پاکستانی ڈاکٹروں کا ایک اور کارنامہ؛ 12 دن کے بچے کا کامیاب بون میرو ٹرانسپلانٹ

طفیل احمد  بدھ 11 جولائی 2018
پیدائشی طورپر نوزائیدہ میں قوت مدافعت صفر تھی، ایکسپریس سے گفتگو۔ فوٹو: سوشل میڈیا

پیدائشی طورپر نوزائیدہ میں قوت مدافعت صفر تھی، ایکسپریس سے گفتگو۔ فوٹو: سوشل میڈیا

کراچی: پاکستانی ڈاکٹروں نے پہلی بار 12دن کے نوزائیدہ کا کامیاب بون میروٹرانسپلانٹ کرکے نئی تاریخ رقم کردی۔

پاکستان میں پہلی بار ماہرین امراض خون نے پیدائشی طورپر قوت مدافعت سے محروم 12دن کا نوزائیدہ بچہ کا کامیاب بون میروٹرانسپلانٹ کرکے اس کی جان بچانے میںکامیاب ہوگئے تاہم بچہ کی مسلسل مانیٹرنگ کی جارہی ہے، نیشنل انسٹیٹوٹ آف بلڈ ڈیزیزمیں لائے جانے والا نوزائیدہ کے مکمل معائنے کے بعد معلوم چلا کہ بچہ قدرتی طورپرقوت مدافعت سے محروم ہے ، بچہ میں قوت مدافعت صفر ہے جس کی وجہ سے بچہ پیدائشی طورپر جسم اور اسکن میں دانے اوردیگر جاں لیوا انفیکیشن میں مبتلا تھا مزید طبی ٹیسٹوں میں معلوم ہوا کہ بچہ کوبچہ کے والدین کی جانب سے یہ مرض منتقل ہوا ہے ایسے مرض کو موروثی کہاجاتا ہے۔

اس حوالے سے این آئی بی ڈی کے سربراہ اوربون میروکے بانی ڈاکٹر طاہرشمسی اورڈاکٹر ثاقب انصاری نے بچہ کا تفصیلی معائنے کے بعد ہنگامی بنیاد پربون میروٹرانسپلانٹ کا فیصلہ کیاگیا جس میں این آئی بی ڈی کی ٹیم نے حصہ لیا ،طبی ٹیسٹوں کے دوران معلوم ہوا کہ اس مرض کا باعث بننے والی 35جین میں سے ایک یا دو جین خراب ہیں جس کی وجہ سے بچہ کی قوت مدافعت صفر ہے اور پیدائشی طورپر بچہ یہ مرض لیکر پیدا ہوا ایسے بچوں کی عمر چند ہفتوں کی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر طاہر شمسی نے بتایا کہ طبی زبان میں اس مرض کوDisorder Server Combinad immnodeficiencyکہا جاتا ہے ان کا کہنا تھا کہ اس بیماری کوطبی زبان میں پیدائشی اورقوت مدافعت سے محرومی کا مرض کہا جاتا ہے ، یہ مرض عام طورپر خاندانی میں آپس میں شادیوں کے نتیجے میں اولاد میں منتقل ہوتا ہے اس لیے سائنس کہتی ہے کہ شادیاں خاندان میں نہیں ہونی چاہیے، خاندان میں شادیوں کے نتیجے میں بچوں میں موروثی امراض جنم لیتے ہیں، انھوں نے کہاکہ یہ مرض پاکستان میں کئی ہزار بچوںکو ہے جو علاج نہ ہونے کی وجہ سے جاں بحق ہوجاتے ہیں۔

ڈاکٹر طاہر شمسی اور ڈاکٹر ثاقب انصاری کا کہنا تھا کہ جب اس بچے کو اسپتال لایاگیا تواس کے پورے جسم پر سرخ دانے تھے طبی ٹیسٹوں کے بعد فوری بون میروکرنے کا فیصلہ کیا بون میرواس صورت میں کیا جاتا ہے جب بچہ کی زندگی کوشدید خطرہ ہوتا ہے ، بچہ کی4سالہ بہن ایشال نے اپنے بھائی کو بون میرو کا عطیہ کیا ، انھوں نے کہاکہ بون میروکی منتقلی کے بعد بچے کے جسم میں قوت مدافعت کا نیا نظام ڈالا گیا ہے یہ انتہائی حساس اور پیچیدہ نوعیت کاپروسیجر ہوتا ہے،6 گھنٹے طویل جدوجہدکے بعد بچہ کی ہڈیوں میں اس کی بہن کی ہڈیوںکاگودے کی منتقلی کی گئی۔

انھوں نے کہاکہ دنیا بھر میں اس مرض کا واحد علاج بون میرو ٹرانسپلانٹ ہی ہوتا ہے لیکن پاکستان کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں یہ سہولت موجود نہیں، بچے کی حالت دیکھ کر نیشنل انسٹیٹوٹ آف بلڈ ڈیزیز نے یہ مفت علاج کیا جس کے بعد بچہ روبصحت ہے ۔ پیدائشی طورپر قوت مدافعت سے محروم رہنے والے بچے کا کامیاب بون میروٹرانسپلانٹ کے بعد اس کے والد زوہیب نے ایکسپریس کوبتایا کہ8مارچ 2017 کو میرا پہلا بیٹا عبدالخالق بھی اسی مرض میں مبتلا تھا جو چند ہفتوں بعد چل بسا تھا۔

این آئی بی ڈی میں زیر علاج شاہ زیب دوسرا بیٹا بھی صفر قوت مدافعت لیکر پیدا ہوا جس پر اہلخانہ شدید پریشانی کے عالم میں علاج کیلیے مارے مارے پھرتے رہے تاہم ایک ڈاکٹر نے نیشنل انسٹیٹوٹ آف بلڈ ڈیزیز جانے کا مشورہ دیا تھا جس کے بعد ہم ڈاکٹر طاہر شمسی اور ڈاکٹر ثاقب انصاری سے رابطہ کیا ایک ہفتہ قبل اپنے 12 دن کے بچے کو اسپتال لایاتھا جہاں طبی ٹیسٹوں میں انکشاف ہوا کہ میرابچہ صفر قوت مدافعت لے کر پیدا ہوا قوت مدافعت نہ ہونے کی وجہ سے بچہ پیدائشی طورپر مختلف انفیکشن کا شکار رہا جس کی وجہ سے اہلخانہ میں خوف بھی تھا تاہم جب این آئی بی ڈی اسپتال آئے اور ڈاکٹر طاہر شمسی سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اتنا مہنگا علاج جو ہماری دسترس سے باہر تھا۔

جب ڈاکٹر طاہر شمسی کو بتایا کہ میں ایک ٹیکسی ڈرائیور ہوں میرے پاس علاج کیلیے رقم نہیں ، میری حالت دیکھتے ہوئے انھوں نے بون میرو علاج کی مفت پیشکش کردی جس پر گزشتہ ہفتے بچہ کو داخل کرایا ٹیسٹوں کے بعد میرے بچے کا کامیاب بون میروکردیا ، میری 4سالہ بیٹی ایشال نے اپنا بون میرو اپنے چھوٹے بھائی کو دیا جو اللہ کی مدد سے کامیاب رہا ، اب میرا بیٹا صحتیابی کی جانب ہے، انھوں نے مفت بون میروکرنے پر نیشنل انسٹیٹوٹ آف بلڈ ڈیزیز والوںکا شکریہ ادا کیا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔