چیئرمین مسابقتی کمیشن اوردیگرکی تقرری کیخلاف درخواست پرنوٹس
این آئی آرسی کے کردار کی بحالی کے متعلق درخواستوں کی سماعت روزانہ کرنے کا فیصلہ.
این آئی آرسی کے کردار کی بحالی کے متعلق درخواستوں کی سماعت روزانہ کرنے کا فیصلہ. فوٹو: فائل
سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے مسابقتی کمیشن آف پاکستان کے سربراہ کی تقرری کے خلاف آئینی درخواست پر مدعا علیہان کو 30مئی کے لیے نوٹس جاری کردیے ہیں۔
رانا عزم الحسن ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں مسابقتی کمیشن کے سربراہ راحت کونین اورکمیشن کے دیگر 4 ارکان کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ ان عہدیداروں کو کمپٹیشن کمیشن آرڈیننس کے تحت نامزد کیا گیا تھا ، یہ آرڈیننس 16اگست 2010 کو اپنی مدت مکمل ہوجانے کے ختم ہوگیا تھا اور اس کی جگہ کمپٹیشن کمیشن ایکٹ 13اکتوبر 2010 کو نافذ ہوگیا تھا، درخواست گزار کے مطابق 15جنوری 2011 کو وفاقی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس کے مطابق ان عہدیداروں کو ماضی سے تحفظ دیدیا گیا ، جوکہ غیر قانونی ہے ، اسی بینچ نے کے ای ایس سی لیبر یونین سمیت دیگر 43 آئینی درخواستوں کی سماعت 20 مئی سے روزانہ کی بنیادوں پر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
درخواستوں میں موقف اختیارکیا گیا ہے کہ 18ویں ترمیم میں محکمہ محنت کو صوبوںکے حوالے کردیا گیا ہے اور وہی اس کے متعلق قانون سازی کے مجاز قرارپائے ہیں، لیبر یونین کے مطابق اس صورتحال میں وفاقی اداروں کے ملازمین پریشانی کا شکار ہوگئے ہیںکیونکہ ہر صوبے کا اپنا قانون ہے لیکن کئی ادارے ایک سے زائد صوبوں میں ہیں اس لیے وہ مختلف قوانین کاسامنا کررہے ہیں ، یہ ایک تضاد ہے کہ ایک محکمے کے ملازمین مختلف قوانین کا سامنا کریں جبکہ دنیا بھر میں مزدوروں کے بارے میں ایک جیسا ماحول فراہم کرنے کے لیے آئی ایل او کے تحت کنونشن منعقد کیے جارہے ہیں، اس لیے پاکستان میں مزدوروں کے متعلق ایک جیسے قوانین کے اطلاق کو یقینی بنایا جائے اور این آئی آر سی کے کردار کو بحال کیا جائے۔
رانا عزم الحسن ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں مسابقتی کمیشن کے سربراہ راحت کونین اورکمیشن کے دیگر 4 ارکان کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ ان عہدیداروں کو کمپٹیشن کمیشن آرڈیننس کے تحت نامزد کیا گیا تھا ، یہ آرڈیننس 16اگست 2010 کو اپنی مدت مکمل ہوجانے کے ختم ہوگیا تھا اور اس کی جگہ کمپٹیشن کمیشن ایکٹ 13اکتوبر 2010 کو نافذ ہوگیا تھا، درخواست گزار کے مطابق 15جنوری 2011 کو وفاقی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس کے مطابق ان عہدیداروں کو ماضی سے تحفظ دیدیا گیا ، جوکہ غیر قانونی ہے ، اسی بینچ نے کے ای ایس سی لیبر یونین سمیت دیگر 43 آئینی درخواستوں کی سماعت 20 مئی سے روزانہ کی بنیادوں پر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
درخواستوں میں موقف اختیارکیا گیا ہے کہ 18ویں ترمیم میں محکمہ محنت کو صوبوںکے حوالے کردیا گیا ہے اور وہی اس کے متعلق قانون سازی کے مجاز قرارپائے ہیں، لیبر یونین کے مطابق اس صورتحال میں وفاقی اداروں کے ملازمین پریشانی کا شکار ہوگئے ہیںکیونکہ ہر صوبے کا اپنا قانون ہے لیکن کئی ادارے ایک سے زائد صوبوں میں ہیں اس لیے وہ مختلف قوانین کاسامنا کررہے ہیں ، یہ ایک تضاد ہے کہ ایک محکمے کے ملازمین مختلف قوانین کا سامنا کریں جبکہ دنیا بھر میں مزدوروں کے بارے میں ایک جیسا ماحول فراہم کرنے کے لیے آئی ایل او کے تحت کنونشن منعقد کیے جارہے ہیں، اس لیے پاکستان میں مزدوروں کے متعلق ایک جیسے قوانین کے اطلاق کو یقینی بنایا جائے اور این آئی آر سی کے کردار کو بحال کیا جائے۔