ہارنا نہیں کوشش نہ کرنا جرم ہے
بائیولوجی کے استاد نے اپنے طلبا کو بتایا کہ تتلی کس طرح خول کو توڑ کر نکلتی ہے۔۔۔
ایڈون سی بلس نے کہا ہے ''کامیابی کا مطلب ناکامیوں کی عدم موجودگی نہیں ہے، اس کا مطلب تو ہے حتمی مقاصد کا حصول، اس کا مطلب جنگ میں فتح پانا ہے لیکن ہر جنگ میں نہیں''۔ کامیابی اتفاقیہ طور پر نہیں ملا کرتی یہ ہمارے رویوں کا نتیجہ ہوتی ہے اور ہمارے رویے ہمارے اپنے انتخاب ہوتے ہیں، لہٰذا کامیابی انتخاب ہوتی ہے اتفاق نہیں۔ ایک پنڈت کہیں جارہا تھا، راستے میں اس نے ایک سرسبز کھیت دیکھا، وہ کھیت کے سرے پر رک کر فصل دیکھنے لگا۔ کسان اپنے ٹریکٹر پر وہاں سے گزرا تو اس کی نظر پنڈت پر پڑی، وہ پنڈت کے پاس چلا آیا۔ پنڈت نے کہا ''بھگوان نے تمہارے کھیت پر بڑا کرم کیا ہے، تمھیں اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔'' کسان نے اس کے جواب میں کہا ''بے شک یہ کھیت مجھے بھگوان نے دیا ہے اور اس پر میں اس کا شکر گزار ہوں لیکن آپ کو یہ کھیت اس وقت دیکھنا چاہیے تھا جب یہ بھگوان کے پاس تھا۔''
اول نائٹ انگیل نے کہا تھا ''کامیابی کسی عظیم مقصد کے مرحلہ وار حصول کا نام ہے۔'' مرحلہ وار کا مطلب ہے کہ کامیابی ایک سفر ہے منزل نہیں، ہم کبھی منزل پر نہیں پہنچتے لیکن سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے جب ہم ایک ہدف کو حاصل کرلیتے ہیں تو اگلے کی طرف چل پڑتے ہیں اور پھر اس سے اگلے کی طرف۔ مقصد کا عظیم ہونا ضروری ہے، عظیم مقصد ہمارے نظام اقدار کا عکاس ہوتا ہے، مقصد اہم ہوتے ہیں کیونکہ وہ سمت کا احساس عطا کرتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مشہور ترین کامیاب لوگوں کو کامیابی سے پہلے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بقول بی سی فوربس ''وہ اس وجہ سے جیت جاتے ہیں کہ وہ اپنی ناکامیوں کے باوجود حوصلہ نہیں ہارتے'' کامیابی کی تمام داستانیں ناکامی کی کہانیاں بھی ہیں۔
جیسٹر ہیرسٹن امریکا کا سرمایہ افتخار ہے، امریکا میں کوئی اسکول ایسا نہیں جس میں ایسے ترانے، نغمے، گیت نہ گائے جاتے ہوں جن کی موسیقی کو جیسٹر نے ترتیب نہ دیا ہو، یہ ہی نہیں بلکہ اس نے کالے لوگوں کے لیے روحانی موسیقی بھی تخلیق کی۔ جب اس سے پو چھا گیا کہ کیا تم کبھی نسلی تعصب کا شکار بھی ہوئے ہو؟ ''کبھی'' اس نے حیرانی سے سوالیہ انداز میں کہا، ''میں تو ہمیشہ ہی اس تعصب کا شکار رہا ہوں، لیکن میں نے اس نفر ت کو سر پر سوار نہیں کیا، میںاس کے مقابلے میں زند ہ ہوں، گو میں اس کو نظرانداز نہیں کرسکتا لیکن اس سے بچ کر رہنے کی کوشش کرتا ہوں، میں گورے متعصب لوگوں کے خلاف کوئی تعصب نہیں پالتا۔'' جیسٹرنے نسلی تعصب کو ذہن سے جھٹک کر باہر نکالنے کا ڈھنگ سیکھ لیا، وہ تعصب کو شکست دے کر زندہ ہے، اس کے لوک گیت بلا امتیاز رنگ و نسل پوری دنیا میں گائے جاتے ہیں۔
بائیولوجی کے استاد نے اپنے طلبا کو بتایا کہ تتلی کس طرح خول کو توڑ کر نکلتی ہے، پھر اس نے خول ان کے سامنے رکھ دیا اور بتایا کہ دو گھنٹے بعد اس میں سے تتلی نکلے گی، اس نے طلبا کو منع کیا کہ کوئی تتلی کی مدد نہ کرے، اس کے بعد وہ کلاس روم سے باہر چلا گیا۔ ٹھیک دو گھنٹے بعد خول ٹوٹنے لگا اور تتلی باہر آنے کی جدوجہد کرنے لگی، اس کی حالت دیکھ کر ایک طالب علم سے رہا نہ گیا اور اس نے استاد کی ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے تتلی کی مدد کے خیال سے خول کو توڑ دیا، تتلی آزاد ہوگئی لیکن تھوڑی ہی دیر بعد مرگئی۔ جب استاد کو پتہ چلا تو اس نے طلبا کو سمجھایا کہ خول کو توڑنے کی جدوجہد تتلی کو وہ قوت عطا کرتی ہے جس سے وہ زندہ رہتی ہے، چونکہ طالب علم نے اس کو جدوجہد نہیں کرنے دی تھی اس لیے وہ مرگئی۔
پیرو نے کہا ''اکثر لوگ اس وقت کوشش ترک کردیتے ہیں جب کامیابی کا حصول نزدیک تر ہوتا ہے، وہ دوڑ کے آخری مرحلے میں اختتامی لکیر سے صرف ایک گز کی دوری پر مقابلے سے دست بردار ہوجاتے ہیں، وہ کھیل کے آخری منٹ میں میدان چھوڑ دیتے ہیں، جیت کی لکیر سے صرف ایک فٹ دور''۔ میں آپ کو ایک مشہور تاریخی قصہ سناتا ہوں، یہ ایک ایسے شخص کا قصہ ہے جو اکیس سال کی عمر میں کاروبار میں ناکامی سے دوچار ہوا، اس نے بائیس سال کی عمر میں انتخابات میں شکست کھائی، چوبیس سال کی عمر میں دوبارہ کاروبار میں ناکامی سے دوچار ہوا، چھبیس سال کی عمر میں اس کی محبوبہ کا انتقال ہوگیا، ستائیس سال کی عمر میں وہ نروس بریک ڈائون کا شکار ہوگیا، چونتیس سال کی عمر میں کا نگریس کا انتخاب ہار گیا، انچاس سال کی عمر میں سینیٹ کا انتخاب ہار گیا، وہ باون سال کی عمر میں امریکا کا صدر منتخب ہوا، وہ شخص ابراہام لنکن تھا۔
کیا آپ لنکن کو ناکام آدمی کہیں گے؟ وہ میدان سے بھاگ سکتا تھا، شرمندگی کی وجہ سے خودکشی کرسکتا تھا، وہ دوبارہ سب کچھ چھوڑ کر وکالت کا پیشہ اپنا سکتا تھا لیکن شکست اور ناکامی ابراہام لنکن کو آگے بڑھتے رہنے کا راستہ دکھا رہی تھی، وہ یہ نہیں سوچتا تھا کہ اس کا رستہ بند ہوچکا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے 10 دسمبر 1903 کے اداریے میں رائٹ برادرز کو بے وقوف قرار دیا گیا تھا کیونکہ وہ ہوا سے ہلکی ایسی مشین ایجاد کرنے کی کوشش کررہے تھے جو اڑ سکے۔ اس کے ایک ہفتے بعد ہی رائٹ برادرز اپنی تیار کردہ مشین کو اڑانے میں کامیاب ہوگئے۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ان کی ایجاد کے بغیر ہم کہاں ہوتے، اگر رائٹ برادرز اپنی شکست تسلیم کرلیتے؟ کامیاب لوگ عظیم کام نہیں کرتے، وہ تو صرف چھوٹے کاموں کو عظیم طریقے سے کرتے ہیں۔
ایک دن چار سالہ بچہ جس کو اونچا سنتا تھا، اسکول سے گھر آیا تو اس کی جیب میں ایک پرچہ تھا، جس پر لکھا تھا آپ کا بچہ اتنا بے وقوف ہے کہ کچھ نہیں پڑھ سکتا، اسے اسکول سے نکال لیں۔ اس کی ماں نے جواب دیا، میرا بچہ اتنااحمق نہیں ہے کہ پڑھ نہ سکے، میں خود اسے پڑھائوں گی اور وہ بے وقوف اور احمق بچہ عظیم تھامس ایڈیسن بنا جس نے صرف تین ماہ اسکول کی تعلیم حاصل کی تھی۔ کیا آپ ان لوگوں کو ناکام تصور کرتے ہیں، جنھوں نے مسائل کی عدم موجودگی میں نہیں بلکہ لاتعداد مسائل کے موجود ہوتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔ ہارنا جرم نہیں لیکن کوشش نہ کرنا جرم ہے۔ فطرت نے انسان کو سوچنے اور جدوجہد کرنے کی عظیم ترین صلاحیت عطا کی ہے۔ انسان اپنا ماحول خود تخلیق کرسکتا ہے، کامیابی حاصل کرنے کا نہیں، حاصل کرنے کے عمل کا نام ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہم بحیثیت قوم ایک انتہائی مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ دہشت گردی، انتہا پسندی، انتشار، مہنگائی، یہ وہ بدترین بلائیں ہیں جنھوں نے قوم کو جکڑ رکھا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہم ان بلائوں سے نجات پانے کی اپنی سی جدوجہد بھی نہیں کررہے ہیں۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ دوسری قوموں پر ہم سے زیادہ مشکل اور بدترین دور آئے، اس کے باوجود انھوں نے ہمت نہیں ہاری، بلکہ متحد ہوکر جدوجہد اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے مسائل اور بحرانوں سے ہمیشہ کے لیے نجا ت حاصل کرلی۔ آج خوشحالی، ترقی، استحکام ان کا مقدر ہے جب کہ ہم کوشش کیے بغیر، جدوجہد کیے بغیر شکست تسلیم کرنے کو تیار ہیں، جیت کی لکیر سے صرف ایک گز کی دوری پر مقابلے سے دستبردار ہورہے ہیں، ہمیں اپنی کامیابی اور جیت کا یقین ہوجانا چاہیے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ پریشانی حالات سے نہیں بلکہ خیالات سے ہوتی ہے۔ پاکستان کے عوام اپنی ناکامیوں سے سبق سیکھو اور آگے بڑھتے رہو، کوشش کرتے رہو۔ کامیابی اور جیت تمہارا مقدر ہے، بس تمہیں اس بات پر یقین ہونا چاہیے۔
اول نائٹ انگیل نے کہا تھا ''کامیابی کسی عظیم مقصد کے مرحلہ وار حصول کا نام ہے۔'' مرحلہ وار کا مطلب ہے کہ کامیابی ایک سفر ہے منزل نہیں، ہم کبھی منزل پر نہیں پہنچتے لیکن سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے جب ہم ایک ہدف کو حاصل کرلیتے ہیں تو اگلے کی طرف چل پڑتے ہیں اور پھر اس سے اگلے کی طرف۔ مقصد کا عظیم ہونا ضروری ہے، عظیم مقصد ہمارے نظام اقدار کا عکاس ہوتا ہے، مقصد اہم ہوتے ہیں کیونکہ وہ سمت کا احساس عطا کرتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مشہور ترین کامیاب لوگوں کو کامیابی سے پہلے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بقول بی سی فوربس ''وہ اس وجہ سے جیت جاتے ہیں کہ وہ اپنی ناکامیوں کے باوجود حوصلہ نہیں ہارتے'' کامیابی کی تمام داستانیں ناکامی کی کہانیاں بھی ہیں۔
جیسٹر ہیرسٹن امریکا کا سرمایہ افتخار ہے، امریکا میں کوئی اسکول ایسا نہیں جس میں ایسے ترانے، نغمے، گیت نہ گائے جاتے ہوں جن کی موسیقی کو جیسٹر نے ترتیب نہ دیا ہو، یہ ہی نہیں بلکہ اس نے کالے لوگوں کے لیے روحانی موسیقی بھی تخلیق کی۔ جب اس سے پو چھا گیا کہ کیا تم کبھی نسلی تعصب کا شکار بھی ہوئے ہو؟ ''کبھی'' اس نے حیرانی سے سوالیہ انداز میں کہا، ''میں تو ہمیشہ ہی اس تعصب کا شکار رہا ہوں، لیکن میں نے اس نفر ت کو سر پر سوار نہیں کیا، میںاس کے مقابلے میں زند ہ ہوں، گو میں اس کو نظرانداز نہیں کرسکتا لیکن اس سے بچ کر رہنے کی کوشش کرتا ہوں، میں گورے متعصب لوگوں کے خلاف کوئی تعصب نہیں پالتا۔'' جیسٹرنے نسلی تعصب کو ذہن سے جھٹک کر باہر نکالنے کا ڈھنگ سیکھ لیا، وہ تعصب کو شکست دے کر زندہ ہے، اس کے لوک گیت بلا امتیاز رنگ و نسل پوری دنیا میں گائے جاتے ہیں۔
بائیولوجی کے استاد نے اپنے طلبا کو بتایا کہ تتلی کس طرح خول کو توڑ کر نکلتی ہے، پھر اس نے خول ان کے سامنے رکھ دیا اور بتایا کہ دو گھنٹے بعد اس میں سے تتلی نکلے گی، اس نے طلبا کو منع کیا کہ کوئی تتلی کی مدد نہ کرے، اس کے بعد وہ کلاس روم سے باہر چلا گیا۔ ٹھیک دو گھنٹے بعد خول ٹوٹنے لگا اور تتلی باہر آنے کی جدوجہد کرنے لگی، اس کی حالت دیکھ کر ایک طالب علم سے رہا نہ گیا اور اس نے استاد کی ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے تتلی کی مدد کے خیال سے خول کو توڑ دیا، تتلی آزاد ہوگئی لیکن تھوڑی ہی دیر بعد مرگئی۔ جب استاد کو پتہ چلا تو اس نے طلبا کو سمجھایا کہ خول کو توڑنے کی جدوجہد تتلی کو وہ قوت عطا کرتی ہے جس سے وہ زندہ رہتی ہے، چونکہ طالب علم نے اس کو جدوجہد نہیں کرنے دی تھی اس لیے وہ مرگئی۔
پیرو نے کہا ''اکثر لوگ اس وقت کوشش ترک کردیتے ہیں جب کامیابی کا حصول نزدیک تر ہوتا ہے، وہ دوڑ کے آخری مرحلے میں اختتامی لکیر سے صرف ایک گز کی دوری پر مقابلے سے دست بردار ہوجاتے ہیں، وہ کھیل کے آخری منٹ میں میدان چھوڑ دیتے ہیں، جیت کی لکیر سے صرف ایک فٹ دور''۔ میں آپ کو ایک مشہور تاریخی قصہ سناتا ہوں، یہ ایک ایسے شخص کا قصہ ہے جو اکیس سال کی عمر میں کاروبار میں ناکامی سے دوچار ہوا، اس نے بائیس سال کی عمر میں انتخابات میں شکست کھائی، چوبیس سال کی عمر میں دوبارہ کاروبار میں ناکامی سے دوچار ہوا، چھبیس سال کی عمر میں اس کی محبوبہ کا انتقال ہوگیا، ستائیس سال کی عمر میں وہ نروس بریک ڈائون کا شکار ہوگیا، چونتیس سال کی عمر میں کا نگریس کا انتخاب ہار گیا، انچاس سال کی عمر میں سینیٹ کا انتخاب ہار گیا، وہ باون سال کی عمر میں امریکا کا صدر منتخب ہوا، وہ شخص ابراہام لنکن تھا۔
کیا آپ لنکن کو ناکام آدمی کہیں گے؟ وہ میدان سے بھاگ سکتا تھا، شرمندگی کی وجہ سے خودکشی کرسکتا تھا، وہ دوبارہ سب کچھ چھوڑ کر وکالت کا پیشہ اپنا سکتا تھا لیکن شکست اور ناکامی ابراہام لنکن کو آگے بڑھتے رہنے کا راستہ دکھا رہی تھی، وہ یہ نہیں سوچتا تھا کہ اس کا رستہ بند ہوچکا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے 10 دسمبر 1903 کے اداریے میں رائٹ برادرز کو بے وقوف قرار دیا گیا تھا کیونکہ وہ ہوا سے ہلکی ایسی مشین ایجاد کرنے کی کوشش کررہے تھے جو اڑ سکے۔ اس کے ایک ہفتے بعد ہی رائٹ برادرز اپنی تیار کردہ مشین کو اڑانے میں کامیاب ہوگئے۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ان کی ایجاد کے بغیر ہم کہاں ہوتے، اگر رائٹ برادرز اپنی شکست تسلیم کرلیتے؟ کامیاب لوگ عظیم کام نہیں کرتے، وہ تو صرف چھوٹے کاموں کو عظیم طریقے سے کرتے ہیں۔
ایک دن چار سالہ بچہ جس کو اونچا سنتا تھا، اسکول سے گھر آیا تو اس کی جیب میں ایک پرچہ تھا، جس پر لکھا تھا آپ کا بچہ اتنا بے وقوف ہے کہ کچھ نہیں پڑھ سکتا، اسے اسکول سے نکال لیں۔ اس کی ماں نے جواب دیا، میرا بچہ اتنااحمق نہیں ہے کہ پڑھ نہ سکے، میں خود اسے پڑھائوں گی اور وہ بے وقوف اور احمق بچہ عظیم تھامس ایڈیسن بنا جس نے صرف تین ماہ اسکول کی تعلیم حاصل کی تھی۔ کیا آپ ان لوگوں کو ناکام تصور کرتے ہیں، جنھوں نے مسائل کی عدم موجودگی میں نہیں بلکہ لاتعداد مسائل کے موجود ہوتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔ ہارنا جرم نہیں لیکن کوشش نہ کرنا جرم ہے۔ فطرت نے انسان کو سوچنے اور جدوجہد کرنے کی عظیم ترین صلاحیت عطا کی ہے۔ انسان اپنا ماحول خود تخلیق کرسکتا ہے، کامیابی حاصل کرنے کا نہیں، حاصل کرنے کے عمل کا نام ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہم بحیثیت قوم ایک انتہائی مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ دہشت گردی، انتہا پسندی، انتشار، مہنگائی، یہ وہ بدترین بلائیں ہیں جنھوں نے قوم کو جکڑ رکھا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہم ان بلائوں سے نجات پانے کی اپنی سی جدوجہد بھی نہیں کررہے ہیں۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ دوسری قوموں پر ہم سے زیادہ مشکل اور بدترین دور آئے، اس کے باوجود انھوں نے ہمت نہیں ہاری، بلکہ متحد ہوکر جدوجہد اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے مسائل اور بحرانوں سے ہمیشہ کے لیے نجا ت حاصل کرلی۔ آج خوشحالی، ترقی، استحکام ان کا مقدر ہے جب کہ ہم کوشش کیے بغیر، جدوجہد کیے بغیر شکست تسلیم کرنے کو تیار ہیں، جیت کی لکیر سے صرف ایک گز کی دوری پر مقابلے سے دستبردار ہورہے ہیں، ہمیں اپنی کامیابی اور جیت کا یقین ہوجانا چاہیے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ پریشانی حالات سے نہیں بلکہ خیالات سے ہوتی ہے۔ پاکستان کے عوام اپنی ناکامیوں سے سبق سیکھو اور آگے بڑھتے رہو، کوشش کرتے رہو۔ کامیابی اور جیت تمہارا مقدر ہے، بس تمہیں اس بات پر یقین ہونا چاہیے۔