری داخلہ کے پی کے کو متعدد خط لکھے گئے ہیں مگر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

فیصل رشید کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس کے والد محمد رشید 6فروری2010کو کراچی سے سوات جارہے تھے انہیں سکھر کے مقام پر گرفتار کرلیا گیا وہ تاحال لاپتا ہیں، محمد نواز خان کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کا بھائی محمد ناصر خان 28مارچ 2013سے لاپتا ہے۔
Load Next Story