کہیں رشتوں میں ٹکراؤ کہیں ایک ہی قبیلے کے اٹھارہ امیدوار

الیکشن 2018 میں سامنے آنے والے کچھ دل چسپ انداز، اچھوتے پہلو۔ فوٹو: فائل

الیکشن 2018 میں سامنے آنے والے کچھ دل چسپ انداز، اچھوتے پہلو۔ فوٹو: فائل

سندھ / خیبر پختونخوا / پنجاب: عام انتخابات کے سلسلے میں گہماگہمی عروج پر ہے۔ وعدوں اور دعوؤں کا موسم بھی شباب پر ہے۔ پانچ سال اقتدار کے ایوانوں میں گزارنے والے عوامی نمائندوں کی یادداشت پر پڑا پردہ ہٹ گیا ہے، انھیں یاد آگیا ہے کہ کہ عوام نے تو انھیں اپنے مسائل کرنے کی امید پر ووٹوں کے سہارے ایوان اقتدار میں پہنچایا تھا لیکن وہ طاقت اور اختیار ملنے کے بعد ایسے مست ہوئے کہ حلقے، ووٹروں اور ان کے مسائل کو فراموش کر بیٹھے۔

مۂ اقتدار کا نشہ اترنے کے بعد اب ان کے دلوں میں غریب ووٹروں کی محبت اور ان کا درد ایک بار پھر عود کر آیا ہے۔ ان کے درد کی دوا کرنے کے لیے وہ ایک بار ووٹوں کے طلب گار بن کر ان کے دَر پر دستک دے رہے ہیں۔

عوام کی توجہ حاصل کرنے اور ووٹروں کو لُبھانے کے لیے بعض اُمیدوار دل چسپ اور انوکھی حرکتیں بھی کرتے ہیں، جیسے عوامی مسلم لیگ کے چیئرمین شیخ رشید احمد تنور میں روٹیاں لگانے کے لیے ایک نان بائی کے پاس پہنچ گئے، اور ویڈیو بنوا کر ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے حوالے کردیا۔ اسی طرح حیدرآباد میں ایک امیدوار نے گدھا گاڑی پر بیٹھ کر انتخابی مہم چلائی۔ موجودہ انتخابات سے جُڑی کچھ ایسی ہی دل چسپ باتوں، اچھوتے انداز اور انوکھے نعروں اور منشوروں کا تذکرہ ذیل کی سطور میں کیا جارہا ہے۔

٭خونی رشتے مدمقابل

پاکستان پیپلزپارٹی کی راہ نما معروف سیاست داں اور سابق وزیر شازیہ مری این اے 216 سانگھڑ ٹو سے قومی اسمبلی کی نشست کی امیدوار ہیں۔ اس حلقے سے بارہ امیدوار میدان میں ہیں، تاہم شازیہ مری کا اصل حریف کوئی اور نہیں، ان کا اپنا ہی بھائی ہے۔ شازیہ مری کے چھوٹے بھائی علی اکبر مری آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ بہن بھائی کے اختلاف نے مری برادری کو تقسیم کردیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ برادری کے عمائدین نے علی اکبر مری کی حمایت کردی ہے اور دوسری سیاسی جماعتوں سے ان کی حمایت کے لیے رابطے کیے جارہے ہیں۔ یوں شازیہ مری اور پی پی پی کے لیے اس حلقے سے فتح حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔

سندھ کی صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 57 تھرپارکر فور سے مجموعی طور پر بارہ امیدوار میدان میں ہیں۔ تاہم اصل مقابلہ ارباب غلام رحیم اور ارباب لطف اﷲ کے درمیان ہے۔ ارباب غلام رحیم پاکستان مسلم لیگ (ق) کے دورِحکومت میں سندھ کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ وہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے امیدوار ہیں۔ ان کے حریف امیدوار ارباب لطف اﷲ انھی کے بھتیجے اور ارباب خاندان کے اہم رُکن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ارباب غلام رحیم کے مقابل ان کا انتخاب کیا ہے۔ ارباب لطف اﷲ خاندان خاصا اثرورسوخ رکھتے ہیں، چناں چہ چچا اور بھتیجے کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔

سندھ کے حلقے پی ایس 48 میرپور خاص میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال جہاں ماموں اور بھانجے ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ سید علی نواز شاہ رضوی پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے 2008ء سے 2013ء تک وزیرزراعت رہے تھے۔ 2015ء میں انھیں کرپشن پر احتساب عدالت نے علی نواز شاہ کو پانچ سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ پی پی پی کے یہ دیرینہ رُکن اس بار آزاد حیثیت سے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس نشست پر پی پی پی نے علی نواز شاہ کے بھانجے سید ذوالفقار علی شاہ کو ٹکٹ دیا ہے۔

٭سیوریج کے پانی میں لیٹتا اور گندا پانی پیتا اُمیدوار

ایاز میمن موتی والا پیشے کے لحاظ سے سُنار اور کراچی سے صوبائی اسمبلی کی نشست کے امیدوار ہیں۔ عجیب و غریب حرکتوں کی وجہ سے وہ سوشل میڈیا پر خاصے معروف ہوچکے ہیں۔ ایک ویڈیو میں وہ سڑک پر جمع سیوریج کے پانی میں لیٹے اور پاکستانی پرچم لہراتے نظر آتے ہیں۔ اپنے حلقے سے پی ٹی آئی کے راہ نماؤں پر تنقید کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ عوام گندا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ چُلو میں بھر کر گٹر کا پانی پی لیتے ہیں۔ ایک اور ویڈیو میں وہ زیرزمین نکاسیٔ آب کے نالے میں بیٹھے ہوئے ہیں، ان کے اطراف سیوریج کا پانی، کوڑا کرکٹ اور غلاظت نظر آ رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کی متعدد تصاویر گردش کررہی ہیں جن میں وہ کچرے کے ڈھیر پر بیٹھے اور لیٹے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

پانی کی قلت اور جا بہ جا موجود کچرے کے ڈھیر، کراچی کے بنیادی مسائل ہیں۔ حالیہ انتخابی موسم کے دوران ہر اُمیدوار کی انتخابی مہم کی بنیاد انھی مسائل پر ہے۔ ہر امیدوار چاہے وہ کسی سیاسی جماعت کا نمائندہ یا پھر آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہا ہے، وہ فتح حاصل کرنے کے بعد حلقے کے عوام کے یہ دیرینہ مسائل حل کرنے کے دعوے کرتا ہوا نظر آرہا ہے تاہم ان مسائل کو اُجاگر کرنے کا جو انداز ایاز میمن موتی والا نے اپنایا ہے وہ منفرد ہے۔ پی ٹی آئی کے راہ نما فیصل واڈا عام دنوں میں شان دار لباس زیب تن کیے، مہنگی گاڑیوں میں گھومتے ہیں یا پھر ہیوی بائیک کی سواری سے لطف اندوز ہوتے ہیں مگر انتخابی مہم چلانے کے لیے انھوں نے بھی کچرے کا سہارا لیا ہے۔ سوشل میڈیا پر زیرگردش کئی تصاویر میں وہ کچرے کے ڈھیر کے ساتھ کرسی رکھے انٹرویو دیتے نظر آرہے ہیں۔ تاہم ایاز میمن کی طرح غلاظت بھرے پانی میں بیٹھنے کی ہمت ان میں نہیں ہے۔

انتخابات میں ایاز میمن کی فتح و شکست سے قطع نظر انھوں نے کراچی کے بنیادی مسائل کی طرف توجہ مبذول کرنے کی منفرد کوشش کی ہے۔

 ٭سندھ کی تاریخ میں پہلا سکھ امیدوار

پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں اقلیتی امیدوار کسی سیاسی جماعت کے نمائندے کے طور پر یا آزاد حیثیت سے حصہ لیتے رہے ہیں۔ تاہم موجودہ الیکشن میں پہلی بار کوئی سِکھ امیدوار سندھ کی صوبائی اسمبلی کی نشست سے انتخاب لڑ رہا ہے۔ سردار رمیش سنگھ خالصہ صوبائی اسمبلی کی اقلیتوں کے لیے مختص نشست پر فتح حاصل کرنے کے متمنی ہیں۔ سردار رمیش سنگھ خالصہ پاکستان سکھ کونسل کے پیٹرن ان چیف بھی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ سندھ کی تاریخ میں آج تک کسی سکھ نے الیکشن نہیں لڑا۔ سکھ برادری نے اس بار متفقہ طور پر انھیں اپنا امیدوار نام زد کیا ہے۔

رمیش سنگھ نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ اس سوال کے جواب میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا سندھ میں سکھوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن مسائل بہت زیادہ۔ ان کی عبادت گاہوں کی تعمیر و توسیع کا مسئلہ ہے، سندھ اسمبلی سے ابھی تک سکھ میرج ایکٹ کی منظوری نہیں ہوسکی، ملازمتوں میں پانچ فی صد کوٹے پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوپایا۔ رمیش سنگھ کے مطابق یہ وہ مسائل ہیں جو محض اس لیے حل نہیں ہوسکے کہ آج تک سندھ میں کوئی سکھ رکن قومی یا اسمبلی نہیں بنا جو ان کی آواز حکومتی ایوانوں تک پہنچاتا۔ ہمیں نمائندگی ملے تو ہمارے تمام مسئلے حل ہوسکیں گے۔ سردار رمیش سنگھ خالصہ کو امید ہے کہ وہ اقلیتی نشست پر کام یاب ہوکر اسمبلی میں پہنچیں گے اور اپنی قوم کی بہبود کے لیے کام کرسکیں گے۔

 روخان یوسف زئی، نویدجان،خیبرپختون خوا
٭ایک ہی قبیلے کے اٹھارہ امیدوار آمنے سامنے

خیبر پختون خوا کا ضلع نوشہرہ اہم سیاسی شخصیات کے علاوہ اس مرتبہ عام انتخابات میں اس وجہ سے بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ یہاں کی دو قومی اور 5صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے مجموعی طور پر ایک ہی قبیلے کے 18 امیدواروں نے کاغذات نام زدگی جمع کرائے ہیں اور یہ ہے معروف خٹک قبیلہ۔ گوکہ اس ضلع میں دیگر قبائل آبادی کے لحاظ سے زیادہ تعداد میں ہیں، لیکن خٹک قبیلہ یہاں برسوں سے انتخابات میں حصہ لے کر کام یابی حاصل کرتا رہا ہے۔ اس مرتبہ عام انتخابات میں حصہ لینے والے خٹک قبیلے سے تعلق ر کھنے والوں میں انجنیئرطارق خٹک، محمد داؤدخٹک، محمد اسماعیل خٹک، احرار خٹک، پرویز خٹک، عمران خان خٹک، ابراہیم خٹک، جواد خٹک، شاہد خان خٹک، تاج نواب خٹک، بصیر احمد خٹک، مظہر خٹک، شوکت اللہ خٹک، پیر زمان خٹک، ادریس خٹک، فیصل خٹک، اے رحمان خٹک اور جمال خان خٹک شامل ہیں۔

٭انتخابات کے لیے گریڈ17کی ملازمت ٹھکرادی

پشاور سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار نے الیکشن لڑنے کے لیے گریڈ 17 کی سرکاری ملازمت ٹھکرادی۔ صوبائی دارالحکومت سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 77سے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر عام انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار کامران بنگش نے حال ہی میں پبلک سروس کمیشن کے تحت ٹی ایم اوز کے لیے منعقدہ امتحانات میں حصہ لیا، جس میں مجموعی طور پر 40ہزار امیدواروں نے شرکت کی اور صرف 40پاس ہوسکے، جن میں کامران بنگش بھی شامل تھے۔ تاہم انہوں نے گریڈ 17کی ملازمت اختیار کرنے کے بجائے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر عام انتخابات میں حصہ لینے کو ترجیح دی۔ کامران بنگش نے اس بارے میں بتایا کہ پی کے77سے پی ٹی آئی کی جیت یقینی ہے تاہم اگر ایسا نہ ہوا تو انہیں سرکاری ملازمت چھوڑنے کا قطعی کوئی افسوس نہیں ہوگا۔

٭رادیش سنگھ ٹونی۔۔۔قومی اسمبلی کی جنرل نشست پر واحد غیرمسلم امیدوار

رادیش سنگھ ٹونی قومی اسمبلی کی جنرل نشست پر الیکشن لڑنے والے واحد غیرمسلم امیدوار ہیں۔ وہ خیبر پختون خوا کے پشاور سے جنرل نشست پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے رادیش سنگھ پشاور کے حلقے 75پر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ رادیش سنگھ ٹونی بلدیاتی انتخابات میں اقلیتوں کی نشست پر کونسلر منتخب ہوئے تھے لیکن عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے انہوں نے کونسلر کی نشست سے استعفیٰ دے دیا۔ وہ 2011ء تک پاکستان تحریک انصاف اقلیتی ونگ کے راہ نما رہے۔

رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایا کہ 2003 ء کے بعد جب اقلیتوں کے علیحدہ انتخابات کا سلسلہ ختم کردیا گیا تو اس کے بعد یہاں پر کوئی بھی جنرل نشست پر مقابلے کے لیے نہیں آیا۔2011 کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں امیرکبیر لوگوں کو ترجیح دی جانے لگی اور نظریاتی کارکنوں کو نظرانداز کیا جانے لگا تو پارٹی سے مخلص لوگوں میں سے زیادہ تر نے خاموشی ہی میں عافیت جانی، کیوں کہ پھر ان کی پارٹی میں دال نہیں گلنا تھی۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن میں مزدورکسان پارٹی اور دیگر ایک دو جماعتوں نے تعاون اور حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے، اور مجھے امید ہے کہ اقلیتی برادری کے علاوہ اکثریتی ووٹ بھی مجھے ملیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میرے یہاں سے الیکشن لڑنے سے بین الاقوامی سطح پر ہمارے ملک کا ایک بہتر امیج ابھر کر سامنے آئے گا اور دنیا کو یہ پیغام ملے گا کہ پشتونوں میں رواداری اور برداشت کا عنصر موجود ہے اور وہ تمام مذاہب کے لوگوں کے ساتھ برادرانہ تعلقات رکھتے ہیں، انہوں نے دیگر اقلیتوں سے بھی اپیل کی کہ وہ بھی جنرل نشست پر انتخابات میں حصہ لیں۔

٭دونوں ہاتھوں سے معذور امیدوار

حلقہ این اے 8 مالاکنڈ میں جہاں دیگر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے صاحب ثروت اور گھاگ امیدوار کھڑے ہیں، وہیں دونوں ہاتھوں سے معذور ایک نوجوان بھی میدان میں ہے۔ اس نوجوان کا نام حُسین ہے۔ انہوں نے اپنی معذوری کو مجبوری نہیں بنایا۔ وہ مالاکنڈ کے بٹ خیلہ بازار میں خشک چائے کی پتی فروخت کرتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ معذوری کے باوجود وہ خود کار چلاتے ہیں اور اسی کے ذریعے چائے کی پتی خرید کر گاؤں گاؤں فروخت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک جذبے کے ساتھ الیکشن میں کھڑے ہوئے ہیں ان کا ارادہ ہے کہ وہ ظالموں سے مظلوموں کو آزاد کرائیں گے۔ حسین کے مطابق لوگ پاکستان کو ایشین ٹائیگر کا دعویٰ کررہے ہیں جب کہ میں وعدہ کرتا ہوں اپنے ملک کو انٹرنیشنل ٹائیگر بناؤں گا۔

٭روایتی چادروں والے

ضلع صوابی کے این اے 19سے وارث خان اور پی کے 46سے ایازشعیب دونوں کا تعلق اے این پی سے ہے اور دونوں ہی شہداء کے بیٹے ہیں۔ وارث خان، معروف خدائی خدمت گار شہبازخان آف ڈاگئی شہید اور ایازشعیب سابق ایم پی اے شعیب خان آف یارحسین شہید کے فرزند ہیں۔ دونوں نوجوان ہیں، غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور پہلی بار الیکشن میں قسمت آزما رہے ہیں۔ علاقے میں ان کی انفرادیت اور پہچان یہ ہے کہ ہر وقت ان کے کاندھوں پر اپنی روایتی چادر ہوتی ہے۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں جہاں بھی جلسہ جلوس میں تقریر کرتے ہیں وہ اور چادر لازم وملزوم ہوتے ہیں۔ کسی بھی وقت اور حالت میں چادر اپنے کندھے سے ایک سیکنڈ کے لیے بھی نہیں ہٹاتے۔ انتخابی مہم کے دوران جو سواری بھی مل جائے اس پر بیٹھ جاتے ہیں لوگوں سے رابطے کرنا شروع کردیتے ہیں، کبھی رکشا تو کبھی موٹرسائیکل، کبھی کار اور کبھی پیدل ووٹرز کو اپنا پیغام پہنچاتے ہیں۔ ان کے اس جداگانہ انداز نے لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کر رکھا ہے۔

٭امیدوار ہم نام، ووٹروں کے لیے پریشانی

عام انتخابات کے لیے پشاور کے قومی وصوبائی اسمبلی کے حلقوں پر ہم نام امیدواروں کے آمنے سامنے آنے سے دل چسپ صورت حال پیدا ہوگئی ہے، جس کے باعث ووٹرز بھی کنفیوژن کا شکار ہوسکتے ہیں۔ پشاور سے دو قومی اور5صوبائی اسمبلی کے حلقوں پر ہم نام امیدوار ایک دوسرے کے مقابل ہیں، جن میں این اے 31 پر تحریک انصاف کے شوکت علی کے ہم نام شوکت علی آزاد امیدوار کے طور پر امیدوار ہیں۔ این اے30پر پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے ارباب عالمگیر جب کہ اے این پی کے عالمگیر خلیل آمنے سامنے ہیں۔ پی کے66 سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سید لیاقت حسین شاہ اور اے این پی کے لیاقت علی خان آمنے سامنے ہیں۔ پی کے73پر دو آزاد امیدوار خالد محمود اور خالد مسعود آمنے سامنے ہیں۔ پی کے75 پر تحریک انصاف اور آل پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار ہم نام ہیں۔ پی ٹی آئی کے امیدوار کا نام واجد اللہ خان اور اے پی ایم ایل کے امیدوار واجد خان ہیں۔

پی کے78اور76پر سب سے زیادہ دل چسپ صورت حال درپیش ہے۔ پی کے78 پر عرفان نام کے تین امیدواروں میں جوڑ پڑے گا، جن میں سے پی ٹی آئی کے امیدوار محمد عرفان، پیپلزپارٹی کے عرفان اللہ اور ایک آزاد امیدوار محمد عرفان شامل ہیں، جب کہ پی کے76 پر ہم نام امیدواروں کی دو جوڑیاں موجود ہیں، جن میں پی ٹی آئی کے آصف خان اور دو آزاد امیدوار آصف اقبال اور آصف جان مدمقابل ہیں، جب کہ بحراللہ کے نام سے بھی دو امیدوار میدان میں ہیں، جن میں سے ایک متحدہ مجلس عمل کے بحراللہ ہیں اور دوسرے بحراللہ آزاد امیدوار ہیں۔

 حسان خالد،پنجاب
٭ ’’نیم کرپٹ آوے گا، ملک ترقی پاوے گا‘‘

60 سالہ نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ انتخابات میں حصہ لینے کی مناسبت سے ملک کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ وہ سینیٹ اور صدارتی انتخاب کے امیدوار بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے 1988ء میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا، اور اس کے بعد شاید ہی کوئی ایسا الیکشن ہو، جس کا وہ حصہ نہ بنے ہوں۔ یہ مجموعی طور پر ان کا 42 واں الیکشن ہے۔

اس مرتبہ وہ لاہور کے قومی حلقہ این اے 125سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس حلقے سے ڈاکٹر یاسمین راشد، تحریک انصاف اور وحید عالم، ن لیگ کے امیدوار ہیں۔ خود کو ’نیم کرپٹ‘ اور ’متبادل وزیراعظم‘ کہنے والے امبر شہزادہ سمجھتے ہیں کہ سیاست دانوں کو ضرورت کے مطابق تھوڑی سی کرپشن کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، لیکن وہ ضرورت سے زیادہ کرپشن کو جائز نہیں سمجھتے۔ ان کا نعرہ ہے: ’’نیم کرپٹ آوے گا، ملک ترقی پاوے گا۔‘‘ اس مرتبہ انہوں نے اپنے لیے انتخابی نشان ’چمچا‘ پسند کیا ہے، کیوںکہ وہ خود کو ’عوام کا چمچا‘ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک الیکشن میں حصہ لینے کا مقصد عوام میں شعور اجاگر کرنا اور سیاست دانوں کا ضمیر بیدار کرنا ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہیں، اور انہوں نے فلسفہ کی تعلیم حاصل کی ہے۔

٭  ’’مجھے ووٹ نہ دیں کیوںکہ میں کرپٹ نہیں ہوں‘‘

محمد عقیل الرحمٰن فیصل آباد شہر کے صوبائی حلقے پی پی 111 سے امیدوار ہیں۔ ان کے انتخابی بینر پر لکھے ہوئے منفرد نعرے کی وجہ سے ان کی انتخابی مہم کو بہت شہرت ملی۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے ووٹ نہ دیں، کیوں کہ میں حرام کھاتا ہوں، نہ کھلاتا ہوں، نہ میں نے کوئی جرم کیا ہے اور نہ ہی ٹاؤٹ ہوں۔‘‘ اس نعرے سے انہوں نے بیک وقت انتخابی نظام اور لوگوں کے طرز عمل پر تنقید کی ہے۔

ہمارا انتخابی نظام عملی طور پر کسی بری شہرت رکھنے والے امیدوار کو انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روکتا اور لوگوں کی اکثریت بھی ووٹ دیتے ہوئے اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخاب میں کام یابی حاصل کر کے وہ صاف پانی، تعلیم، پارک اور مفت ادویات کی فراہمی کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کریں گے۔ انتخابی مہم کا مقصد لوگوں کو شعور دینا ہے تاکہ سیاست سے کالی بھیڑوں کا صفایا ہو۔ انہیں انتخابی نشان ’سیب‘ ملا ہے، وہ لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد بھی وہ اپنے منشور پر قائم رہیں گے اور بدعنوانی نہیں کریں گے۔ ان کو اپنی انتخابی مہم کی وجہ سے لوگوں سے حمایت ملی ہے، جب کہ کچھ نے انہیں اپنی الگ سیاسی جماعت بنانے کی ترغیب بھی دی ہے۔

قریبی رشتے دار مدمقابل
٭چچا، بھتیجا آمنے سامنے

یہ دل چسپ حلقہ این اے 177رحیم یار خان کا ہے۔ میانوالی قریشیاں کے مخادیم کے اس حلقے میں تینوں بڑی جماعتوں کے امیدوار آپس میں قریبی رشتے دار ہیں۔ تحریک انصاف کے امیدوار مخدوم خسرو بختیار اس حلقے سے میدان میں ہیں، جب کہ ان کے مقابلے میں ان کے چچا مخدوم شہاب الدین پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ن لیگ کی طرف سے مخدوم معین الدین امیدوار ہیں، جو کہ مخدوم خسرو بختیار کے کزن ہیں۔

٭ بھابھی، دیور دو بہ دو

این اے 184مظفر گڑھ میں سیدہ زہرہ باسط بخاری تحریک انصاف کی امیدوار ہیں، جب کہ ان کے دیور سید ہارون احمد بخاری مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ سید ہارون احمد کے بھائی اور سیدہ زہرہ باسط کے شوہر، سید باسط احمد نے بھی بطور آزاد امیدوار اس حلقے سے اپنے کاغذات جمع کرائے تھے۔

٭ کزنز کے مابین مقابلے

پنجاب میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے کچھ حلقے ایسے ہیں جن میں دو یا تین کزن ایک دوسرے کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر فیصل آباد کے حلقے این اے 103سے تین کزن سعد اللہ بلوچ (تحریک انصاف)، شہادت علی بلوچ (پیپلزپارٹی) اور علی گوہر بلوچ (مسلم لیگ ن) مدمقابل ہیں۔ این اے 182، مظفر گڑھ میں پاکستان عوامی راج پارٹی کے چیئرمین جمشید دستی میدان میں ہیں، جب کہ ان کی کزن تہمینہ دستی اسی حلقے سے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔ این اے 189، تونسہ سے دو کزن خواجہ شیراز محمود (تحریک انصاف) اور خواجہ مدثر محمود (متحدہ مجلس عمل) ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آراء ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں این اے 190 سے سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ تحریک انصاف کے امیدوار ہیں، جب کہ ان کے کزن امجد فاروق خان کھوسہ اس حلقے سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

٭خواجہ سراؤں کے لیے پہلی بار پارٹی ٹکٹ

پاکستان تحریک انصاف (گلالئی) ملک کی وہ پہلی جماعت ہے جس نے خواجہ سراؤں کو بھی انتخابی ٹکٹ جاری کیے۔ اس جماعت کی ایک نام زد امیدوار خواجہ سرا ارسلان نایاب علی این اے 142، اوکاڑہ سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ الیکشن لڑنے کے بارے میں کہتی ہیں کہ ان کا مقصد معاشرے میں خواجہ سراؤں کے کردار کے بارے میں قبولیت پیدا کرنا ہے۔ قانون ساز اداروں میں ہمیں نمائندگی ملنی چاہیے تاکہ خواجہ سراؤں سمیت معاشرے کے محروم طبقات کے حقوق کے لیے آواز بلند کر سکیں۔ بڑی جماعتوں نے ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا، لیکن پاکستان تحریک انصاف گلالئی نے ٹکٹ دیا اور اس پر میں انتخابات میں حصہ لے رہی ہوں۔‘‘ اسی طرح مجاہد بابر (میڈم لبنٰی لعل) جہلم کے صوبائی حلقہ پی پی 26 سے تحریک انصاف گلالئی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’انتخابات میں حصہ لینا میرا جمہوری حق ہے تاکہ اہل علاقہ کے مسائل حل کر سکوں۔ سیاست دانوں نے ہمیشہ عوام کو مایوس کیا ہے۔ شہر کی صفائی، مہنگائی کا خاتمہ، ملازمتوں کی فراہمی اور امن و امان کو یقینی بنانے جیسی بنیادی ایشو ز میرے منشور کا حصہ ہیں۔‘‘

٭ بچوں کی والد کے لیے انتخابی مہم

انجنیئر قمر الاسلام راجہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر این اے 59، راولپنڈی سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں آزاد امیدوار چوہدری نثار علی خان اور تحریک انصاف کے غلام سرور خان میدان میں ہیں۔ ابھی انہوں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز بھی نہیں کیا تھا کہ نیب نے انہیں ’پنجاب صاف پانی کمپنی‘ میں مبینہ بدعنوانی کے الزامات پر گرفتار کرلیا۔ ان کی گرفتاری کے بعد ان کے 12سالہ بیٹے سالار اسلام راجہ اپنے والد کی انتخابی مہم چلارہے ہیں، جب کہ ان کی 17 سالہ بہن اسوہ قمر بھی اس میں ان کا ساتھ دے رہی ہیں۔ دونوں بہن بھائیوں کی اپنے والد کے لیے انتخابی مہم چلانے اور ان کے پُراعتماد انداز کی وجہ سے اس انتخابی مہم کو پورے ملک میں دل چسپی سے دیکھا جا رہا ہے۔

دنیا میں الیکشن۔۔۔۔ انوکھی روایات، قوانین اور چلن

دنیا بھر میں انتخابات کے حوالے سے بہت سے دلچسپ قوانین ہیں ۔ کچھ ممالک میں انتخابات کے لیے ایک دن مخصوص ہے تو کچھ ممالک میں ووٹ نہ دینا جُرم تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں انتخابات کے حوالے سے کچھ دل چسپ روایات ہیں جیسا کہ امریکی خلاباز ایک محفوظ ای میل کے ذریعے اپنا ووٹ دے سکتے ہیں اور اس مقصد کے لیے خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناس کی جانب سے خصوصی انتظام کیا جاتا ہے۔ خلا سے پہلا ووٹ 1997میں امریکی ریاست ٹیکساس میں کاسٹ کیا گیا تھا۔ دنیا کے بائیس ممالک ایسے ہیں ۔

جہاں ووٹ نہ دینے کی صورت میں اس حلقے کے ووٹر کو جیل یا جرمانہ عاید کیا جاتا ہے۔ آسٹریلیا، قبرص، لیگزمبرگ، ترکی، نورو اور چلی میں ووٹ نہ دینے پر جرمانہ عاید کیا جاتا ہے، جب کہ پیرو میں ووٹ نہ دینے والا شہری جرمانے کے ساتھ ساتھ تین ماہ کے لیے بینک اور دیگر مالیاتی اداروں میں رقوم کا لین دین نہیں کر سکتا۔ سنگا پور میں ووٹ نادہندہ کو انتخابی رجسٹر سے خارج کردیا جاتا ہے۔ برازیل میں ووٹ نہ دینے والے فرد کی تنخواہ روک لی جاتی ہے اور اگر وہ طالب علم ہے تو نہ ہی وہ کسی کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ لے سکتا ہے اور نہ ہی کوئی پروفیشنل امتحان دے سکتا ہے۔ یوروگوئے اور ارجنٹینا میں ووٹ نادہندہ پر جرمانہ عاید ہونے کے ساتھ اس کے شہری حقوق بھی ضبط کیے جاسکتے ہیں۔

ویٹی کن سٹی میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں ہے، جب کہ لبنان میں خواتین اسی صورت میں ووٹ ڈال سکتی ہیں جب تک وہ اس بات کا ثبوت پیش کردیں کہ انہوں نے ایلیمنٹری اسکول تک تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ مالٹا دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ووٹ دینے کی پابندی نہ ہونے کے باوجود ووٹر ٹرن آؤٹ دنیا میں سب سے زیادہ یعنی 94 فی صد ہے ۔ برطانیہ میں انتخابات ہمیشہ جمعرات ہی کو منعقد کیے جاتے ہیں، اور اس انوکھی منطق کی بنیاد یہ ہے کہ چوں کہ برطانیہ میں ہفتہ وار اجرت جمعے کو ملتی ہے اور جمعرات کو زیادہ تر لوگ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے شراب نوشی نہیں کرپاتے۔ اسی وجہ سے الیکشن کا دن جمعرات کا رکھا گیا ہے کیوں کہ اس دن لوگ سب سے زیادہ ہوش و حواس میں ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔