ڈی ویلیو ایشن آئی ایم ایف کے پاس جانے سے قبل کی مشقیں قرار

 کراچی /  لاہور:  امریکی ڈالر کے مدمقابل پاکستانی روپے کی قدر میں پیر کو نمایاں کمی کو اسٹیک ہولڈرز نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس جانے سے قبل کی مشقیں قرار دے دیا۔

اسٹیٹ بینک کے مطابق پیر کو پاکستانی روپے کی قدر 5.29 فیصد گھٹ گئی اور ڈالر 128 روپے تک پہنچ گیا، جمعہ کو انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 121.55 روپے رہی تھی، گزشتہ روز اوپن مارکیٹ میں ڈالر نے 129.55 روپے کی حد کو چھو لیا۔

پاکستان فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی آئی ایم ایف کی ہدایات پر کی جا رہی ہے کیونکہ (نگراں) حکومت آنے والی حکومت کے لیے بیل آؤٹ پیکیج کے حصول کا جواز پیدا کررہی ہے، نگراں حکومت وہ کام کر رہی ہے جو سابق حکومت کو اس بحران سے نمٹنے کے لیے کرنا چاہیے تھا اگر یہ بھی کام نہ کرے تو توقع ہے کہ یہی کام آنے والی حکومت کرے گی یہ نئی حکومت کے لیے کام آسان بنا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ روپے کو اس سطح پر مستحکم رکھنا چاہیے، اگر نگراں سیٹ اپ کے دوران مزید کمی آئی تو امریکی ڈالر 130 روپے تک پہنچ سکتا ہے۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹر کے برآمد کنندگان نے ڈالر کی نسبت روپے کی قدر میں مسلسل کمی پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے برآمدی اور مقامی صنعتوں کے لیے تباہ کن قرار دیا ہے۔

کونسل آف آل پاکستان ٹیکسٹائل ایسوسی ایشنز کے چیئرمین زبیر موتی والا اور پاکستان اپیرل فورم کے چیئرمین محمد جاوید بلوانی نے کہا کہ پیرکو ڈالرکی قدر میں 5 فیصد سے زائد کے اضافے سے ملکی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے اور عوام کے لیے مہنگائی کا سیلاب امڈ آئے گا۔

گزشتہ کئی ماہ کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے، ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے کاٹن بین الاقوامی قیمتوں پر دستیاب ہوتی ہے جبکہ زیادہ تر صنعتی ان پٹس جیسے ڈائز، پارٹس، کیمیکل اور پٹرولیم مصنوعات وغیرہ بھی انٹرنیشنل قیمتوں پر ملتی ہیں،روپے کی قدر میں کمی سے روئی اور تمام صنعتی خام مال کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے اور اس کے ایکسپورٹ مصنوعات کی تیاری پر منفی اثرات ہو رہے ہیں اور مینوفیکچرنگ کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے، اگر صورتحال میں بہتر ی نہ آئی تو برآمدات تنزلی کا شکار ہو جائیں گی اور مہنگائی کا سیلاب آجائے گا جو ملک میں انارکی اور بدامنی کا سبب بنے گا۔

انھوں نے کہا کہ حال ہی میں وزیر خزانہ نے اشارہ دیا تھا کہ امپورٹس میں کمی لانے کے لیے مزید اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹیز لگائی جائیں گی۔انھوں نے کہا کہ ریگولیٹری ڈیوٹیز غیرضروری اور لگژری آئٹمز پر لاگو کی جائیں جیسے گاڑیاں، پرفیومز، پھل وغیرہ اور خام مال پرجو ویلیوایڈیشن اور ایکسپورٹ کے لیے امپورٹ کیا جائے اورجو زرمبادلہ کمانے کا باعث ہو اس کا قطعی اطلاق نہیں ہونا چاہیے، روپے کی قدر میں کمی کے اقدام سے مفید اشیا و اجناس مزید مہنگی ہوں گی اور مینوفیکچرنگ سیکٹر کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انھوں نے کہا کہ مقامی مینوفیکچرنگ انڈسٹریز امپورٹس کا متبادل ہیں۔

اگر مقامی صنعتوں کو نقصان پہنچا تو امپورٹس میں مزید اضافہ ہو گا، حالات کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ فوری طور پر حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز یعنی ایکسپورٹرز جو ملک کے لیے سب سے زیادہ زرمبادلہ کماتے ہیں فوری طور پر اعتماد میں لے اور باقاعدہ مشاورت کے ساتھ حکمت عملی ترتیب دے تاکہ صنعتوں کا تحفظ ممکن بنایا جا سکے اور ایسے حل نکالے جائیں کہ صنعتوں کی پیداوار متاثر نہ ہو اور مینوفیکچرنگ کی لاگت میں بھی کمی ہو سکے۔

لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے قائم مقام صدر محمد ندیم قریشی نے ڈالر کی قیمتوں پر قابو پانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انٹربینک ڈالر ریٹ خطرے کی گھنٹی بجارہا ہے، معاشی بحران سے بچنے کے لیے اسٹیٹ بینک کو فوری طور پر حرکت میں آنا ہوگا، ملک کو بھاری قرضوں، مایوس کن برآمدات اور بڑھتے تجارتی خسارے جیسے بھاری مسائل کا سامنا ہے، ایسے میں روپے کی قدر میں کمی مزید مسائل پیدا کررہی ہے، اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو یہ مسائل مزید شدت اختیار کریں گے۔

صنعتی پیداوار میں کمی ہوگی، قرضوں میں ازخود اضافہ ہوجائے گا، برآمدات مزید مشکلات کا شکار ہونگی، افراط زر کی شرح بڑھ جائے گی اور عوام کی قوت خرید کم ہوگی جس سے معاشی چیلنجز مزید شدت اختیار کر جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ڈالر کی قیمت میں تیزی سے اضافے کے منفی اثرات سے صنعت و تجارت اور زراعت سمیت کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا، پاکستان کو ضروریات پوری کرنے کیلیے تیل کے علاوہ کھاد، اشیائے خورد و نوش، مشینری اور صنعتی خام مال درآمد کرنے پڑتے ہیں ، یہ تمام اشیا مہنگی ہوجائیں گی جس سے تمام طبقات متاثر ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ معیشت پہلے ہی دباؤ میں ہے اور یہ مزید دباؤ برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی لہٰذا حکومت بالخصوص اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔