ایتھوپیا اور ارٹیریا مفاہمت اور امن کی راہ پر

اریٹیریا ماضی میں ایتھوپیا کا ایک صوبہ تھا جس کے پاس سمندر کا بہت وسیع ساحلی علاقہ ہے۔

اریٹیریا ماضی میں ایتھوپیا کا ایک صوبہ تھا جس کے پاس سمندر کا بہت وسیع ساحلی علاقہ ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

افریقی ملک ایتھوپیا اور اریٹریا کے سرحدی علاقے میں 18سال سے جنگ جاری تھی لیکن دونوں ملکوں کی قیادت کی معاملہ فہمی کے باعث اب بندوقیں خاموش ہو گئی ہیں۔ سرحدی شہروں میں امن کے باعث شہر یوں میں اطمینان کی لہر پیدا ہوگئی ہے۔

یہ امن اس صورت میں ہوا ہے جب اریٹیریا اور ایتھوپیا کے لیڈر باہمی تعلقات بحال کرنے پر رضا مند ہو گئے۔ کاروباری حلقوں کو امید پیدا ہوئی ہے کہ دونوں ملکوں میں تجارت پھر سے شروع ہو جائے گی اور سرحدی شہر جلد ہی دوبارہ ترقی کرنے لگیں گے۔ اس علاقے میں دونوں ملکوں کو ملانے والی شاہراہ کھل جاتی ہے تو یقیناً حالات بدل جائیں گے۔ آجکل ایتھوپیا کو افریقہ کا تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک تصور کیا جاتا ہے' اب جنگ بندی کے بعد چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے کاروبار میں کامیابی اور ترقی کی امید پیدا ہو گئی ہے۔

اس علاقے میں غربت نے پنجے گاڑ رکھے ہیں البتہ سرحد کے کھل جانے سے حالات کے یکسر بدل جانے کی توقع کی جانے لگی ہے۔ اریٹیریا پر اس وقت صدر عیسائس کی حکومت ہے۔وہ اپنے ملک کو بیرونی دنیا کے لیے کھولنے کے مخالف ہیں اور اپنے معاشرے کو الگ تھلگ رکھنے کے ہی قائل ہیں۔ حکومت کی اس پالیسی کی وجہ سے اس ملک میں کاروباری ترقی بہت کم ہے ۔


اگر اس علاقے کے نقشے پر نظر ڈالی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں ملک بحر احمر کے مغربی کنارے پر واقع ہیں جن سے اوپر کی طرف سوڈان ہے اور نیچے جبوتی جب کہ بحراحمر کے دوسری جانب سعودی عرب اور یمن ہیں جن کی اپنی کشیدگی کی داستانیں بھی عروج پر ہیں، ان سارے حالات کے اثرات ارد گرد بھی پھیلتے ہیں۔

جہاں تک ایتھوپیا اور اریٹیریا کے مابین ہونے والے امن معاہدے کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں امریکا کی جان ہوپکن یونیورسٹی کے پروفیسر سیٹھ کیلان نے کہا ہے کہ ایتھوپیا کی اقتصادیات کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ملک میں اقتصادی ترقی کے امکانات لامحدود ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ اس خطے کو دوبارہ جنگ و جدل میں دھکیلنے سے گریز کیا جائے اور علاقائی حکمرانوں کو باور کرایا جائے کہ خطے کی معاشی ترقی ان کے بہت زیادہ مفاد میں ہو گی۔

واضح رہے اریٹیریا ماضی میں ایتھوپیا کا ایک صوبہ تھا جس کے پاس سمندر کا بہت وسیع ساحلی علاقہ ہے جب کہ ایتھوپیا اپنے طور پر سمندر سے محروم یعنی لینڈ لاکڈ ملک ہے' اب ارٹیریا کے ایتھوپیا سے مل جانے کے بعد یہ دونوں مل کر ایک معقول ملک کی شکل اختیار کر لیں گے اور دونوں سمندری راستے سے اپنی تجارت کو فروغ دے سکیں گے۔ دونوں ملکوں میں جنگ دس سال سے زیادہ عرصہ تک جاری رہی ہے تاآنکہ مصالحتی کوششیں رنگ لے آئیں اور دونوں ملک دشمنی ختم کرکے مفاہمت پر آمادہ ہو گئے۔

ان دونوں ملکوں میں عیسائی اور مسلم کشیدگی بھی موجود ہے جب کہ یہودیوں کی موجودگی کی اطلاعات بھی ہیں شہنشاہ ہیل سلاسی خود یہودی تھے۔ ارٹیریا میں اکثریت مسلمانوں کی ہے جب کہ ایتھوپیا میں عیسائی اکثریت ہے۔ بہر حال دونوں ملکوں کی قیادت نے فہم و فراست کا راستہ اختیار کرتے ہوئے باہمی جنگ اور دشمنی کا خاتمہ کیا جو اس خطے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
Load Next Story